دنیا اس وقت ایک غیر معمولی غذائی بحران کا شکار ہو رہی ہے اور یوکرین جنگ اس میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ اس کے بدترین اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں کروڑوں افراد کو غذائی قلت اور قحط کا خطرہ ہے۔
عالمی اداروں کی کوششوں سے دنیا میں بھوک اور غربت میں کسی حد تک کمی ہو رہی تھی تاہم 2014ء کے بعد اس کا گراف دوبارہ اوپر جانے لگا ہے اور گزشتہ دو سالوں کے دوران تو خوراک کی کمی کے شکار افراد کی تعداد دُگنا سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔
تقریباَََ 80 کروڑ افراد پہلے ہی خالی پیٹ سونے پر مجبور ہیں اور اب ایک نیا غذائی بحران سر پر منڈلا رہا ہے۔
کووڈ کی وجہ سے عالمی سطح پر اشیائے خوراک کی رسد میں رکاوٹوں کی وجہ سے 2022ء کو پہلے ہی مشکل ترین سال تصور کیا جا رہا تھا جس میں مہنگائی، بے روزگار ی اور بھوک بڑھنے کے خدشات تھے۔
کووڈ کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں نے بھی خوراک کی پیداوار اور رسد پر منفی اثرات مرتب کیے۔ ان دونوں عوامل کے باعث عالمی سطح پر گندم کی رسد چار سال کی کم ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی اور گندم درآمد کرنے والے ملکوں میں قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیے:
سری لنکا معاشی بحران کا شکار کیوں ہوا؟
پٹرول و ڈیزل کے بعد خوردنی تیل کا عالمی بحران بھی سر پر منڈلا رہا ہے
اور پھر جنگ لگ گئی۔ جس کی وجہ سے یوکرین کی 25ملین ٹن گندم کی برآمدات معطل ہو گئیں۔ یہ اتنا بڑا ذخیرہ ہے جو کئی ترقی پذیر ملکوں کی سالانہ کھپت کے برابر ہے۔
روس اور یوکرین گندم برآمد کرنے میں سرفہرست ہیں۔ انہیں دنیا کی بریڈ باسکٹ کہا جاتا ہے لیکن گزشتہ تقریباََ چار ماہ سے جاری جنگ کی وجہ سے یہ بریڈ باسکٹ بند پڑی ہے۔ اس صورتحال نے عالمی سطح پر غذائی بحران کے مزید شدت اختیار کرنے کے خدشات میں اضافہ کر دیا ہے اور ہر جگہ قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے چیف اکانومسٹ عارف حسین کہتے ہیں فرض کریں اگر آپ کا ملک پہلے یوکرین سے گندم خرید رہا تھا اور اَب آسٹریلیا، کینیڈا یا ارجنٹائن سے درآمد کر رہا ہے توفریٹ چارجز کی وجہ سے درآمدی اخراجات میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کا براہ راست اثر صارفین پر ہی پڑے گا ۔پھر ترسیل میں بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہےجس سے درآمد کنندہ ملک میں قیمتیں مزید اوپر جا سکتی ہیں اور پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کے اشتعال میں اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ بحران سری لنکا کی طرح کئی ممالک میں پرتشدد داخلی خلفشار کا باعث بن سکتا ہے۔
تیونس اپنی ضرورت کی تقریباََ 42 فیصد گندم یوکرین سے درآمد کرتا ہے اور خوردنی تیل کیلئے بھی اسی پر انحصار کرتا ہے لیکن جنگ کےبعد تیونس گورنمنٹ کسی ایسے سپلائر کی تلاش میں ہے جس سے درآمدی بل بڑھائے بغیر دونوں کموڈٹیز خریدی جا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں خوراک کی قلت کے باعث عوام کی بھوک غصے اور اشتعال میں بدل رہی ہے اور وہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔
2008ء کے عالمی معاشی بحران میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جب تقریباََ 40 ملکوں میں مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے اور پرامن احتجاج پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہو گئےتھے ۔
دی اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق سپلائی چین کے مسائل اور جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر صرف خوراک کا بحران ہی جنم نہیں لے رہا بلکہ توانائی کا بحران بھی سر پر منڈلا ہے اور فرٹیلائزر سیکٹر بھی اس کی زد پر ہے۔
ظاہر ہے زراعت کا دارومدار سستے ایندھن اور کھادوں پر ہوتا ہے لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران دونوں کی قیمتوں میں اضافے نے کسانوں کیلئے مشکلات کھڑی کر دی ہیں ۔ بڑے کسانوں کے منافع میں کمی ہوئی ہے جبکہ چھوٹے اور کم رقبے کے حامل کسانوں کیلئے زراعی اخراجات پورے کرنا ہی ناممکن ہو چکا ہے۔
اس صورتحال میں کسان کھادوں کا استعمال کم یا بالکل ترک کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ جیسا کہ پاکستان میں ڈی اے پی کھاد کی قیمت 10 ہزار سے زائد ہونے کی وجہ سے اس کے استعمال میں کافی کمی ہو چکی ہے ۔کھادوں کے کم استعمال کے نتیجے میں زرعی پیداوار بھی کم ہو گی جو سر پر کھڑے غذائی بحران کو مزید شدید کر دے گی۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے چیف اکانومسٹ اشیا ئے خورونوش کی عدم دستیابی کا خدشہ بھی ظاہر کررہے ہیں جس کے نتیجے میں قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس بحران سے کرہ ارض کا شائد ہی کوئی ملک محفوظ ہو۔ امریکا میں خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے مہنگائی 1981ء کے بعد بلند ترین سطح پر ہیں۔ برطانیہ میں گزشتہ ایک عشرے کے دوران اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ایسا اضافہ نہیں دیکھا گیا۔
غریب اور کم آمدن والے ممالک کی صورت حال کہیں زیادہ خراب ہے۔ پاکستان میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگائی کی شرح 22 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو 2008ء کے بعد بلند ترین ہے۔ اسی طرح پٹرول ، ڈیزل اور بجلی کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔
اکانومسٹ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ رواں سال کے آخر تک مہنگائی کی وجہ سے کئی ملکوں میں بدامنی پیدا ہو سکتی ہے اور اس کی وجہ صرف عوام کا اشتعال اور غصہ ہی نہیں بلکہ بھوک سے مرنے کا خوف انہیں حکومتوں کے خلاف اٹھنے پر مجبور کر دے گا۔
وہ ممالک جنہیں سپلائی چین کے مسائل درپیش نہیں وہ خوراک کا ناصرف وسیع پیمانے پر ذخیرہ کر رہے ہیں بلکہ برآمدات پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ مثال کے طور پر بھارت گندم کی برآمد پر پابندی عائد کر چکا ہے ۔ اسی طرح چند ماہ قبل ملائیشیا نے پام آئل کی برآمد روک دی تھی ۔
مجموعی طور پر 23 ممالک خوراک کی برآمدات پر پابندی لگا چکے ہیں۔ پابندی جاری رہی تو اُن ملکوں میں کسان ذخیرہ اندوزی کر یں گے یا پھر دیگر فصلوں کی جانب متوجہ ہو جائیں گے جس سے پیداور میں کمی اور قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ یوں فوڈ ایکسپورٹ بین عالمی مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دے گا اور غریب ممالک شائد یہ سب کچھ برداشت نہ کر سکیں۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ حکومتوں کو چاہیے کہ خوراک اور ایندھن کی عوام کو مسلسل اور سستے داموں فراہمی یقینی بنانے کیلئے اقدامات کریں اور آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی ادارے معاشی مشکلات کی شکار حکومتوں کی مدد کریں تاکہ وہ خوراک درآمد کر سکیں اور دنیا کو غذائی بحران اور ممکنہ قحط سے بچایا جا سکے۔
اسی طرح اشیائے خوراک کی قیمتوں میں کمی یوکرین جنگ کے خاتمے سے بھی وابستہ ہے کیونکہ یوکرین کی 25 ملین ٹن گندم مارکیٹ میں آنے سے قیمتیں کم ہو جائیں گی اور غریب ممالک کیلئے اسے درآمد کرنا آسان ہو جائے گا۔
ان اقدامات سے گلوبل فوڈ کرائسز سے تو کسی حد تک بچا جا سکے گا تاہم یہ دنیا کو خوراک سے متعلق درپیش طویل المدتی مسائل کا حل نہیں۔ محض 10 ممالک دنیا کی 90 فیصد برآمدات کرتے ہیں جن میں گندم ، مکئی ، چاول اور سویابین جیسی کموڈٹیز شامل ہیں۔ان ممالک میں پیدا ہونے والے کسی مسئلے کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اسی لیے ماہرین بالخصوص خوراک کیلئے صرف ایک یا دو ملکوں پر انحصار کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔