کورونا وبا کے بعد دنیا کو معاشی کساد بازاری، تیل و گیس اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے جیسی مشکلات کا سامنا ہے۔
دنیا بھر میں حکومتیں اربوں ڈالرز کے قرضے لے کر، عوام پر نت نئے ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر اور اس قسم کے دیگر اقدامات کے ذریعے اپنی اپنی معیشت کو سہارا دینے کی کوششوں میں لگی ہیں۔
تاہم ان تمام اقدامات کے باوجود حکومتیں اپنی توقع کے مطابق پیسہ اکٹھا نہیں کر پا رہیں۔ بالخصوص پاکستان جیسے کم آمدن والے ملکوں کو اور بھی مشکلات کا سامنا ہے جن پر پہلے ہی قرضوں کے پہاڑ موجود ہیں۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور صارفین کی قوت خرید سکڑ چکی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومتیں پیسہ بناتی کیسے ہیں؟
اکثر حکومتوں کیلئے پیسہ بنانے کا بنیادی ذریعہ ٹیکس ہیں۔ مثال کے طور پر برطانوی حکومت کے ریونیو کا سب سے بڑا حصہ عوام پر لگائے گئے ٹیکسوں سے آتا ہے۔ جیسے کہ انکم ٹیکس اور نیشنل انشورنس کنٹری بیوشن وغیرہ۔ برطانیہ میں نوکری پیشہ افراد کی تنخواہ سے یہ ٹیکس ایک مخصوص شرح کے ساتھ ہر ماہ کاٹ لیے جاتے ہیں۔
امریکا میں تنخواہ دار طبقے کی گزشتہ سال کی مجموعی آمدن دیکھ کر اُس حساب سے انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔
اسی طرح پاکستان میں حکومت نے حال ہی میں تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح میں ردوبدل کیا ہے۔ اگر آپ ماہانہ 50 ہزار روپے اور سالانہ 6 لاکھ روپے کماتے ہیں تو آپ پر کوئی ٹیکس نہیں لگے گا۔
لیکن اگر آپ سالانہ 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے تک کماتے ہیں تو آپ کو 2.5 فیصد انکم ٹیکس دینا ہو گا۔
اسی طرح سالانہ ایک کروڑ 20 لاکھ روپے آمدن والوں کو 29 لاکھ 55 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس دینا ہو گا جبکہ اس سے زیادہ سالانہ آمدن پر 35 فیصد کے حساب سے ٹیکس عائد ہو گا۔
حکومتیں اشیاء اور سروسز کی خریدوفروخت پر مختلف قسم کے براہ راست ٹیکس بھی لگاتی ہیں۔ پاکستان میں ماچس کی ڈبیا سے لے کر بجلی استعمال کرنے اور کار خریدنے پر آپ کو جنرل سیلز ٹیکس دینا پڑتا ہے۔
بعض اوقات مخصوص ٹیکسوں کا نفاز کیا جاتا ہے جیسا کہ بچوں میں موٹاپے کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کیلئے برطانیہ نے 2018ء میں شوگر ٹیکس لگایا تاکہ عوام شوگر پر مشتمل سافٹ ڈرنکس کم خریدیں۔
کچھ ملکوں نے سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کیلئے تمباکو ٹیکس کا نفاذ کر رکھا ہے۔
کئی ملکوں میں پٹرول اور ڈیزل پر چلنے والے کاروں پر ٹیکس کی شرح کافی زیادہ ہے کیونکہ وہ آلودگی پھیلاتی ہیں۔ اس طرح عوام کو ماحول دوست الیکٹرک کاروں کی جانب راغب کیا جاتا ہے۔
حکومتوں کو دوسری بڑی آمدن رہائشی اور کمرشل پراپرٹی پر ٹیکس عائد کرکے حاصل ہوتی ہے۔
پاکستان میں حکومت چار قسم کے پراپرٹی ٹیکس وصول کرتی ہے۔
1۔ کیپٹل گین ٹیکس (CGT)
2۔ کیپٹل ویلیو ٹیکس (CVT)
3۔ سٹامپ ڈیوٹی
4۔ وِدہولڈنگ ٹیکس یا ایڈوانس ٹیکس
امریکا میں حکومت کا کم و بیش آدھا ریونیو انکم ٹیکسز اور ایک تہائی پیرول ٹیکسز سے آتا ہے جن سے حکومت سماجی تحفظ کے پروگرام چلاتی ہے۔ کمپنیوں سے ان کے سالانہ منافع پر الگ سے کارپوریٹ ٹیکس لیا جاتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس کا نظام تقریباََ ایک جیسا ہے۔ وہاں شہری سب سے زیادہ انکم ٹیکس جمع کراتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ حکومت ان کے ٹیکس سماج کے بہتری کیلئے استعمال کرے گی۔
تاہم اکثر ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کی حکومتیں اپنی معاشی نوعیت کے حساب سے زیادہ تر تجارتی سرگرمیوں اور مصنوعات پر ٹیکس عائد کرکے پیسہ کماتی ہیں۔
مثال کے طور زراعت سے منسلک افراد کی کوئی مخصوص ماہانہ یا سالانہ آمدن نہیں ہوتی اس لیے ان پر انکم ٹیکس عائد کرنا مشکل ہوتا ہے۔
تاہم کسان جب کھادیں یا زرعی ادویات خریدتے ہیں تو جنرل سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ یا پھر پاکستان میں نہری پانی سے سیراب ہونے والی زمینوں کے کسانوں سے ہر سال آبیانہ کے نام پر معمولی ٹیکس لیا جاتا ہے۔
اکثر پسماندہ ملکوں میں ٹیکس جمع کرنے کا نظام بھی کمزور اور غیرموثر ہے جس کی وجہ سے حکومت کیلئے پیسہ اکٹھا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں تقریباََ 30 لاکھ افراد ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں یعنی 22 کروڑ آبادی کا محض ڈیڑھ فیصد ٹیکس دیتے ہیں۔
کم ٹیکس آمدن کا مطلب ہے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ۔ اس کی واضح مثال پاکستان میں حکومت کی جانب سے انکم ٹیکس میں اضافہ اور انڈسٹری پر سپر ٹیکس کا نفاذ ہے۔ اگرچہ اس کے اسباب کچھ اور بھی ہیں۔
کوئی ملک جتنا بھی امیر ہو وہاں حکومت کو امورِ سلطنت چلانے کیلئے بہرحال ٹیکسوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ سعودی عرب میں عوام سے انکم ٹیکس نہیں لیا جاتا لیکن 2020ء میں سعودی حکومت کو سرکاری اخراجات میں اضافے کی وجہ سے ٹیکسوں کی شرح تین گنا بڑھا کر 15 فیصد کرنا پڑی۔
عموماََ حکومتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اخراجات اور آمدن کا توازن رہے لیکن خسارے کی صورت میں انہیں آمدن بڑھانے کیلئے قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے لیکن بلند شرح سود اور قرض واپسی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ یہی قرضے ملک کا دیوالیہ نکال سکتے ہیں۔
مالیاتی ادارے قرض دینے سے پہلے متعلقہ ملک کی قرض واپسی کی اہلیت بھی دیکھتے ہیں۔ جن ملکوں کی قرض واپسی کی اہلیت کم ہوتی ہے انہیں زیادہ شرح سود پر قرض دیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ شہریوں پر ٹیکس دینے پر زور دیا جاتا ہے۔
کورونا وبا کے دوران ویکسین اور ادویات کی خریداری، معاشی پیکجز اور ٹیکس ریلیف جیسے اقدامات کی وجہ سے دنیا بھر کی حکومتوں کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران معاشی سرگرمیاں مکمل یا جزوی طورپر معطل رہیں اور اکثر حکومتوں کے خزانے خالی ہونے لگے۔
دنیا کے اکثر رہنما عوام پر نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے علاوہ بڑی ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل کمپنیوں پر ٹیکس بڑھانے کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔
ملکی معیشت کا پہیہ رواں رکھنے کیلئے شہریوں کی شمولیت بھی ضروری ہوتی ہے۔ اسی لیے دنیا بھر میں حکومتیں اپنی آمدن بڑھانے کیلئے ٹیکسوں میں اضافہ کر رہی ہیں تاکہ انہیں اخراجات پورے کرنے کیلئے بھاری شرح سود پر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے نہ لینا پڑیں۔