حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں ڈالر 190 روپے سے اوپر چلا گیا ہے، معیشت تباہ و برباد ہو گئی ہے اور اگر 20 مئی سے قبل الیکشن کا اعلان نہ ہوا تو پاکستان کی صورت حال سری لنکا سے بدترین ہو سکتی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ سری لنکا میں ایسی کیا صورت حال پیدا ہو چکی ہے جو فواد چوہدری کو پاکستان کا موازانہ سری لنکا سے کرنا پڑا؟
دراصل سیاحت اور ترسیلات ِزر پر گزارا کرنے والا دو کروڑ سے زائد آبادی کا حامل سری لنکا تاریخ کے بدترین معاشی بحران اور سیاسی عدم ِاستحکام سے دوچار ہے۔
اشیائے خوراک کمیاب ، ادویات عدم دستیاب، بجلی اور تیل نایاب ہے اور مہنگائی کے ستائے عوام گزشتہ کئی ہفتوں سے سڑکوں پر ہیں۔
یہ مظاہرے اَب پرتشدد صورت اختیار کر چکے ہیں اور مشتعل مظاہرین کی جانب سے سابق وزیراعظم اور کئی وزراء کے گھروں پر بھی حملے کیے گئے ہیں جس کے بعد صدر
گوتابایا راجہ پاکسے کو پہلے ایمرجنسی اور بعد ازاں 11 مئی کو ملک گیر کرفیو کا نفاذ کرتے ہوئے مظاہرین کو دیکھتے ہی گولی مار نے کا حکم دینا پڑا۔
سری لنکا اِن حالات کو کیسے پہنچا؟
سری لنکا میں یہ بحران اچانک پیدا نہیں ہوا بلکہ گزشتہ دو سالوں سے ملک مہنگائی اور کرنسی کی قدر گرنے جیسے گھمبیر مسائل سے دوچار تھا۔ حال ہی اشیائے خورونوش، ادویات کی شدید قلت اور طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
سری لنکا کے معاشی بحران کی ایک بڑی وجہ امریکی ڈالر سے بھی جڑی ہے۔
چونکہ زرمبادلہ ذخائر ، دنیا کے ساتھ تجارت اور قرض ادائیگیوں کیلئے حکومتوں کو امریکی ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ہر ملک کا مرکزی بینک کوشش کرتا ہے کہ وہ ڈالر کے زیادہ سے زیادہ ذخائر اپنے پاس رکھے۔
تاہم سری لنکا کے مرکزی اور دیگر بینکوں کی تجوریاں ڈالروں سے خالی ہو چکی ہیں اور ملک درآمدات کے قابل ہے نہ ہی اپنے قرضے ادا کر پا رہا ہے۔
لیکن سری لنکا کے پاس ڈالروں کی اس قدر کمی ہوئی کیسے ؟
یہ کہانی 2019ء سے شروع ہوتی ہے، جب گوتابایا راجہ پکسے سری لنکا کے صدر بنے تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے ٹیکسوں میں بھاری چھوٹ کااعلان کر دیا کہ اس سے لوگوں کا پیسہ بچے گا اور وہ ملکی معیشت میں زیادہ پیسہ خرچ کریں گے جس سے معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی۔
لیکن اس ٹیکس چھوٹ نے پہلے سے خسارہ زدہ بجٹ کو مزید خسارے سے دوچار کر دیا۔ اوپر سے کورونا کی وبا آن پڑی تو حکومت کو لاک ڈائون لگانا پڑا۔
اصل مسائل یہیں سے شروع ہوئے ۔ لاک ڈائون کے نفاذ کے ایک ہفتے کے اندر سری لنکا میں غذائی قلت نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ ملکی معیشت کو چلانے والی اور سالانہ اربوں ڈالر کما کر دینے والی سیاحتی انڈسٹری مکمل بند ہو گئی اور 2020ء کے دوران معیشت تین اعشاریہ چھ فیصد تک سکڑ گئی۔
سری لنکا میں روپیہ چلتا ہے اور ڈالر زیادہ تر سیاحوں کے ذریعے آتے ہیں یا پھر اوورسیز سری لنکن ورکرز ترسیلات زر کی شکل میں بھیجتے ہیں لیکن کورونا کی وجہ سے سیاحت بند ہوئی تو ڈالر آنا بھی بند ہو گئے ۔ تاہم اس دوران درآمدات کیلئے ادائیگیاں جاری رہیں۔ یوں بینکوں کے پاس جمع شدہ ڈالر بھی تیزی سے ختم ہونے لگے۔
حکومتیں برآمدات کرکے ، ترسیلات زر کی صورت یا پھر عالمی مارکیٹ میں بانڈز فروخت کرکے ڈالر کماتی ہیں۔ یہ بانڈز بھی ڈالر میں جاری کیے جاتے ہیں اور ان پر سود کی ادائیگی بھی ڈالر میں ہوتی ہے۔
سری لنکا بھی ایسا ہی کرتا تھا لیکن جب ملک میں ڈالروں کی آمد کم اور انخلاء زیادہ ہو گیا تو یہ بانڈز جاری کرنے کے قابل بھی نہ رہا جس کی وجہ سے قرض ادائیگی بھی رک گئی۔
قرضے عام انسانوں کی طرح ملکوں کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑتے۔ پاکستان جیسے کئی ممالک پرانے قرضے اور ان پر بھاری سود ادا کرنے کیلئے نئے قرضے لیتے رہتے ہیں اور بالآخر قرضوں کے بوجھ تلے دبتے چلے جاتے ہیں۔ سری لنکا کیساتھ بھی یہی ہوا۔ یعنی پرانے قرض کی ادائیگی کیلئے نئے قرضے لیے جاتے رہے اور مجموعی قرضوں کا حجم 50 ارب ڈالر سے بھی بڑھ گیا۔
لیکن کورونا وبا کے دوران جب سری لنکا کی معاشی حالت پتلی ہونا شروع ہوئی تو عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے اس کی ریٹنگ کم کر دی ۔
یوں عالمی مالیاتی اداروں نے کمزور کریڈٹ ریٹنگ اور ٹیکس چھوٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ کر مزید قرضے دینے سے انکار کر دیا کہ گرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے مزید قرض دینا اپنا پیسہ ڈبونے کے مترادف ہےکیونکہ ملک قرض واپس کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتا۔
گزشتہ ماہ سری لنکن حکومت نے 51 ارب ڈالر قرض ادائیگی سے معذرت کرتے ہوئے ملک کو دیوالیہ قرار دے دیا اور ایسا 1948ء میں سری لنکا کی آزادی کے بعد پہلی بار ہوا ہے۔
حکومتیں بیرون ملک سے درآمدات کیلئے زرمبادلہ ذخائر پر انحصار کرتی ہیں لیکن ڈالر تیزی سے ختم ہونے لگے تو سری لنکن حکومت نے باہر سے موبائل فونز، شراب ، فرنیچر اور اس قسم کی دیگر درآمدات پر پابندی لگا دی تاکہ زرمبادلہ بچا کر پٹرولیم اور خوراک کی درآمد پر خرچ کیا جا سکے۔
سری لنکن صدر نے باہر سے کیمیائی کھادوں کی درآمد پر بھی پابندی عائد کر دی لیکن جلد بازی میں لگائی گئی اس پابندی کیخلاف کسان سڑکوں پر نکل آئے اور ملک میں اشیائے خوراک کی قیمتیں بلند ہوگئیں جس پر حکومت کوکھادوں کی درآمد کھولنا پڑی۔
2019ء گوتابایا راجہ پاکسے کے صدر بننے کے وقت آٹھ سے نو ارب ڈالر قومی خزانے میں موجود تھے جو اَب 10 کروڑ ڈالر سے بھی کم ہو چکے ہیں۔
صورت حال اس قدر خراب ہے کہ اپریل میں ایل پی جی کا ایک جہاز سری لنکن بندرگاہ پر پہنچا جسے 50 لاکھ ڈالر ادائیگی کرنا تھی لیکن وہ بھی نہ ہو سکی۔
سری لنکا کے پاس ڈیزل درآمد کرنے کیلئے بھی ڈالر موجود نہیں جس کے باعث پبلک ٹرانسپورٹ تقریباََ بند ہے ۔ڈیزل نہ ہونے سے پاور پلانٹس بھی بند ہیں اور ملک میں آدھا دن بلیک آئوٹ رہتا ہے۔
معاشی بحران کے باعث سری لنکا میں ادویات کی بھی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے جس کیلئے حکومت بھارت اور چین کے علاوہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے امدادی پیکج حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔
تاہم ماہرین تجویز دے رہے ہیں کہ عالمی مالیاتی اداروں سے امدادی پیکج ملنے تک اوورسیز سری لنکن ورکرز اگر ملکی بینکوں میں اکائونٹ کھول کر براہ راست ڈالر بھیجیں تو حکومت کم از کم پٹرولیم، ادویات اور خوراک جیسی انتہائی ضروری درآمدات کیلئے ادائیگیاں کرنے کے قابل ہو سکتی ہے۔
سری لنکا تیس سالوں تک خانہ جنگی اور دہشتگردی کا شکار رہا ہے اور سری لنکن قوم نے مشکل ترین حالات کا مقابلہ کیا ہے لیکن حالیہ معاشی بحران کی وجہ سے گزشتہ کئی ہفتوں سے عوام سڑکوں پر ہیں اور وزیراعظم کے بعد صدر سے بھی استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
12 مئی کو رانیل وکرما سنگھے نے نئے وزیراعظم کا حلف اٹھایا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ معاشی بحران سے ملک کو نکال کر وہ مردِ بحران ثابت ہوتے ہیں یا سری لنکن عوام کی مشکلات یوں ہی جاری رہیں گی۔