تقریباََ 50 سال قبل دبئی میں تیل دریافت ہوا، گو کہ تیل اس ریاست کے جی ڈی پی کا محض ایک فیصد ہے لیکن ایک شخص کے فیصلے نے محاورتاََ نہیں بلکہ حقیقتاََ دبئی کی قسمت بدل دی۔ یہ شہر اَب عالمی کاروبار، تجارت اور سیاحت کا مرکز ہے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کی یہ ریاست اتنی امیر کیسے ہوئی؟ دبئی کی دولت کا سب سے بڑا حصہ اس کی جدید ترین بحری سرگرمیوں سے آتا ہے۔
ایک زمانے میں یہ مچھلیاں پکڑنے والوں کی بستی تھی جو بیسویں صدی کے اوائل میں اہم ترین تجارتی بندرگاہ بن گئی۔ ایران اور خلیج فارس کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے اس بندرگاہ نے پورے خطے کے تاجروں کو متوجہ کیا۔
آج دبئی کی سب سے بڑی کارگو پورٹ جبلِ علی مشرق وسطیٰ کی مصروف ترین بندرگاہ اور متحدہ عرب امارات کا قیمتی ترین کمرشل اثاثہ ہے۔ اس کے شپنگ ٹرمینل کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ یہ جبل علی فری زون یعنی جافزا کے اندر واقع ہے۔
57 مربع کلومیٹر پر محیط جافزا دنیا کا سب سے بڑا اکنامک فری زون ہے جو دبئی کے اردگرد موجود 20 سے زائد چھوٹے بڑے فری زونز میں سے ایک ہے جو حکومت نے مختلف انڈسٹریز کیلئے قائم کیے ہیں اور ایک اتھارٹی کے تحت چلائے جا رہے ہیں۔
ٹیکس چھوٹ، کسٹمز ڈیوٹیز میں رعایت اور دیگر سہولیات کی وجہ سے یہ اکناک فری زونز سالانہ اربوں ڈالر کماتے ہیں۔ یہاں غیرملکیوں کو ملکیت کے مسائل کا سامنا نہیں اور تجارتی اداروں کو تمام سہولیات جدید ترین انفراسٹرکچر کے اندر مہیا کی جاتی ہیں۔
جافزا میں سینکڑوں کمپنیوں کے دفاتر ہیں جو متحدہ عرب امارات میں بیرونی سرمایہ کاری کا 20 فیصد لا رہی ہیں۔
یہ فری زون ڈیڑھ لاکھ افراد کو روزگار مہیا کر رہا ہے جبکہ اس کے ذریعے 80 ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے جو دبئی کے جی ڈی پی کا 21 فیصد ہے۔
تارکین وطن کی آبادی کے اعتبار سے متحدہ عرب امارات چھٹے نمبر پر ہے اور غیرملکی اس کی آبادی کا 80 فیصد ہیں
جن میں سے اکثریت کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے جو یو اے ای میں تعمیراتی منصوبوں پر کام کرکے روزی روٹی کما رہے ہیں۔
پہلے انہیں مخدوش ترین حالات میں کم تنخواہوں پر طویل گھنٹوں تک کام کرنا پڑتا تھا۔ اکثریت کو سالوں تک اپنے وطن واپس جانا نصیب نہیں ہوتا تھا کیونکہ ان کے پاسپورٹ ضبط کر لیے جاتے تھے۔
لیکن 2017ء میں عالمی تنقید کے بعد امارات کی فیڈرل نیشنل کونسل نے ایک بل منظور کر کے ورکرز کو کام پر رکھنے کیلئے کنٹریکٹ لازمی قرار دے دیا۔
اس کے علاوہ سالانہ ایک ماہ کی بامعاوضہ چھٹی، ہفتہ وار ایک دن کی رخصت اور میڈیکل انشورنس جیسی سہولیات بھی دی گئیں۔
لیکن اسی سستی ترین لیبر نے دبئی کو دنیا کا تیزی سے ترقی کرتا ہوا شہر بنا دیا۔
اگرچہ دبئی متحدہ عرب امارات کی سب سے بڑی اور زیادہ آبادی والی ریاست ہے لیکن امیر ترین ریاست ابوظہبی ہے جس کے پاس دنیا کے تیل کے 9 فیصد ذخائر موجود ہیں۔
1930ء میں ابوظہبی میں تیل کے ذخائر دریافت ہونا شروع ہو گئے تھے لیکن اس کے ہمسائے دبئی میں ابھی تیل دریافت نہیں ہوا تھا۔
تیل کی دریافت اُس زمانے میں ہو رہی تھی جب دنیا میں جواہرات کی صنعت زوال پذیر تھی جو اُس دور میں خلیجی ریاستوں کیلئے کمائی کا بنیادی ذریعہ تھی۔
ان حالات میں دبئی اور ابوظہبی کے درمیان محاذ آرائی شروع ہو گئی جو 1947ء میں ایک سرحدی جھگڑے کی وجہ سے مسلح جنگ میں بدل گئی۔
برطانوی مداخلت کی وجہ سے دونوں ریاستوں کی دشمنی قدرے ٹھنڈی تو پڑ گئی لیکن اس تصادم کے نتیجے میں دبئی بدترین معاشی مشکلات کا شکار ہو گیا اور شہری بھوکوں مرنے پر مجبور ہو گئے، بچ جانے والوں نے دوسری خلیجی ریاستوں کا رخ کر لیا۔
یہاں سے شیخ راشد بن سعید المکتوم کا کردار شروع ہوتا ہے۔ 1958ء میں دبئی کی مسند اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں نے ریاست کی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔
اس وقت تک بندرگاہ کی وجہ سے کچھ سرمایہ آ رہا تھا۔ اس کے ساتھ شیخ راشد نے عالمی اداروں سے قرضے لیے اور نجی کمپنیاں قائم کرنا شروع کر دیں جنہوں نے بعد میں ریاست میں بجلی کا ترسیلی نظام، ٹیلی فون سروس، بندرگاہیں اور پہلا ائیرپورٹ تعمیر کیا۔
دبئی سمیت پورے متحدہ عرب امارات میں ترقی کیلئے سب سے زیادہ برطانوی حکومت نے مدد کی۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کا آغاز 19ویں صدی کے آخر میں ہوا جب برطانیہ نے اس علاقے کو تحفظ دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔
اب بھی متحدہ عرب امارات بالخصوص دبئی کے ساتھ برطانیہ کے کاروباری تعلقات کافی مضبوط ہیں۔ برطانیہ کی لندن گیٹ وے پورٹ، جو لندن کو سمندر کے راستے دنیا کے 90 شہروں سے ملاتی ہے، اسے چلانے والی ڈی پی ورلڈ نامی کمپنی دبئی میں قائم ہے۔
1966ء میں جب دبئی میں تیل کے اولین ذخائر دریافت ہوئے تو برطانیہ اور دبئی کے تعلقات میں نئی جہت آ گئی اور یہ مزید گرم جوش ہو گئے۔
تیل کی دریافت کی خبر عوام کو سناتے ہوئے شیخ راشد نے اعلان کیا “میرے پاس ایک اچھی اور ایک بُری خبر ہے۔ ہمیں تیل تو مل گیا ہے، لیکن بہت زیادہ مقدار میں نہیں مل سکا۔”
لیکن ترقی کرنے کیلئے اس شہر کا انحصار صرف تیل کی آمدن پر نہیں تھا بلکہ دبئی کی معیشت کو تجارت، سیاحت اور فنانس پر کھڑا کیا گیا اور یہی شیخ راشد بن سعید کی حکمت عملی تھی جس پر انہوں نے تیل کی ساری آمدن خرچ کی۔
آج جبکہ دنیا میں قابل تجدید توانائی کا استعمال بڑھ رہا ہے اور تیل کا استعمال محدود ہوتا جا رہا ہے تو ان حالات کے تناظر میں شیخ راشد بن سعید المکتوم کا تیل پر انحصار نہ کرنے کا فیصلہ بالکل درست تھا۔
دبئی میں دنیا کا مصروف ترین ہوائی اڈا ہے جس نے شہر کو مشرق کا گیٹ وے بنا دیا ہے اور ہر سال لاکھوں سیاح دبئی آتے ہیں۔ یہ سب کچھ بہترین انفراسٹرکچر کی بدولت ممکن ہوا ہے۔
آج دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے تو شیخ راشد بن سعید المکتوم کا دبئی کی ترقی کیلئے اربوں ڈالر کے قرضے لینے کا فیصلہ بھی درست نظر آتا ہے جس نے دبئی کو دنیا کے امیر ترین اور ترقی یافتہ شہروں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔