دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جسے آپ ایک گھنٹے میں پورا گھوم سکتے ہیں، اس قدر چھوٹا ملک کئی بڑے اور وسائل سے بھرپور ملکوں سے زیادہ امیر ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں جنوب مشرقی ایشیا میں واقع سنگاپور کی جو 9 اگست 1965ء کو ملائیشیا سے الگ ہو کر خودمختار ریاست بنا۔
سنگاپور کی آبادی تقریباََ 56 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور اس کی فی کس آمدنی جاپان، جرمنی اور فرانس سے زیادہ ہے۔ 2020ء میں سنگارپور کا جی ڈی پی 340 ارب ڈالر تھا جبکہ اسی سال پاکستان کا جی ڈی پی 263 ارب ڈالر تھا۔
سنگاپور کے پاس تیل اور کوئلے جیسے قدرتی وسائل موجود نہیں، اس کے باوجود اس کا شمار ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ قدرتی وسائل سے محرومی کے باوجود اس ملک کے پاس ایک چیز ایسی ہے جو کسی اور کے پاس نہیں۔ یہ ہے اس کا محل وقوع۔
سنگاپور یورپ اور ایشیا کو جوڑنے والی آبنائے ملاکا پر واقع ہے، عالمی تجارت کا 40 فیصد اسی آبنائے سے گزرتا ہے۔ اسی اہمیت کی وجہ سے 1819ء میں برطانیہ نے اس علاقے کو اپنی کالونی بنا لیا تھا۔
لیکن 1965ء میں ملائیشیا سے الگ ہونے کے بعد اپنے کئی ہمسایہ ممالک کے برعکس سنگاپور نے برطانیہ کیساتھ قریبی تعلقات استوار رکھے ہیں۔ اس فیصلے نے باقی دنیا کو بھی باور کرایا کہ سنگاپور بزنس کیلئے سازگار ملک ہے۔ یہ بہت اہم پیشرفت تھی۔ آج ہم جانتے ہیں کہ برآمدات معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن سنگاپور کی آزادی کے وقت یہ تصور زیادہ عام نہیں تھا۔
سنگاپور، ہانگ کانگ، تائیوان اور جنوبی کوریا چار ایشین ٹائیگرز نے 1960ء کے بعد برآمدات اور صنعتکاری کی بدولت ترقی کی ہے۔ سنگاپور نے بھی انہی بنیادوں پر اپنی معیشت کو کھڑا کیا ہے۔
60ء کے عشرے اس جزیرے پر بے روزگاری عروج پر تھی اور مزدوروں کی ہڑتالیں عام تھیں۔ اس سے بھی بڑا رہائش کا بحران تھا اور یہ جزیرہ دنیا کی بڑی کچی آبادیوں میں سے ایک تھا۔
بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ کے پاس منظم افرادی قوت موجود ہو لیکن افرادی قوت کو منظم کرنے کیلئے بھی بنیادی سہولیات دینا پڑتی ہیں۔ جیسے کہ رہائش کی سہولت۔
یہی وجہ ہے کہ سنگاپور حکومت نے ہائوسنگ کرائسز ختم کرنے کیلئے سستے سرکاری گھروں کی تعمیر پر توجہ دی۔ 1960ء میں سنگاپور کی محض 9 فیصد آبادی کو سرکاری گھروں کی سہولت میسر تھی لیکن آج 80 فیصد آبادی کو یہ سہولت میسر ہے۔ اس سے بیرونی سرمایہ کاروں کو بھی اعتماد ملا کیونکہ آج مزدوروں کی ہڑتالیں شاذونادر ہی ہوتی ہیں۔
اسی کے ساتھ حکومت نے ٹیکس چھوٹ دے کر بیرونی سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد کو بھی راغب کیا جس سے معیشت ترقی کرنے لگی اور بےروزگاری میں کمی آنے لگی، 1959ء میں سنگاپور میں بےروزگاری کی شرح 14 فیصد تھی جو 1970ء میں محض 4.5 فیصد رہ گئی۔
پہلے وزیراعظم لی کو آن یو نے سنگاپور کے محل وقوع کا فائدہ اُٹھانے کے ساتھ ساتھ مینوفیکچرنگ انڈسٹری اور کاروباری آسانیوں پر بھی توجہ دی۔ 1980ء تک سنگاپور خطے میں مینوفیکچرنگ کا مرکز اور ہارڈ ڈسک ڈرائیوز کا سب سے بڑا پروڈیوسر بن چکا تھا۔
لیکن آج سنگاپور کے جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کا حصہ محض 20 فیصد ہے۔ دراصل آزادی کے بعد پہلی بار 1985ء میں اس ملک کو کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑا جس نے معاشی پالیسیوں کی سمت بدل کر ان کا رخ مینوفیکچرنگ کی بجائے سروسز سیکٹر کی طرف موڑ دیا۔ سرکاری ٹیلی کام کمپنیوں کی نجکاری کر دی گئی۔ انشورنس اور فنانشل سروسز کو مزید آزادی دی گئی جس کے بعد ملٹی نیشنل کمپنیوں نے سنگاپور میں اپنے ریجنل ہیڈکوارٹرز کھولنے شروع کر دیے۔ نتیجتاََ سروسز سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ 1985ء کے 24 فیصد سے بڑھ 2017ء میں 70 فیصد تک جا پہنچا۔ آج سنگاپور دنیا میں کاروبار کرنے کیلئے سب سے آسان ملکوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
یہ سب سن کر آپ کو لگ رہا ہو گا کہ سنگاپور میں رہنا بہت آسان ہو گا اور یہاں کے شہری خود کو بہت امیر سمجھتے ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔
مہنگی ضروریات زندگی
اور
معاشی عدم مساوات
پانچ سالوں تک سنگاپور دنیا کا مہنگا ترین شہر رہا۔ نیویارک اور لندن سے بھی مہنگا۔ اگرچہ ذاتی تحفظ اور گھریلو استعمال کی اشیاء نسبتاََ سستی ہیں مگر بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے گاڑی رکھنا سب سے مشکل ہے۔ مہنگے کپڑوں کے حوالے سے بھی یہ شہر دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔
سنگاپور فی کس آمدنی کے لحاظ سے امیر ہے لیکن یہاں اوسط ماہانہ تنخواہ 3270 ڈالر ہوتی ہے جو بہت کم بھی نہیں۔ یہاں تقریباََ ایک لاکھ 84 ہزار کروڑ پتی رہتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ ملک سنگین معاشی عدم مساوات سے دوچار ہے اور Gini Coefficient پر اس کا سکور محض 0.3 ہے۔ اس لحاظ سے سنگاپور دیگر امیر ملکوں جرمنی، برطانیہ، کوریا اور جاپان سے پیچھے لیکن امریکا سے آگے ہے۔
سنگاپور میں معاشی تفریق عوامی بحث کا موضوع ہے اور اس مسئلے کو حکومت نے قومی ترجیحات میں شامل کرکے حل کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ کچی آبادیوں سے اٹھ کر دنیا کے امیر ترین ملکوں کی صف میں کھڑا ہونے والا ملک معاشی عدم مساوات کا مسئلہ کیسے حل کرتا ہے۔