پانچ معاشی بحران جنہوں دنیا کو ہلا کر رکھ دیا

970
5 worst Global Financial Crisis before COVID-19

2019ء میں کورونا وائرس کی عالمگیر وبا شروع  ہونے کے بعد آپ نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے معاشی بحران اور کساد بازاری جیسے الفاظ بارہا سنے ہوں گے۔

یہ الفاظ بار بار خبروں کی زینت اسی لیے بن رہے ہیں کیونکہ اس وقت دنیا کورونا وائرس کے پیدا کردہ معاشی بحران سے نبرد آزما ہے جسے آئی ایم ایف نے عالمی معیشت کیلئے گریٹ ڈپریشن سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ہے، اس ویڈیو میں آگے چل کر ہم گریٹ ڈپریشن کے بارے میں بھی وضاحت سے بتائیں گے۔

آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے معاشی ماہرین کا اتفاق ہے کہ 2020ء کے اختتام تک کورونا وائرس کی وبا کے باعث عالمی معیشت کو تقریباََ چار کھرب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے جس کی وجہ سے عالمی جی ڈی پی میں 4.4 فیصد کمی ہوئی ہے۔

لاک ڈائون، سفری اور تجارتی پابندیوں کے باعث اشیاء کی ترسیل میں پیدا ہونے والے خلل کے باعث کئی ممالک میں مہنگائی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جبکہ امور سلطنت چلانے کیلئے اکثر حکومتوں کو ناصرف نئے قرضے لینے پڑے بلکہ پہلے سے واجب الادا قرضوں کو بھی بار بار موخر کروانا پڑا۔

ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020ء کے دوران کم آمدنی والے پسماندہ اور غریب ملکوں پر قرضوں کا بوجھ 12 فیصد بڑھا اور یہ ممالک مزید 860 ارب ڈالر کے مقروض ہو گئے۔

ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے اختتام تک عالمی قرضے 260 فیصد تک بڑھنے کا خدشہ ہے جبکہ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس کا کہنا ہے کہ رواں سال عالمی قرضوں کا حجم تقریباََ 300 کھرب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف نے کورونا وبا کے پیدا کردہ معاشی بحران کو گریٹ ڈپریشن سے زیادہ نقصان دہ کیوں قرار دیا ہے۔

لیکن یہ پہلی بار نہیں کہ دنیا کو اس قدر شدید معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ اس سے قبل کم و بیش پانچ معاشی بحران ایسے آ چکے ہیں جنہوں نے عالمی معیشت کو بدترین تباہی سے دوچار کیا۔

یہاں ہم ان بحرانوں پر مختصر روشنی ڈالیں گے۔

1772 کا کریڈٹ کرائسز

اس بحران کا آغاز لندن سے ہوا اور جلد ہی اس نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، 1760ء کی دہائی کے دوران سلطنت برطانیہ نے دنیا بھر میں اپنی نوآبادیوں کے وسائل پر قبضے اور تجارت کے ذریعے بے پناہ دولت اکٹھی کر لی جس کی وجہ سے برطانوی معاشرے پر رجائیت پسندی کا احساس غالب آنے لگا۔

اتنی زیادہ دولت کے انبار دیکھ کر بینکوں نے بھی اپنی کریڈٹ سکیموں میں ضرورت سے زیادہ اضافہ کر دیا۔ لوگوں نے دھڑا دھڑ اپنی رقوم بینکوں میں جمع کروائیں۔

لیکن پھر 8 جون 1972ء کا دن آیا، جب 1757  میں قائم ہونے والے برٹش بینکنگ ہائوس کا ایک رکن الیگزینڈر فورڈائس بھاری قرضے ادا کیے بغیر فرانس بھاگ گیا۔

اس خبر کے پھیلنے سے انگلینڈ میں افراتفری پھیل گئی، لوگوں کو اپنی رقم کی فکر ہوئی، انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ میں بینکوں کے باہر کیش لینے کیلئے لوگوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں، اسے banking panic کا نام دیا گیا۔

برٹش بینکنگ ہائوس نے اپنے نقصانات کے ازالہ کیلئے صارفین کی جمع کردہ رقوم استعمال کرنا شروع کر دیں، کچھ ہی دنوں میں بینک بند ہو گیا اور اس کے ساتھ لندن اور سکاٹ لینڈ میں مزید تین بینک بھی بند ہو گئے۔

اگلے دو ہفتوں کے اندر انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور نیندرلینڈز میں بینکنگ کرائسز مزید شدت اختیار کر گیا اور کئی چھوٹے بڑے بینک عوام کے پیسے لوٹائے بغیر بند ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیے:

کیا دنیا غذائی بحران کے دہانے پر ہے؟

پٹرول و ڈیزل کے بعد خوردنی تیل کا عالمی بحران بھی سر پر منڈلا رہا ہے

اس بحران نے پہلے سے مالی مشکلات میں گِھری ایسٹ انڈیا کمپنی کو بھی مزید کمزور کر دیا حتیٰ کہ کمپنی کو 1773 میں چائے کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ کیلئے پارلیمنٹ سے ٹی ایکٹ منظور کروانا پڑا جس پر دیگر تجارتی کمپنیوں نے بھرپور احتجاج شروع کر دیا۔

تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس بینکنگ کرائسز کے باعث پیش آنے والے واقعات امریکا میں بوسٹن ٹی پارٹی  نامی احتجاجی تحریک اور امریکا میں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔

گریٹ ڈپریشن

اسے بیسیویں صدی کا بدترین معاشی بحران قرار دیا جاتا ہے، گریٹ ڈپریشن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ معاشی بحران 1929ء میں وال سٹریٹ کے کریش ہونے سے پیدا ہوا اور بعد ازاں امریکی حکومت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے شدت اختیار کر گیا۔

یہ معاشی بحران تقریباََ دس سال جاری رہا، اس کے نتیجے میں امریکا اور یورپ کی صنعتی لحاظ سے ترقی کرتی ریاستوں کو مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفان نے معاشی تنزلی کی دلدل میں دھکیل دیا۔

1933ء میں بحران کے عروج پر امریکا میں بے روزگاری کی شرح 25 فیصد جبکہ کئی ملکوں میں 33 فیصد تک جا پہنچی۔

عالمی تجارت 50 فیصد کم ہو گئی جبکہ زراعت پر انحصار کرنے والے ملکوں میں اجناس کی قیمتیں 60 فیصد تک گر گئیں کیونکہ لوگوں کے پاس جنس خریدنے کیلئے رقم نہیں رہی تھی۔

1973ء کا تیل بحران

یہ معاشی بحران اُس وقت پیدا ہوا جب 6 اکتوبر 1973ء کو شروع ہونے والی چوتھی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل کو جنگی ہتھیار فراہم کرنے پر تیل پیدا کرنے والی عرب ریاستوں نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو تیل کی سپلائی روک دی۔

تیل کی سپلائی بند ہونے سے امریکا سمیت کئی دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں ایندھن کی شدید قلت پیدا ہو گئی جس نے امریکا میں معاشی بحران کو جنم دیا، ایندھن کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی کا طوفان آیا اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا جس سے امریکی معیشت جمود کا شکار ہو گئی۔

یہ بحران چند سال جاری رہا اور ماہرین معاشیات اس عرصے  کو stagflation کا نام دیتے ہیں۔

1997 کا ایشیائی بحران

یوں تو زیادہ تر معاشی بحران امریکا یا یورپ میں پیدا ہوئے اور بعد ازاں پوری دنیا کو متاثر کرتے رہے، اسی لیے کہتے ہیں کہ امریکی معیشت ہی دراصل عالمی معیشت ہے۔

لیکن 1997ء میں تھائی لینڈ کی معیشت بحران کی زد میں آ گئی تو جلد ہی اس کے تجارتی شراکت دار اور مشرقی ایشیائی ممالک بھی اس سے متاثر ہونے لگے۔

اس بحران کی وجہ سے تھائی لینڈ، انڈونیشیا،ملائیشیا، سنگاپور، ہانگ کانگ اور جنوبی کوریا جیسے ایشیائی ٹائیگرز قرضوں کے بوجھ تلے دبتے چلے گئے۔

بیرونی سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ نکالنا شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں مشرقی ایشیائی معیشتوں کے دیوالیہ ہونے کی بازگشت سنائی دینے لگی۔

تھائی حکومت کو پہلی بار امریکی ڈالر کے مقابلے میں فکسڈ ایکسچینج ریٹ سے دستبردار ہونا پڑا کیونکہ ملک میں ڈالر نایاب ہو چکے تھے اور غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر آخری سانسیں لے رہے تھے۔

اس معاشی بحران کے اثرات جب مشرقی ایشیا سے نکل کر دیگر ممالک پر پڑنے لگے تو آئی ایم ایف نے شدید ترین متاثرہ معیشتوں کو سہارا دیا اور ان کیلئے بیل آئوٹ پیکج دینے کا اعلان کیا۔

2007-08ء کا مالیاتی بحران

اسے گریٹ ڈپریشن کے بعد اب تک کا سب سے خطرناک مالیاتی بحران سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس کی وجہ سے عظیم ترین کساد بازاری پیدا ہوئی اور اس نے پوری دنیا کی فنانشل مارکیٹس کو تباہی سے دوچار کر دیا۔

دیگر کئی عوامل کے ساتھ ساتھ یہ بحران دنیا کے چند بڑے انویسٹمنٹ بینکوں میں سے ایک Lehman Brothers کے دیوالیہ ہونے اور امریکا میں ہائوسنگ سیکٹر میں بدترین گراوٹ کے نتیجے میں پیدا ہوا اور اپنے ساتھ کئی بڑے مالیاتی اداروں کو بھی دیوالیہ پن کی دہلیز پر لے آیا۔

اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں مہنگائی اور بے روزگاری کی نئی لہر اٹھی جس پر قابو پانے میں مختلف ملکوں کو دس سال لگے۔

عالمی مالیاتی اداروں کو بحران سے شدید متاثر ہونے والے ملکوں کیلئے قرضوں اور بیل آئوٹ پیکجز کا اعلان کرنا پڑا۔

کورونا کا پیدا کردہ معاشی بحران

اب دنیا کو کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث پیدا شدہ معاشی بحران درپیش ہے جس نے سب سے زیادہ نقصان تجارت اور اشیاء کی سپلائی چین کو پہنچایا ہے جس کی وجہ سے قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں، اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ  یہ بحران کب تک جاری رہے گا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here