اسلام آباد: پٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ 240 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد جاری ہونے والی پٹرولیم کمیشن رپورٹ کے مطابق پٹرولیم مصنوعات خاص طور پر موٹر سپرٹ اور ہائی سپیڈ ڈیزل بہت بڑی مقدار میں تافتان بارڈر سے پاکستانی علاقے میں اسمگل کرکے لایا جاتا ہے۔
مالی سال 2019-20ء کے دوران کسٹمز حکام نے دو کروڑ 79 لاکھ 11 ہزار 746 لٹر پٹرول اور 99 کروڑ 70 لاکھ 37 ہزار 434 لٹر سمگل شدہ ڈیزل قبضے میں لیا۔
رپورٹ کے مطابق ضبط شدہ مصنوعات پر حکومت کو سالانہ 48 ارب روپے کی ٹیکس آمدن سے ہاتھ دھونا پڑے کیونکہ سیلز ٹیکس، پٹرولیم لیوی اور کسٹم کی مد میں حکومت کو پٹرول پر 36.27 روپے فی لٹر اور ہائی سپیڈ ڈیزل پر 47.22 روپے فی لٹر آمدن ہوتی ہے۔
تاہم پٹرولیم کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ 2019-20ء کے دوران مجموعی پر سمگل ہونے والے پٹرول اور ڈیزل میں سے محض 20 فیصد ہی ضبط ہو سکا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جون 2020ء میں پٹرول اور ڈیزل کی کھپت میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا حالانکہ لاک ڈائون کی وجہ سے ریلوے، پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ بند تھی۔ اس دوران ایک لاکھ 17 ہزر میٹرک ٹن سے زائد پٹرول اور دو لاکھ 89 ہزار میٹرک ٹن سے زائد ڈیزل کی کھپت ہوئی۔
سمندر کے راستے تیل کی سمگلنگ
پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایرانی سرحد کے علاوہ سمندری راستے سے بھی تیل کی بھاری مقدار سمگل کرکے پاکستان لائی جاتی ہے اور ایک نجی ریفائنری بائیکو (BYCO) اس غیرقانونی دھندے میں ملوث ہے۔
بائیکو کی ریفائنری حب بلوچستان کے دور دراز علاقے میں واقع ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کی درآمدات پر نگرانی نا ہونے کے برابر ہے کہ کیا کچھ سمگل شدہ ہے اور کیا قانونی طور پر لایا گیا ہے۔
انکوائری رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سمگلنگ اس لیے بھی ممکن ہے کیونکہ بائیکو کے پاس تیل بردار جہازوں کے لنگر انداز ہونے کیلئے مناسب گودی (berth) یا گھاٹ (pier) نہیں بلکہ یہاں جہازوں سے تیل منتقل کرنے کیلئے سنگل پوائنٹ مورنگ (Single Point Mooring) کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اس طریقہ کے تحت کھلے سمندری میں کم از کم 18 کلومیٹر دور ایک پلیٹ فارم قائم کیا گیا ہے جس کے ساتھ لنگر انداز ہونے والے جہاز کو جوڑ دیا جاتا ہے اور پھر اس پلیٹ فارم سے سمندر کے اندر بچھی پائپ لائن کے ذریعے تیل ریفائنری میں منتقل کیا جاتا ہے۔
انکوائری رپورٹ میں بائیکو پٹرولیم پاکستان کی جانب سے بحری جہازوں کے ذریعے تیل کی سمگلنگ کے دو کیسوں کا بھی ذکر ہے۔
پہلے کیسں میں تیل بردار ایم ٹی رہیا (MT Rhea) کو ایک بین الاقوامی انٹیلی جنس ایجنسی کی اطلاع پر پکڑا گیا جو ایرانی تیل لے کر بائیکو کے پلیٹ فارم کی جانب گامزن تھا۔ اسی طرح ایم ٹی ایلسا (M.T ELSA) کو بغیر لیبارٹری ٹیسٹنگ کے واپس بھیج دیا گیا جو بائیکو کیلئے تیل لا رہا تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ بائیکو ریفائنری نے عالمی پابندیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جعلی دستاویزات پر سستا ایرانی خام تیل درآمد کیا، ممکن ہے درآمد کنندہ کمپنی نے پاکستان سے زرمبادلہ غیرقانونی راستے سے ایران بھیجا ہو اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہو، اس معاملے کی الگ سے انکوائری ہونی چاہیے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بائیکو نے ہائیڈرو کاربن ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کی رپورٹ کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے، اس لیے یہ معاملہ ابھی تک زیر التواء ہے۔
تاہم گزشتہ ہفتے پرافٹ کو انٹرویو میں بائیکو کی انتظامیہ نے الزامات سے انکار کیا اور اپنے کیس کی حمایت میں دستاویزات بھی شئیر کیں۔
پرافٹ کی تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ کئی پٹرولیم کمپنیاں ایرانی تیل کی سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث ہیں، حتیٰ کہ کچھ کمپنیاں یہی سمگل شدہ تیل سرکاری کمپنی پی ایس او کے پٹرول پمپس کو بھی فروخت کرتی ہیں۔
پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سمگل شدہ تیل کا دھندہ دن بہ دن پھیل رہا ہے کیونکہ سرکاری طور پر طے کردہ قیمت اور منافع کے مارجن کے مقابلے میں سمگل تیل پر منافع کا مارجن زیادہ ہے۔
کمیشن کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک کے طول و عرض میں 486 ایسے فلنگ سٹیشنز کی نشاندہی ہوئی جو ماہانہ چھ لاکھ لٹر سے زائد سمگل شدہ پٹرول خریدتے ہیں تاہم یہ ڈیزل کی خریداری نہیں کرتے لیکن پھر بھی ڈیزل کی سمگلنگ پٹرول سے کہیں زیادہ ہے۔
انکوائری کمیشن نے کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی سمگلنگ سے قومی خزانے اور معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانا مشکل ہے، کمیشن نے بائیکو کی مشکوک سرگرمیوں کی بھی مکمل تحقیقات کرنے کی تجویز دی ہے۔
اسی طرح آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور پٹرول پمپ مالکان کی جانب سے پٹرول اور ڈیزل میں کیمیکلز کی ملاوٹ کو بھی مجرمانہ غفلت قرار دیا گیا ہے، رپورٹ کے مطابق اکثر کمپنیاں اور پمپ مالکان پٹرول میں میگانیز (manganese ) اور نیفتھا (Naphtha ) کی ملاوٹ کرکے فروخت کرنے میں ملوث ہیں۔
اطلس ہونڈا کی شکایت پر جب اوگرا نے پی ایس او، شیل اور ٹوٹل کے فلنگ سٹیشنوں سے جب پٹرول کے نمونے حاصل کیے تو معلوم ہوا کہ اس میں میگانیز کی مقدار 24 ملی گرام کی مقررہ حد سے دوگنا سے بھی زیادہ یعنی 54 ملی گرام پائی گئی۔
انکوائری کمیشن کی سفارشات
پٹرولیم انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ ایرانی تیل کی سمگلنگ روکنے کیلئے حکومت کو چاہیے کہ وہ فرنٹئیر کور کی صلاحیت بڑھائے اور تیل کی سمگلنگ روکنے کیلئے سخت اقدامات کرنے کا پابند بنائے۔
جولائی 2020ء میں سمندری راستے سے ایرانی تیل سپلائی کرنے والے دو چھوٹے جہازوں کو پکڑا گیا تھا، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ بحری راستے سے تیل کی سمگلنگ روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے۔ اس حوالے سے پاکستان کوسٹ گارڈز کسٹمز حکام کیساتھ مل کر اہم کردار کر سکتے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایندھن کے معیار کی جانچ کیلئے ملک بھر میں اضافی لیبارٹریاں قائم کی جانی چاہییں بلکہ موبائل ٹیسٹنگ یونٹس متعارف کرانے چاہییں۔ ضلعی انتظامیہ کی مدد سے یہ موبائل یونٹس ضلع کی حدود میں موجود تمام ہول سیل اور ریٹیل پوائنٹس کو باقاعدگی سے چیک کریں۔