اسلام آباد: قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں پٹرولیم ڈویژن کے 20-2019ء کے آڈٹ اعتراضات کے جائزے کے دوران سیکرٹری پٹرولیم ڈویژن نے بتایا کہ مختلف کمپنیوں کے ذمے گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کے 349 ارب روپے واجب الادا ہیں، یہ واجبات تین ہزار 304 مختلف کمپنیوں اور صارفین کے ذمہ ہیں۔
پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی (پی اے سی) کا اجلاس بدھ کو پارلیمنٹ ہاﺅس میں پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر حسین کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سمیت تمام متعلقہ ادروں کے افسران نے شرکت کی۔
چیئرمین رانا تنویر حسین نے کہا کہ جی آئی ڈی سی کے واجبات کے حوالے سے عدالتوں کے کئی کئی سالوں سے حکم امتناع موجود ہیں حالانکہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ حکم امتناعی چھ ماہ سے زائد نہیں ہونا چاہیے مگر اب حکم امتناعی کی آڑ میں یہ ادائیگیاں رکی ہوئی ہیں۔
پی اے سی کو پٹرولیم ڈویژن کی جانب سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ سوئی ناردرن نے 68 ارب اور سوئی سدرن نے 159 ارب روپے وصول کرنے ہیں، ماڑی گیس کمپنی کے بھی 119 ارب روپے زیر التواء ہیں۔
آڈٹ حکام نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بتایا کہ کھاد سیکٹر سمیت مختلف شعبوں کی کمپنیوں نے صارفین سے ٹیکس وصول کیا تاہم جی آئی ڈی سی کی رقم حکومت کو منتقل نہیں کی گئی۔
آڈٹ حکام کا کہنا تھا کہ جی آئی ڈی سی 2015ء ایکٹ کے تحت لاگو کیا گیا تھا۔ کمیٹی کے رکن شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ ایم ڈی سوئی ناردرن کی تنخواہ 68 لاکھ روپے ہے، اس قدر بھاری تنخواہ کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
سیکرٹری پٹرولیم ڈویژن نے کہا کہ موجودہ ایم ڈی سوئی ناردرن سلیکشن بورڈ کی فہرست میں پہلے دو نمبرز پر نہیں تھے، حنا ربانی کھر نے کہا کہ سوئی نادرن کے ایم ڈی کے تقرر کے بعد گزشتہ تین ماہ سے کمپنی کے نقصانات میں کمی نہیں آئی۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ واجبات کی وصولیوں کے لئے اچھے وکیل کئے جائیں۔