لاہور: ملک بھر میں چینی ایک بار پھر عوام کی قوت خرید سے باہر ہو رہی ہے، اکثر شہروں میں نرخ 100 روپے فی کلو گرام سے بھی بڑھ گئے ہیں۔
ادارہ برائے شماریات پاکستان (پی بی ایس) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اتوار 14 مارچ کو کراچی میں چینی کی قیمت 110 روپے فی گرام اور جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں 105 روپے فی گرام ریکارڈ کی گئی ہے۔
کوئٹہ، بہاول پور، ملتان، پشاور اور سیالکوٹ میں چینی 100 روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت ہوتی رہی جبکہ حیدرآباد میں 98 روپے سے 100 روپے اور فیصل آباد میں 98 روپے فی کلو گرام کے حساب سے فروخت ہوئی۔
اسی طرح خضدار میں چینی 97 روپے کلو، سرگودھا میں 96 روپے، سکھر میں 98 روپے، لاڑکانہ اور بنوں میں 95 روپے فی کلو فروخت ہوتی رہی، یوں ملک بھر میں چینی کی اوسط قیمت 98 روپے فی کلو گرام ریکارڈ کی گئی۔
یہ بھی پڑھیے:
بڑی شوگر ملز سے ٹیکس ریکوری میں ناکامی پر وزیراعظم ایف بی آر سے ناخوش
ملک بھر کے یوٹیلیٹی سٹورز پر چینی کی قلت، صارفین مہنگے داموں خریدنے پر مجبور
11 جنوری 2021ء کی پرافٹ اردو نے رپورٹ دی تھی کہ شوگر ملز مالکان ، گنے کے کاشت کاروں اور حکومت کے مابین گنے اور چینی کی قیمت کے حوالے سے اختلافات ختم نہیں ہو سکے جس کے باعث ملک بھر میں چینی کی قیمت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
شوگر ایڈوئزری بورڈ کے اجلاس کے دوران شوگر ملز مالکان نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت گنے کی سپورٹ پرائس 200 روپے فی 40 کلوگرام پر مسلسل سپلائی یقینی بنانے میں ناکام ہو چکی ہے اور حکومت کی اپنے وعدے پر عمل درآمد میں ناکامی کے باعث آئندہ ہفتوں میں ملک بھر میں چینی کی قیمت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزارت صنعت و پیداوار کے حساب کے مطابق اگر گنے کی سپورٹ پرائس 200 روپے فی 40 کلو گرام مقرر کی جائے تو چینی کی قیمت 75 روپے سے 80 روپے فی کلو گرام کے درمیان ہونی چاہیے۔
وزیر صنعت و تجارت نے اجلاس کے دوران بتایا کہ اگر صوبائی حکام اور ملز مالکان کے مابین اختلافات کسی تصفیے پر نہیں پہنچتے تو باہر سے خام چینی درآمد کرکے ملوں میں پروسیس کرنے یا ریفائنڈ چینی درآمد کرکے رعایتی نرخوں پر عوام کو فروخت کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔
ایڈوائزری بورڈ کے اجلاس کے دوران کین کمشنر سندھ نے بتایا کہ گنے کی کمی کی وجہ سے صوبے کے بعض حصوں میں گنے کی قیمت 300 روپے فی 40 کلو گرام سے بھی بڑھ چکی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جب سے ملز پر لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ کاشت کاروں کو صرف بینکوں کے ذریعے ادائیگیاں کریں تب سے مڈل مین کا کردار بڑھ گیا ہے اور گنے کی قیمت میں اضافے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے۔
اسی وجہ سے مڈل مینوں کی ایک نئی پود نے سر اٹھایا ہے اور شوگر ملز کے آس پاس ڈیرے ڈال رکھے ہیں، چوں کہ نئے قانون کے تحت گنا فروخت کرنے والے کا بینک اکائونٹ ہونا لازم ہے تاہم اکثر کسانوں کے بینک اکائونٹ نہیں ہیں۔ یہ مڈل مین کسانوں سے گنا خرید کر انہیں نقد ادائیگیاں کر دیتے ہیں اور خود ملوں کو گنا مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں۔
حاکم علی بلوچ نامی ایک کسان نے بتایا کہ نئے قانون کے باعث بینک اکائونٹ کا مسئلہ کافی کسانوں کو پریشان کرتا ہے کیونکہ سی پی آر (Cane Purchase Receipt) صرف اکائونٹ رکھنے والے کسانوں کو جاری کی جاتی ہے لیکن اکثریت کے بینک اکائونٹ نہیں اور بینک بھی شوگر ملز سے 20 کلومیٹر دور ہوتے ہیں۔
آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) کا بھی یہی اعتراض ہے کہ سرکاری مقرر کردہ امدادی قیمت پر گنا نہیں مل رہا، ایسوسی ایشن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ریفائنڈ چینی پر 17 فیصڈ سیلز ٹیکس ختم کرکے ملک میں چینی کی قیمتوں میں کمی لائی جائے۔
وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی سربراہ میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں کے حوالے سے منعقدہ جائزہ اجلاس کے دوران پنجاب حکومت کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ صوبے میں مڈل مینوں کے خلاف سخت کارروائی کی گئی ہے۔
حکومت کی جانب سے نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا تھا کہ رواں سال چینی کی زیادہ پیداوار متوقع ہے جس کی وجہ سے قیمتوں میں کمی آئے گی لیکن اس کے دو دن بعد ہی چینی کی قیمت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔