کابینہ نے سٹیٹ بینک کی انتظامی خودمختاری کا بل منظور کر لیا

سٹیٹ بینک کو پارلیمنٹ میں احتساب کے لیے جواب دہ کیا جا رہا ہے، گورنر کی مدت میں اضافہ کر کے اسے پانچ سال کر دیا گیا ہے، وزیر خزانہ حفیظ شیخ

875

اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے سٹیٹ بنک آف پاکستان (ترمیمی) بل 2021ء کے مسودے کی منظوری دیتے ہوئے اسے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کی سفارش کر دی۔

اس بل کا مقصد سٹیٹ بنک آف پاکستان کی آپریشنل اور انتظامی خود مختاری کو یقینی بنانا، اس کا دائرہ کار اور اختیارات کو بڑھانا ہے۔

منگل کو وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت منعقد ہوا جس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ  سٹیٹ بینک آف پاکستان سے متعلق قانون منظور کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد مرکزی بینک کے لیے مینڈیٹ طے کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کے گورنر کے احتساب کی ذمہ داری اب پارلیمنٹ کی ہے، جب کہ گورنر کی مدت میں اضافہ کر کے اسے پانچ سال کر دیا گیا ہے، سٹیٹ بینک کو پارلیمنٹ میں احتساب کے لیے جواب دہ کیا جا رہا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ سٹیٹ بینک کو خود مختار بنایا جائے گا، اس کا مرکزی کام ملک میں مہنگائی کم کرنا ہو گا، وفاقی حکومت سٹیٹ بینک سے قرضے لینا بند کرے گی اور اپنے ذرائع اور کوششوں سے پیسہ بنائے گی۔

انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹربیون میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ‘سٹیٹ بنک (ترمیمی) بل 2021ء’ کا بنیادی مقصد ملک میں قیمتوں میں استحکام پیدا کرنا ہے۔ ایسا آئی ایم ایف قرض پروگرام کی بحالی کیلئے کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ بل کے منظور ہونے کے بعد سٹیٹ بینک ملکی معیشت کو سپورٹ دینے اور حکومت کو قرضے فراہم کرنے جیسی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہ ہو جائے گا کیونکہ بل میں ان ذمہ داریوں کی ثانوی حیثیت دی گئی۔

اسی طرح بل میں تجویز دی گئی ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب)، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) سٹیٹ بینک کے گورنر، ڈپٹی گورنر سمیت بورڈ اور کمیٹی کے ارکان کے خلاف تحقیقات نہیں کر سکیں گے، سابق افسران کو بھی ایسا ہی استثنیٰ حاصل ہو گا۔

رپورٹ کے مطابق بل میں تجویز دی گئی ہے کہ مانیٹری اینڈ فسکل پالیسیز کوآرڈی نیشن بورڈ کو ختم کر دیا جائے تاکہ سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی پر سیاسی اثرورسوخ کا خاتمہ ہو سکے۔

بل پر تبصرہ کرتے ہوئے بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود نے کہا کہ کچھ شقوں کو ختم کرنا ضروری ہے چاہے وہ آئی ایم ایف کیلئے ہو یا نہ ہو۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here