کیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی حامل مشینیں یا روبوٹس انسانوں کے قابو سے باہر ہو سکتے ہیں؟ اور اگر ایسا ہو جائے تو انسانوں کا حشر کیا ہو گا؟
بہ ظاہر یہ خیال کسی سائنس فکشن فلم کا پلاٹ لگتا ہے لیکن حال میں سامنے آنے والی تحقیق کے نتائج سے کچھ ایسے ہی اشارے ملتے ہیں کہ اگر مصنوعی ذہانت کا حامل کوئی روبوٹ بغاوت پر اتر آئے تو شائد ہم (انسان) اسے روک نہ پائیں۔
سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے ایسے الگورتھم کی تھیوری پیش کی ہے جو یقینی بنائے گا کہ سپر انٹیلی جنس کا حامل سسٹم کسی بھی قسم کے حالات میں انسانوں کو نقصان نہ پہنچائے اور مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس کو انسانوں کے خلاف بغاوت سے قبل ہی بلاک کر دے۔
تاہم یہ محض تھیوری ہے، مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ الگورتھم مصنوعی ذہانت کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کیونکہ مصنوعی ذہانت کے حامل سسٹم کو دنیا کو تباہ نہ کرنے کا حکم دینا الٹا الگورتھم کا اپنا کام بند کر دے گا۔
ایاد راہوان (Iyad Rahwan) ٹیکنیکل یونیورسٹی آف برلن میں الیکٹریکل انجنئرنگ اور کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر اور میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار ہیومن ڈویلپمنٹ میں قائم سینٹر آف ہیومنز اینڈ مشینز کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ “اگر مصنوعی ذہانت کا حامل سسٹم بغاوت کر دے تو آپ کو یہ بھی معلوم نہیں ہو سکے گا کہ سسٹم کو روکنے والا الگوتھم ابھی خطرے کا تجزیہ کر رہا ہے یا اس نے کام کرنا ہی بند کر دیا ہے، یہ چیز الگورتھم کو ناقابل استعمال بنا دیتی ہے۔”
مصنوعی ذہانت انسانوں کو کئی سالوں سے مسحور کرتی آ رہی ہے، ہم اس سے متاثر ہیں خاص طور پر مصنوعی ذہانت کا حامل کوئی سسٹم جو گاڑیوں کو کنٹرول کرتا ہے، یا ہمارے لیے موسیقی کی کوئی خوش کن دھن ترتیب دیتا ہے یا پھر شطرنج کے بہترین کھلاڑی کو پلک جھپکنے میں مات دے دیتا ہے۔
لیکن کسی چیز پر جتنا زیادہ اختیار حاصل ہو، ذمہ داری اتنی ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے، اسی لیے دنیا بھر کے سائنس دان سپر انٹیلی جنس کے حامل سسٹمز کے ممکنہ خطرات کی وجہ سے فکرمند ہیں۔
محققین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے کہا ہے کہ سپر انٹیلی جنس کے حامل اے آئی سسٹم پر قابو پانا ناممکن ہو گا، اس ٹیم میں میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار ہیومن ڈویلپمنٹ کے سینٹر فار ہیومنز اینڈ مشینز کے سائنسدان بھی شامل ہیں۔
محققین کی ٹیم نے ایلن ٹیورنگ (Alan Turing) کی 1936ء میں پیش کردہ کمپیوٹرز اور اے آئی سے متعلق ہالٹنگ پرابلم تھیوری (Halting Problem) کو اپنے تجزیے میں استعمال کیا ہے، جس میں اس مسئلے پر توجہ دی گئی ہے کہ آیا کوئی کمپیوٹر پروگرام کسی نتیجے پر پہنچے گا اور مسئلے کا جواب دے گا یا پھر ہمیشہ کے لیے مسئلے کا جواب تلاش کرنے میں ناکام رہے گا۔
لیکن تجزیے سے معلوم ہوا کہ موجودہ دور کے کمپیوٹنگ سسٹم میں ایسا الگورتھم نہیں بنایا جا سکتا، کوئی بھی الگورتھم تن تنہا یہ پتا نہیں چلا سکتا کہ کوئی اے آئی سسٹم دنیا کو نقصان پہنچائے گا یا نہیں۔
محققین نے یہ بھی ثابت کیا کہ شاید ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ سپر ذہین مشینیں کب بن گئیں، کیوں کہ یہ فیصلہ کرنا کہ آیا مشین انسانوں سے بہتر ذہانت کی حامل ہے یا نہیں، ایسا ہی ہے جیسے اس کو روکنے والا الگورتھم تیار کرنا۔
سائنس دان مصنوعی ذہانت سے پریشان کیوں ہیں؟
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے حوالے سے بل گیٹس سے لے کر ایلون مسک تک دنیا کے عظیم ذہن فکرمند ہیں، بلکہ ایلون مسک تو مصنوعی ذہانت کو دنیا کے لیے ’سب سے بڑا خطرہ‘ اور اس کی ترقی کو ’شیطان کو بلاوا‘ دینے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔
سپیس ایکس اور ٹیسلا کے سی ای او کا کہنا ہے کہ سپر ذہین مشینیں انسانوں کو پالتو جانوروں کی طرح استعمال کر سکتی ہیں۔
اس سے قبل پروفیسر سٹیفن ہاکنگ کہہ چکے ہیں کہ ممکنہ طور پر ایک ہزار سے دس ہزار سالوں تک ٹیکنالوجی کی پھیلائی ہوئی تباہی بنی نوع انسان کے وجود کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔
روبوٹس انسانوں کی نوکریاں چھین سکتے ہیں
2016ء میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 60 فیصد سے زائد لوگوں کو خدشہ ہے کہ آئندہ دس سالوں کے دوران پہلے سے کم ہوتے روزگار کے مواقع کو روبوٹس مزید کم کر دیں گے۔
سروے نتائج کے مطابق 27 فیصد افراد کا خیال تھا کہ روبوٹس کی وجہ سے نوکریاں بہت ہی کم تعداد میں رہ جائیں گی لیکن ایڈمنسٹریشن اور سروسز سیکٹرز میں کام کرنے والوں کو شائد زیادہ فرق نہ پڑے۔
سروے میں شامل کچھ افراد نے کہا کہ آئندہ دس بیس سالوں کے دوران آرٹیفشل انٹیلی جنس اور روبوٹس انسانوں کی معمول کی زندگی کا حصہ بن جائیں گے لیکن 18 فیصد نے کہا کہ ایسا رواں عشرے میں ہی ہو جائے گا۔
نوکریوں اور روزگار کو خطرہ تو ایک طرف رہا، ماہرین کہتے ہیں کہ ایک موقع پر آرٹیفشل انٹیلی جنس شائد ایسی ’بدمعاش‘ واقع ہو اور اتنی پیچیدگی اختیار کر جائے کہ سائنسدانوں کی سمجھ سے بھی باہر ہو جائے۔
روبوٹس ’قابو سے باہر‘ جا سکتے ہیں
کمپیوٹر سائنس دان پروفیسر مائیکل وولڈریج کہتے ہیں کہ اے آئی مشینیں اتنی پیچیدہ ہو سکتی ہیں کہ انجینئرز کو مکمل طور پر سمجھ ہی نہ آ سکیں کہ وہ کیسے کام کرتی ہیں اور اگر ایسا ہو جاتا تو سائنسدان یہ بھی پتا نہیں لگا سکیں گے کہ وہ کب ناکام ہو گئے اور کب مشین ان کے اختیار سے باہر ہو گئی۔
اس کا مطلب ہے کہ ڈرائیور لیس کاریں یا روبوٹس کبھی بھی غیرمتوقع اپنے اصل کردار سے بالاتر فیصلے کر سکتے ہیں جس سے لوگوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ کار سڑک پر رواں چلنے کی بجائے فٹ پاتھ پر چڑھ دوڑے یا رکاوٹ پر رُکنے کی بجائے اسے توڑتے ہوئے گزر جائے۔
کیا اڑٹیفیشل انٹیلی جنس انسانوں کا مکمل صفایا کر دے گی؟
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اے آئی انسانوں کا مکمل صفایا کر دے گی۔ ڈیپ مائنڈز (DeepMind’s) کے شین لیگ (Shane Legg) کا اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہنا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ شاید انسان صفحہ ہستی سے مٹ جائیں اور اس تباہی میں ٹیکنالوجی کا بھی کردار ہو گا، خاص طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس سرفہرست خطرہ ہے۔‘
ایلون مسک کہتے ہیں کہ دنیا کو جتنا خطرہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے ہے، اتنا شائد شمالی کوریا سے بھی نہیں۔ دنیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے تحفظ کیلئے فکرمند نہیں ہے لیکن اسے فکرمند ہونا چاہیے۔
ٹیسلا کے سی ای او دنیا بھرکی حکومتوں اور نجی اداروں پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے حوالے سے سخت قوانین بنائیں اور ان کا عملی نفاذ کریں۔ مشینوں کے انسانوں کے اختیار سے باہر نکل جانے کے خطرے کے پیش نظر اُن پر کنٹرول رکھنا لازم ہے۔