اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا گیا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم جولائی 2021ء سے فعال ہو جائے گا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فاروق حامد نائیک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر شیری رحمان کے 6 مئی 2019ء کو متعارف کرائے گئے آئینی ترمیمی ایکٹ 2019ء، سینیٹر محمد جاوید عباسی کے 17 اگست 2020ء کو سینیٹ اجلاس میں متعارف کرائے گئے کمپنیز ترمیمی بل 2020ء کے علاوہ ایف بی آر سے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پر تفصیلی بریفنگ لی گئی۔
اجلاس میں سینیٹر محمد جاوید عباسی کے کمپنیز ترمیمی بل 2020ء کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا، سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ دنیا میں کارپوریٹ سماجی ذمہ داریوں کا قانون موجود ہے لیکن پاکستان میں ایس ای سی پی کی واضح ہدایات کے باوجود ایسا قانون موجود نہیں، مختلف کمپنیاں اربوں کا کاروبار کر رہی ہیں اور ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے کاروبار کے علاقوں کیلئے کوئی فلاحی کام کریں۔
سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ کمپنیوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ کل منافع کا دو فیصد اپنے کاروبار کے علاقے کی فلاح وبہبود پر خرچ کریں۔ کارپوریٹ سوشل رسپانسبیلٹی کے تحت کمپنیز ایکٹ میں واضح تعریف موجود نہیں ہے۔
اس ایف بی آر حکام نے کہا کہ شرح منافع پر ٹیکس کا لگنا قانون کے مطابق ہے اور ورکرز ویلفیئر فنڈ اور ورکرز پروٹیکشن فنڈز پر سات فیصد ٹیکس چھوٹ ہے، کارپوریٹ سوشل رسپانسبیلٹی پر بھی دو فیصد ٹیکس چھوٹ دیں گے تو محصولات متاثر ہوں گے۔
سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ایس ای سی پی کی باقاعدہ کارپوریٹ سوشل رسپانسبیلٹی کی گائیڈ لائنز موجود ہے، کئی کمپنیاں اس حوالے سے سی ایس آر کے تحت کام بھی کر رہی ہیں، دنیا میں سوائے بھارت کے کہیں کارپوریٹ سوشل رسپانسبیلٹی لازمی نہیں ہے۔
ایس ای سی پی کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان میں کمپنیوں کی تعداد 650 سے 530 پر آ گئی ہے، اگر ہم سی ایس آر کو لازمی کر دیں گے تو کمپنیاں مزید کم ہو جائیں گی۔ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت خزانہ نے کہا کہ وزارت خزانہ بھی اس بل کی حمایت نہیں کرتی، اس سے مسائل پیدا ہوں گے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ دنیا میں عوام کی فلاح و بہبود اور بنیادی سہولیات ریاست دیتی ہے، بل بہت اچھا ہے، بہتر یہی ہے کہ کمپنیوں پر منافع کا ایک فیصد عوامی فلاح کے منصوبوں پر خرچ کرنے اور کمپنی بورڈ میں مقامی سماجی ورکرز کو شامل کیا جائے۔
ایف بی آر کے حکام نے کمیٹی کو ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو تمباکو کے حوالے سے اختیار کرنے کیلئے 2008ء میں پہلی اور 2019ء تک پانچ دفعہ کوشش کی گئی مگر کامیابی نہ ہوئی جس کی بڑی وجہ تکنیکی استعداد کی کمی ہے۔
ایف بی آر حکام نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ صنعتیں بھی اس سسٹم کیلئے تیار نہیں تھیں، لیکن اس دفعہ اچھی طرح سٹڈی کی ہے، خامیوں کو دور کر کے قواعد مرتب کیے ہیں ، یہ نظام جولائی 2021ء سے فعال ہوجائے گا اور سب سے پہلے تمباکو وغیرہ اور پھر دیگر مصنوعات کیلئے لاگو کیا جائے گا۔