’آئی پی پیز کو 403 ارب روپے ادائیگی کی منظوری‘

معاہدوں سے 836 ارب روپے بچت متوقع، 46 آئی پی پیز کیساتھ معاہدہ، سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن دیکھے گا کہ آئی پی پیز کو کس طریقے سے ادائیگیاں کی جائیں، اسد عمر

990

اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے آئی پی پیز کو 403 ارب روپے ادائیگی کی منظوری دیدی ہے، رقم کی ادائیگی سے سرکلر ڈیبٹ اور کمپنیوں پر دبائو کم ہو گا۔

نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ کمپنیوں کے ساتھ معاہدے ہم نے نہیں بلکہ سابق حکومتوں نے کئے تھے، معاہدے کی صورت میں کمپنیوں کو رقم کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے، ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے سالانہ 10 فیصد سود بھی لگ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چھ سات کمپنیاں ایسی تھیں جن کے ساتھ ایم او یوز ہی دستخط نہیں ہوئے تھے، ایم او یو میں دو  تبدیلیاں کی گئی ہیں، صرف دو کمپنیوں سے معاہدے نہیں ہو سکے، معاہدوں میں ریٹ آف ریٹرن میں کمی کی گئی ہے، فیول، آپریٹنگ خرچ کی مد میں شیئرنگ پر بھی معاہدہ ہو گیا ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ آئی پی پیز کو فوری طور پر ادائیگیاں نہیں ہوں گی، کچھ کمپنیاں ایسی ہیں جنہیں ایک ماہ بعد ادائیگیاں کی جائیں گی، پاکستانی کمپنیوں کو روپے میں ادائیگیاں کی جائیں گی، کمپنیوں کی ادائیگی سے متعلق معاملہ نیپرا میں جائے گا، 160 ارب روپے کیش کی صورت میں ادا کیے جائیں گے جبکہ بقیہ رقم دیگر صورتوں میں کی جائے گی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن بنے گا جو معاملے کو دیکھے گا، کمیشن دیکھے گا کہ آئی پی پیز کو کس طریقے سے ادائیگیاں کی جائیں گی، ایم او یوز میں ردوبدل کیا گیا ہے جس کے تحت اب عالمی سطح پر پاکستان کیخلاف مقدمات نہیں ہوں گے۔

ایک سوال کے جواب میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ کوئی آڈیٹر جنرل کا پراسیس بائی پاس نہیں ہوا، آڈیٹر جنرل پالیسی فیصلے کرنے سے پہلے شامل نہیں ہوتے بلکہ ادائیگی کے عمل میں شامل ہوتے ہیں، فی الحال ایک روپہ بھی ریلیز نہیں کیا گیا، جو عام طریقہ کار ادائیگیوں کا ہے اسی طریقہ کار کے تحت آئی پی پیز کو ادائیگیاں ہوں گی۔

واضح رہے کہ سوموار کو وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ مفاہمت کی دستاویزات کو معاہدوں میں تبدیل کرنے اور 46 آئی پی پیز کو ادائیگی سے متعلق عمل درآمد کمیٹی کی رپورٹ کی منظوری دیدی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here