جی ڈی پی میں 19 فیصد حصہ ڈالنے والی کپاس کی پیداوار 20 سال کی کم ترین سطح پر

یکم فروری تک جننگ فیکٹریوں میں 55 لاکھ 71 ہزار 666 گانٹھ کپاس کی آمد، گزشتہ سال 84 لاکھ 87 ہزار 104 گانٹھ کپاس فیکٹریوں میں لائی گئی تھی

977

لاہور/ملتان: پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے)  کے مطابق یکم فروری 2021ء تک ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں 55 لاکھ 71 ہزار 666 گانٹھیں کپاس لائی گئی جو گزشتہ بیس سال میں کم ترین پیداوار ہے۔

گزشتہ سال یکم فروری 2020ء تک 84 لاکھ 87 ہزار 104 گانٹھیں کپاس فیکٹریوں میں آئی تھی، گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال 35 فیصد یعنی 29 لاکھ 15 ہزار 438 گانٹھیں کم کپاس فیکٹریوں میں آئی ہے۔

پنجاب کی جننگ فیکٹریوں میں یکم فروری تک 34 لاکھ 36 ہزار 731 گانٹھیں کپاس لائی گئی اور گزشتہ سال کی نسبت کمی کی شرح 31.46 فیصد رہی۔ سندھ کی فیکٹریوں میں 21 لاکھ 34 ہزار 935 گانٹھیں کپاس لائی گئی جو گزشتہ سال سے 38.53 فیصد کم رہی۔

یکم فروری 2021ء تک فیکٹریوں میں آنے والی کپاس سے 55 لاکھ 25 ہزار 948 گانٹھ روئی تیار کی گئی۔  پنجاب کی جننگ فیکٹریوں میں 33 لاکھ  92 ہزار 461 گانٹھ روئی تیار کی گئی۔

ضلع ملتان میں یکم فروری 2021ء تک 81 ہزار 44 گانٹھ، لودھراں میں 39 ہزار 305 گانٹھ، خانیوال میں دو لاکھ  29 ہزار 21 گانٹھ ، مظفر گڑھ میں 91 ہزار 675 گانٹھ، ڈیرہ غازی خان میں تین لاکھ 22 ہزار 841 گانٹھ، راجن پور میں 88 ہزار 215 گانٹھ، لیہ میں 99 ہزار 369 گانٹھ، وہاڑی میں ایک لاکھ 14 ہزار 251 گانٹھ کپاس فیکٹریوں میں لائی گئی۔

اسی طرح ساہیوال میں ایک لاکھ 73 ہزار 629 گانٹھ، رحیم یار خان میں چھ لاکھ 53 ہزار 05 گانٹھ، بہاولپور میں تین لاکھ 96 ہزار 360 گانٹھ، بہاولنگر میں 9 لاکھ 67 ہزار 316 گانٹھ کپاس فیکٹریوں میں لائی گئی۔

سندھ کے اضلاع سانگھڑ میں 7 لاکھ 91 ہزار 278 گانٹھ، میرپور خاص میں 29 ہزار 695 گانٹھ، نواب شاہ میں 63 ہزار 581 گانٹھ، نوشہرو فیروز میں ایک لاکھ 93 ہزار 731 گانٹھ، خیرپور 2 لاکھ 17 ہزار 601 گانٹھ، سکھر میں تین لاکھ 63 ہزار 479 گانٹھ، حیدرآباد میں ایک لاکھ 5 ہزار 475 گانٹھ، جام شورو میں 40 ہزار 800 گانٹھ جبکہ صوبہ بلوچستان میں 67 ہزار 200 گانٹھ کپاس فیکٹریوں میں آئی۔

پی سی جی اے کے مطابق ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں غیر فروخت شدہ 4 لاکھ 54 ہزار 764 گانٹھ کپاس اور روئی موجود ہے۔

پیداواری لحاظ سے بہاولنگر پہلے، سانگھڑ دوسرے نمبر پر

کپاس کی پیداوار میں پنجاب کا ضلع بہاولنگر پیداواری لحاظ سے پہلے نمبر پر رہا، یکم فروری 2021ء تک ضلع بہاولنگر کی جننگ فیکٹریوں میں 9 لاکھ 67 ہزار 316 گانٹھ کپاس لائی گئی۔ سندھ کا ضلع سانگھڑ 7 لاکھ 91 ہزار 278 گانٹھ کے ساتھ دوسرے اور پنجاب کا ضلع رحیم یار خان 6 لاکھ 53 ہزار 5 گانٹھ کپاس کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔

1300 میں سے صرف 90 جننگ فیکٹریاں فعال

کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ یکم فروری 2021ء تک پنجاب اور سندھ کی صرف 90 جننگ فیکٹریوں میں کام جاری ہے، ملک بھر میں تقریباََ 1300 جننگ فیکٹریاں ہیں جن میں سے پنجاب کی 87 اور سندھ کی صرف تین جننگ فیکٹریوں میں کام ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال 2020ء کے اسی عرصہ کے دوران پنجاب کی 119 اور سندھ کی 15 جننگ فیکٹریاں فعال تھیں۔

کس نے کتنی روئی خریدی؟

پاکستانی ٹیکسٹائل سیکٹر کپاس کے موجودہ سیزن میں یکم فروری 2021ء تک ملک بھر سے مجموعی طور پر 50 لاکھ 46 ہزار 702 گانٹھ روئی خرید کر مقامی روئی کا سب سے بڑا خریدار رہا۔ ٹیکسٹائل سیکٹر نے گزشتہ سال 2020ء میں اسی عرصے کے دوران 76 لاکھ 32 ہزار 063 گانٹھ روئی خریدی تھی۔

ٹیکسٹائل سیکٹر نے پنجاب سے یکم فروری 2021ء تک پنجاب سے 31 لاکھ 3 ہزار 979 گانٹھ روئی خریدی جبکہ سندھ سے یکم فروری تک 19 لاکھ 42 ہزار 723گانٹھ روئی خریدی گئی۔

ادھر برآمدکنندگان نے پنجاب اور سندھ سے مجموعی طور پر 70 ہزار 200 گانٹھ سے زائد روئی کی خریداری کر لی، گزشتہ سال 2020ء میں صرف سندھ کی جننگ فیکٹریوں سے برآمدکنندگان نے 58 ہزار 666 گانٹھ کی خریداری کی تھی۔ برآمدکنندگان نے یکم فروری 2021ء تک پنجاب سے صرف 4400 اور سندھ سے 65 ہزار 800 گانٹھ روئی خریدی۔ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کی جانب سے روئی بالکل نہیں خریدی گئی۔

حکومت بیج پر سبسڈی دے گی، فخر امام

دوسری جانب وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ سید فخر امام نے کہا ہے کہ حکومت کپاس کے بیج پر سبسڈی دے گی، ملک میں 40 ہزار ٹن کپاس کے بیج کی ضرورت ہے، کاشت کاروں کو روکنا ہے کہ وہ کپاس کے علاوہ دوسری فصلوں پر منتقل نہ ہوں۔

کاٹن سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں کپاس کا حصہ 19.3 فیصد ہے، پاکستان میں کپاس کی پیداوار کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ انڈیا ہائبرڈ کاٹن پیدا کر رہا ہے لیکن ہمارے پاس ہائبرڈ کاٹن کاشت نہیں ہو رہی۔

انہوں نے کہا کہ ملک کیلئے کاٹن سب سے بہتر ہے، تین مرتبہ کپاس کی امدادی قیمت مقرر کرنے کیلئے کوشش کی ہے۔ پنجاب میں 38 لاکھ ایکڑ اور سندھ میں 16 لاکھ ایکڑ پر کپاس کاشت کی گئی، سندھ میں نصف کپاس کی فصل تباہ ہو گئی تھی۔

سید فخر امام نے کہا کہ پنجاب میں کپاس میں وائٹ فلائی کو کنٹرول نہیں کر سکے، پاکستان نے آج تک کیمیکل بنانے کی بات نہیں کی جو بڑا چیلنج ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here