پاکستان کا پارسا سمگلر، جو شائد قانون سے ماورا آخری شخص تھا

بے تحاشا دولت، حقیقی زندگی میں انکی سرگرمیاں، جھگڑے اور ریاست کیساتھ تصادم نے نصف صدی تک پاکستانیوں کے تخیل پر راج کرنے والے سیٹھ عابد کے بارے میں ایسی کہانیوں کو جنم دیا جو آج بھی اپنا وجود رکھتی ہیں مگر ان کی تصدیق نہیں ہو سکتی

2921

صحت مند شکل و صورت، چھوٹے قد اور معمولی وضع قطع والے سیٹھ عابد نے ایک غیرمعمولی زندگی بسر کی، اہم اور طاقتور شخصیات کے درمیان انسان گبھرایا ہوا محسوس کرتا ہے مگر سیٹھ عابد مجمعے میں بھی پُرسکون دکھائی دیتے تھے۔ وہ خاموش طبع تھے مگر جب بولتے تھے تو بھرپور اعتماد کیساتھ گفتگو کرتے تھے، ان کی موت بھی حیران کن طور پر معمول کے انداز میں بالکل اسی طرح ہوئی جیسے کسی 85 سالہ بیمار شخص کی ہسپتال کے بستر پر وفات کی توقع کی جا سکتی ہے۔

آخری ایام میں سیٹھ عابد حیرت انگیز طور ایک عام آدمی بن چکے تھے، ایسا عام آدمی جو بہت امیر تھا اور جس نے بہت ساری دولت خیرات بھی کی، مرنے پر انہیں ایک مخیر شخص، گونگے بہرے بچوں کیلئے بنائی گئی حمزہ فاؤنڈیشن کے بانی، شوکت خانم  ہسپتال کے اولین اور بڑے عطیہ کنندہ اور ایک رئیل اسٹیٹ ڈویلپر کے طور پر یاد کیا گیا جو کسی زمانے میں لاہور میں سب سے زیادہ جائیداد کا مالک تھا۔

مگر 1970ء اور 80ء کی دہائی کی نسل کیلئے سیٹھ عابد ہر بیٹھک میں گفتگو کا موضوع تھے، یہ وہ دور تھا جب بظاہر معقول، نرم مزاج اور انفرادی شخصیت رکھنے والے سیٹھ عابد پاکستان میں گولڈ کنگ کے نام سے جانے جاتے تھے، وہ ایک ایسے کردار تھے جن کی پیدائش ایک عام گھرانے میں ہوئی مگر اس نے سونے کی سمگلنگ کے لیے کراچی، لاہور، نئی دہلی، لندن اور خلیج فارس کے درمیان دہائیوں سفر کیا، اس دوران پاکستان اور بھارت کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ انٹرپول بھی ان کی گرفتاری کیلئے پیچھا کرتی رہی۔

سیٹھ عابد کی زندگی ایسی تھی جو لیجنڈ اور افسانوی کردار کے مابین لکیر کو دھندلا کر آگے بڑھ گئی، ان کی بے تحاشا دولت، حقیقی زندگی میں ان کی سرگرمیاں، جھگڑے اور پاکستانی ریاست کے ساتھ تصادم نے ان کے بارے میں ایسی کہانیوں کو جنم دیا جو آج بھی اپنا وجود رکھتی ہیں مگر ان کی تصدیق نہیں ہو سکتی۔

کنٹینر میں جوہری سازوسامان سمگل کرنے سے لے کر، کاروبار کی آزادی کے بدلے پاکستان کا قرض اتارنے کی پیشکش اور بینظیر بھٹو کے اغواء تک سیٹھ عابد کی زندگی افواہوں اور قیاس آرائیوں کی دھند میں لپٹی ہے، ان کی انتہائی خفیہ مگر واضح طور پر المیہ زندگی نے ہمیشہ عوام کو ان کے بارے میں متجسس رکھا۔

اور یہ سب عجیب بھی نہیں ہے، دولت کی فراوانی اور اعلیٰ زندگی بہت پر کشش ہوتی ہے اور لوگ خیالی طور پر ایسی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں، ملک ریاض اور میاں منشاء جیسے لوگ بہت دور ہونے کے باوجود عام عوام کی دلچسپی اور تجسس کا مرکز ہوتے ہیں، یہی بات ان لوگوں کے لیے بھی درست ہے جو قانون کے دائرے سے باہر ہیں جیسا کہ بلا ٹرکاں والا، عابد باکسر اور تاجی کھوکھر جن کی تشدد سے بھرپور زندگی نوجوان لڑکوں کو متاثر کرتی ہے۔

سیٹھ عابد دولت مند بھی تھے اور قانون کی گرفت سے باہر بھی۔ انہوں نے عوام کے تخیل کو اپنی لپیٹ میں لیا اور نادانستہ طور پر ان کے بارے باتیں عوامی بول چال میں بطور استعارہ داخل ہو گئیں، جیسا کہ ‘ایڈا تو سیٹھ عابد آیا’ پنجابی روزمرہ بول چال کا حصہ بن چکا ہے۔

گو کہ سیٹھ عابد کی موت سے پہلے ہی روزمرہ زندگی میں ان کا اثرورسوخ اور شہرت ختم ہو کر رہ گئی مگر جو چیز ان کے بعد بھی باقی رہے گی وہ وہ ان کی زندگی سے جڑی وہ کہانیاں ہیں جو سنائی جاتی ہیں اور رہیں گی۔ پرافٹ نے اس مضمون میں پاکستان کے گولڈ کنگ کے دور اور ان کی زندگی پر نظر ڈالی ہے۔

ایک بے ضرر آغاز 

 سیٹھ عابد حسین 1935ء میں ضلع قصور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے، ان کی زندگی کے ابتدائی سالوں اور تعلیم بارے بہت کم معلومات میسر ہیں تاہم ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ ان کا جنم ایک ایسے خاندان میں ہوا جو چمڑا بنانے کیلئے استعمال ہونے والی جانوروں کی کھالوں کا کاروبار کرتا تھا، آباؤ اجداد کا تعلق کلکتہ سے تھا مگر کسی وجہ سے سیٹھ عابد کی پیدائش کے زمانے میں وہ قصور منتقل ہو چکے تھے۔

ان کا خاندان تقسیم ہند کے وقت ہونے والے تشدد سے بچ جانے میں کامیاب ہو گیا مگر 1950ء میں عابد حسین کے والد نے کراچی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا جہاں انہوں نے سونے کے چھوٹے سے کاروبار کی داغ بیل ڈالی، اصل کہانی یہاں سے ہی شروع ہوتی ہے، پاکستان کے پاس نہ تو کوئی سونے کے کان ہے اور نہ ذخائر مگر یہاں سونے کے حوالے سے دیوانہ پن پایا جاتا ہے، یہاں ناصرف عوام اپنی آمدن کا بڑا حصہ سونا خریدنے میں خرچ کر دیتے ہیں بلکہ (غلط طور پر) اس قیمتی دھات کو ایسی سرمایہ کاری سمجھتے ہیں جس کی قدر وقت کے ساتھ کم نہیں ہوتی لیکن اتنا سارا سونا آتا کہاں سے ہے؟ اس کا جواب ہے کہ بھارت، خلیج یا پھر امریکہ سے۔

اب ذرا 1950ء میں کراچی کے حالات کا تصور کریں، تقسیم کے بعد یہ پاکستان کا دارالخلافہ بنا، اس وقت پاک بھارت سرحد پر کئی ایسے راستے موجود تھے جہاں سے لوگ ایک دوسرے کے ملک میں آ جا سکتے تھے، (بالخصوص پنجاب میں)۔

گو کہ پاکستان نیوی آج بھی بہت زیادہ ترقی یافتہ نہیں، مگر اُس وقت دو کشتیاں، دو فریگیٹس، چار مائن سویپرز، دو نیول ٹرالرز اور چار لانچیں اس کی کل کائنات تھی، باالفاظ دیگر کراچی کی بندرگاہ قانونی اور غیرقانونی کاروبار کا مرکز تھی، تقسیم کے پرتشدد ہنگامے تھمے تو اگلے دو چار سال میں زندگی معمول کی جانب لوٹنے لگی، لوگ شادیاں اور تقریبات منعقد کرنے لگے اور اس کے ساتھ ہی سونے کی مانگ بھی بڑھنے لگی۔ لہٰذا فطری بات تھی کہ سیٹھ عابد کے والد نے زیادہ تر سونا اور چاندی سمگلروں سے حاصل کیا جو اسے بھارت، خلیج اور امریکی خطے سے لندن کے راستے کراچی لے کر آتے تھے۔

اسی زمانے میں عابد حسین کی ملاقات کاشف بھٹی سے ہوئی، کاشف بھٹی منجھا ہوا آدمی تھا، وہ دہلی سے سونا پاکستان لایا کرتا، تقسیم کے بعد سمگلر بن گیا اور بھارت اور مشرق وسطیٰ سے سونا سمگل کرنا شروع کر دیا، عابد حسین نوجوان تھے اور کبھی کبھار والد کی دکان پر بیٹھتے تھے، ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے کاشف بھٹی نے انہیں کام میں حصہ دار بنا لیا، یہیں سے عابد حسین کے سیٹھ عابد بننے کا عمل شروع ہوا، کچھ برین واشنگ کاشف بھٹی نے کی اور عابد حسین نے سمگلنگ کو جائز سمجھنا شروع کر دیا۔

شروع میں دونوں سونے کی سمگلنگ کراچی کے ساحل کے ذریعے کرتے تھے، جلد ہی یہ سیٹھ عابد کا خاندانی کاروبار بن گیا، ان کے بھائی حاجی اشرف، جو روانی سے عربی بولنا جانتے تھے، نے خلیج کی طرف کے سمگلنگ آپریشنز سنبھال لیے۔

کچھ ہی سالوں میں کاروبار چمک اٹھا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے پیچھے پڑ گئے، تب تک سیٹھ عابد سونے کی سمگلنگ کیلئے دو بار پنجاب کی سرحد پار کرکے بھارت جا چکے تھے، کاشف بھٹی انہیں سب سے پہلے دہلی لے کر گیا جہاں سیٹھ عابد کے ہم زلف غلام سرور رہتے تھے جنہوں نے سیٹھ کو سونا فروخت کرنے والے لوگوں سے ملایا۔

اپریل 1958ء میں سیٹھ عابد کو سمگلنگ ریکٹ چلاتے ہوئے ابھی ایک دہائی بھی نہیں گزری تھی تب انہیں کراچی میں کسٹمز حکام کی جانب سے ساڑھے 31 کلو گرام سونے کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس وقت پکڑے گئے سونے کی مالیت 40 ہزار790 ڈالر یا ایک لاکھ 95 ہزار روپے تھی، آج  کے حساب سے اس سونے کی قیمت 20 لاکھ ڈالر بنتی ہے۔

اس واقعے کے حوالے سے بی بی سی اردو کے لیے ایک مضمون میں صحافی الیاس چٹھہ نے لکھا ہے کہ ”کسٹمز حکام نے اس حوالے سے ایک پریس ہینڈ آؤٹ جاری کیا جس میں دو سو تولے سونا پکڑے جانے کی بات کی گئی تھی تو سیٹھ عابد نے  تصحیح کی کہ دو سو تولہ نہیں بلکہ  اصل میں تین ہزار ایک سو تولہ سونا تحویل میں لیا گیا ہے۔”

یہ پہلا موقع تھا جب سیٹھ عابد کا نام اخبارات میں چھپا تھا، پانچ ماہ تک زیرحراست رہنے کے بعد وہ رہا کر دئیے گئے، یہ ان کی پہلی اور آخری گرفتاری تھی، اس کے بعد وہ کبھی جیل نہیں گئے۔

آٹھ سال کے قلیل عرصے میں سیٹھ عابد نے سمگلنگ کے بین الاقوامی نیٹ ورک کے علاوہ اندرون ملک پسندیدہ پولیس والوں اور بیوروکریٹس کا ایسا نیٹ ورک قائم کر لیا تھا جو ان کے کام میں معاونت کرتا تھا اور انہیں مشکل سے نکلنے میں مدد کرتا تھا۔

شروع میں وہ خود کراچی کے صرافہ بازار جا کرسمگلنگ کا سونا فروخت کرتے تھے، مگر گرفتاری کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا اور انہوں نے سمگلنگ کا دھندہ پس منظر میں رہ کر اپنے ایجنٹس کے ذریعے چلانا شروع کر دیا۔

سیٹھ عابد بہت کم عمری میں ہی امیر بن گئے، 1960ء کی دہائی میں ان کی دولت میں تیزی سے اضافہ ہوا، اس زمانے میں پیسہ چھپانا بالکل آسان اور سرکاری حکام کیلئے کسی کے پیسے کی کھوج لگانا آج کی نسبت بہت مشکل تھا، اس دوران سیٹھ عابد نے لاہور میں پراپرٹی خریدنا شروع کر دی، یوں انہوں نے سونے کی سمگلنگ کے علاوہ دیگر ذرائع آمدنی رکھنے والی ایک صاف شفاف کاروباری شخصیت کے طور پر پہچان بنانا شروع کی اور عابد گروپ کی بنیاد رکھی، یہ گروپ آج بھی پاکستان کے بڑے کاروباری اداروں میں سے ایک ہے۔

چیزیں شائد اسی طرح چلتی رہتیں مگر پھر ذوالفقار علی بھٹو کا دور شروع ہو گیا جو سیٹھ عابد کیلئے تنازعات اور مشکلات سے بھرپور تھا۔

بھٹو کا دور 

1963ء میں بھارتی اخبار ‘ٹائمز آف انڈیا’ نے خبر شائع کی کہ پاکستان کا گولڈ کنگ بھارت میں ہی کہیں چھپا ہوا ہے اور ان کے ہم زلف غلام سرور کو سونے کی 44 اینٹوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا ہے، اس خبر نے سیٹھ کا قد مزید بڑھا دیا، ایسا لگتا تھا کہ پاکستان کا اپنا کوئی رابن ہڈ موجود ہے جو امیروں سے لوٹ کر غریبوں میں بانٹ دیتا ہے۔

سیٹھ عابد کی شخصیت سے متعلق کراچی اور لاہور میں بے شمار غیرمصدقہ کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں، جیسے کہ وہ کسی ہسپتال میں بچوں کے وارڈ میں جاتے اور جو بھی بچہ نظر آتا اسے ہزاروں روپے تھما دیتے، انہوں نے ہزاروں ایسے خاندانوں کی مالی معاونت کی جنہیں مدد کرنے والے کا کوئی اتا پتا ہی نہ چل سکا، وہ ہر سال حج پر جاتے اور اپنے ساتھ سونا لا کر ان لوگوں میں تقسیم کر دیتے جو اپنی بیٹیوں کی شادیوں کیلئے سونا نہیں خرید سکتے تھے، یہ وہ کہانیاں ہیں جو اب بھی لوگ بڑی خوشی سے سناتے ہیں۔ تاہم سیٹھ عابد کی خیراتی اور فلاحی سرگرمیوں کا زندہ ثبوت 1964ء میں گونگے بہرے بچوں کیلئے قائم کی جانے والی حمزہ فاؤنڈیشن  ہے۔

سمگلر ہونے کی حقیقت نے سیٹھ عابد کی شخصیت کو عوام کیلئے مزید پُرکشش بنا دیا تھا، سونے کا کاروبار کرنے والا یوں بھی لوگوں کی دلچسپی کا باعث ہوتا ہے، 1960ء کی دہائی میں پاکستان میں ابن صفی کی عمران سیریز کی دھوم تھی، ان کہانیوں میں رحم دل اور سخی لٹیروں کو رومانوی اور قابل یقین انداز میں پیش کیا گیا ہے، اس عرصے میں سیٹھ عابد جہاں بھی ہوتے تھے، چاہے وہ لندن، سعودی عرب یا بھارت میں ہوں، ان سے متعلق ایک سرگوشی کو بھی بہت توجہ سے سنا جاتا تھا۔

اس کے بعد 1971ء کی جنگ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ ہوا، ذوالفقارعلی بھٹو باقی ماندہ پاکستان کے سربراہ کے طور پر ذمہ داریاں سنبھال چکے تھے اور قوم ملک کے دو لخت ہونے کے صدمے سے دوچار تھی۔ ایسے میں سیٹھ عابد وہ آخری شخص تھے جو لوگوں کے ذہن میں تھے۔ بھٹو نے برسر اقتدار آکر ملک کے امیر افراد کے خلاف کاروائیوں کا آغاز کر دیا۔ ان میں سیٹھ عابد بھی شامل تھے، حکومت نے ان کے بہت سے اثاثے ضبط کر لیے اور ان کے خلاف مقدمات بنائے گئے۔

کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں ہیں لہٰذا وہ گرفتاری سے تو بچ گئے لیکن 1974ء میں لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں واقع ان کے گھر پر پولیس کے چھاپے نے قوم کو حیران کر دیا، یہ سمجھا جاتا تھا کہ سیٹھ عابد کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا مگر اس کارروائی میں ان کے گھر پر دھاوا بولا گیا تھا، اگلی صبح ان کے گھر سے برآمد ہونے والا سامان کاغذ میں لپیٹا ہوا پڑا تھا لیکن حکومت کے اس اقدام کی بدولت اس شخص کی شہرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔

یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سیٹھ عابد کی رہائش پر مارے گئے اس چھاپے میں ایک کروڑ 25 لاکھ پاکستانی روپے، 40 لاکھ روپے کا سونا اور 25 لاکھ روپے کی سوئس گھڑیاں قبضے میں لیں گئیں، جب اس کارروائی کے نتیجے میں سیٹھ عابد نہ ملے تو بھٹو حکومت  نے 1974ء میں انہیں ڈھونڈنے اور عدالت میں پیش کرنے کے لیے ملک کی سب سے بڑی تلاش کا آغاز کردیا۔

اگلے چند سالوں تک سیٹھ عابد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین آنکھ مچولی چلتی رہی، اداروں کے اہلکار سیٹھ عابد کے قریب پہنچتے اور وہ بچ نکلتے اور یہ سلسلہ جاری رہا، 1977ء میں سیٹھ عابد کی گرل فرینڈ کے اپارٹمنٹ پر چھاپا مارا گیا، ایسا ان کی آمد سے چند منٹ پہلے ہوا، اسی زمانے میں یہ افواہ بھی اڑی کہ سیٹھ عابد نے حکومت سے اپنے اثاثے چھڑوانے کیلئے بینظیربھٹو، جو کہ اُس وقت برطانیہ میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں، کو اغوا کرلیا تھا۔

جب بھٹو حکومت اور سیٹھ عابد کے درمیان دشمنی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی انہی دنوں میں جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا، بعد میں ضیاء حکومت اور سیٹھ عابد بہترین شراکت دار بن گئے۔

عابد حسین سے سیٹھ عابد تک  

چار سال تک بھٹوحکومت سے لڑنے اور اس سے دور بھاگنے کے بعد سیٹھ عابد نے خود کو رضا کارانہ طور پر فوجی حکومت کے حوالے کر دیا، اس کام کے لیے پیشگی طور پر نہ کوئی بات چیت ہوئی نہ ہی شرط رکھی گئی، یہ ایک ذہین شخص کی زبردست چال تھی۔

سیٹھ عابد کو امید تھی کہ جنرل ضیاء الحق انہیں قبول کر لیں گے کیونکہ دونوں بھٹو سے نفرت کرتے تھے جو اس وقت راولپنڈی جیل میں قید تنہائی کاٹ رہے تھے، سیٹھ عابد نے سرنڈر کیا اور شائستہ انداز میں اپنے وہ تمام اثاثے واپس مانگے جو بھٹوحکومت نے قبضے میں لیے تھے، اس پر ضیاء الحق کی حکومت نے بغیر کسی شرط کے تمام اثاتے واپس لوٹا دیے۔

مگر بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ سب کچھ اتنا معمولی نہیں تھا جتنا نظر آ رہا تھا، جس سال حکومت نے سیٹھ عابد کے اثاثے واپس لوٹائے اسی سال انہوں نے گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل جہانزیب ارباب کو دو ہسپتالوں کی تعمیر کیلئے ایک خطیر رقم عطیہ کی، یوں عوامی حمایت حاصل ہونے کے ساتھ سیٹھ  عابد کی خیراتی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔

جس واقعے نے پاکستانی عوام کے ذہنوں میں سیٹھ عابد کا تاثر ایک جہاندیدہ سمگلر کے طور پر نقش کر رکھا ہے وہ 1985ء میں رونما ہوا، کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو ایٹمی پروگرام کیلئے فرانس سے کچھ ری ایکٹر منگوانے کی ضرورت پیش آئی لیکن مشکل یہ تھی کہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کو مذکورہ ٹیکنالوجی درآمد کرنے کی اجازت نہیں تھی، حکومت نے اس مقصد کیلئے سیٹھ عابد کی خدمات حاصل کیں جنہوں نے پاکستان کیلئے وہ سامان فرانس سے سمگل کیا۔

مگر اس افواہ کا حقیقت سے دور دور تک بھی تعلق نہیں، حقیقت یہ ہے کہ 1976ء میں چشمہ کے مقام پر جوہری پلانٹ قائم کرنے کیلئے فرانس نے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیا مگر امریکہ کی مداخلت آڑے آ گئی، ڈاکٹر ہنری کسنجر نے اسلام آباد کا دورہ کیا اور پاکستان کو فرانس کے ساتھ مذکورہ معاہدہ ختم کرنے کی بات کی، نتیجہ یہ نکلا کہ ڈیل منسوخ ہو گئی۔

یہ بات قرین قیاس ہے کہ سیٹھ عابد نے جوہری پروگرام میں بہرحال کچھ کردار ضرور ادا کیا، جس میں یورپ سے جوہری مشینری کے کچھ ڈیزائن چوری کرنا شامل ہے، یہ وہ کارنامہ تھا جس کے بعد پاکستان نے جوہری طاقت بننے کی طرف ایک بڑا قدم اُٹھایا اور اس کام کے بدلے حکومت پاکستان کی جانب سے سیٹھ عابد کو بڑا اعزاز دیا گیا۔

بی بی سی اردو کے مطابق سیٹھ عابد کی سمگلنگ کا معاملہ قومی اسمبلی میں بھی زیر بحث رہا، چودھری نثار کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی کو تحقیقات کا ٹاسک دیا گیا تھا، اس کمیٹی نے نہ صرف سیٹھ عابد کو تمام الزامات سے بری کر دیا بلکہ 1958ء میں کسٹمز کی جانب سے قبضے میں لیا گیا تین ہزار 100 تولہ سونا بھی واپس کرنے کا حکم دیا۔

اس کے بعد سے سیٹھ عابد اور عابد گروپ نے سونے کی سمگلنگ پر انحصار کم سے کم کرکے قانونی کاروبار، جس میں سب سے اہم پراپرٹی بزنس ہے، پر توجہ بڑھا دی، انہوں نے ایڈن ولاز اور ایڈن گارڈنز کے نام سے ہائوسنگ پراجیکٹ بنائے اور لاہور میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ارد گرد وسیع و عریض رقبہ آباد کر دیا۔

1990ء کی دہائی میں سیٹھ عابد لاہور کے سب سے بڑے پراپرٹی ڈیویلپر بن گئے تاہم اس عرصے میں انہوں نے یہ کاروبار اپنے بیٹے حافظ ایاز احمد کے سپرد کرنا شروع کر دیا تھا، سونے کی سمگلنگ اب اتنی آسان نہیں رہی تھی جتنی ماضی میں تھی، سرحدوں کی سیکیورٹی اور نگرانی سخت ہو چکی تھی، سیٹھ عابد ہر کام خود کرنا پسند کرتے تھے، وہ اپنی تیار کردہ ہاؤسنگ سوسائٹیزمیں متوقع خریداروں کے گھر جاتے اور خود کو انتہائی سادگی سے متعارف کروانے کے بعد ان کی رائے معلوم کرتے کہ وہ کون سی چیز میں تبدیلی چاہتے ہیں۔

لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ان کی زیادہ تر توجہ حمزہ فاؤنڈیشن کی جانب مبذول ہوتی گئی، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ حافظ ایاز کے علاوہ ان کی اولاد میں بھی خصوصی بچے شامل ہیں، اس موقع پر، ان کی مقبولیت ختم ہو گئی تھی کیونکہ عابد گروپ کو پہلے کی طرح مشکل حالات کا سامنا نہیں رہا لیکن سیٹھ عابد کا نام دولت اور طاقت کی علامت رہا۔

2006ء میں ان کے بیٹے سیٹھ ایاز کو ایک ناراض سیکیورٹی گارڈ نے گولی مار دی جس کے بعد سیٹھ عابد پہلے سے بھی زیادہ پس منظر میں رہنے لگے اور بہت کم کسی تقریب میں شریک ہوتے تھے تاہم انہوں نے مختلف ادوار میں آنے اور جانے والی حکومتوں کے ساتھ اپنے تعلق کو برقراررکھا، وقت گزرنے کے ساتھ سیٹھ عابد کی شخصیت کی کشش ختم ہوتی گئی مگر ان کی زندگی ایک بھرپور کہانی ہے۔

آج کے ٹیکنالوجی کے دور میں سیٹھ عابد شائد اپنی نوعیت کے آخری فرد ہوں۔ قانون کی گرفت سے بچ کر غیر قانونی کام انجام اب انٹرنیٹ پر ہیکنگ کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے، آج کل سرحدوں سے سونے کی سمگلنگ قصہ پارینہ بن چکی ہے یا پھر ایکشن فلموں میں دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

پراٖفٹ سے وابستہ ایک سینئیر ایڈیٹر نے نواب زادہ نصراللہ خان کی وفات پر لکھا تھا کہ ”وہ چرچل کے زمانے کے آخری سیاستدان تھے”۔ اسی ایڈیٹر نے نواب اکبر بگٹی کی موت پر لکھا کہ ”وہ جاگیردارانہ نوابوں میں سے آخری تھے”۔ سیٹھ عابد کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ شائد پاکستان کی تاریخ میں قانون سے ماورا آخری شخص تھے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here