لاہور: پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن (پائما) نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے درآمدی سطح پر کمرشل امپورٹرز پر عائد تیین فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس ختم کرنے، صنعتی و کمرشل امپورٹرز کے لیے یکساں وِدہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ، پولیسٹر فلامنٹ یارن پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی ختم کرنے اور پی او وائی پر ٹیکس کی شرح کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پائما کے سینئر وائس چیئرمین حنیف لاکھانی اور وائس چیئرمین فرحان اشرفی کی قیادت میں وفد نے انکم ٹیکس آفس میں ممبر اِن لینڈ ریونیو آپریشن فیڈرل بورڈ آف ریونیو ڈاکٹر محمد اشفاق احمد سے ملاقات میں سات نکاتی ایجنڈا پیش کیا جس میں ٹیکسٹائل اور اس سے ملحقہ صنعتوں کو فروغ دینے کے لیے لاگت میں کمی اور حکومتی ریونیو میں اضافے کے حوالے سے اہم تجاویز پیش کی گئیں۔
اس موقع پر چیف کمشنر آفتاب امام اور حمید میمن (ایف بی آر) بھی موجود تھے جبکہ پائما کے وفد میں محمد عثمان، خورشید شیخ، اسلم موٹن، ثاقب نسیم، جاوید خانانی، خرم بھرارا اور سلمان اشرف شامل تھے۔
وفد نے ممبر اِن لینڈ ریونیو کو بتایا کہ درآمدی سطح پر کمرشل امپورٹرز پر غیر ضروری طور پر تین فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس عائد ہے حالانکہ خام مال درآمدی سطح پر ایک کموڈٹی ہے اور یہ ممکن نہیں کہ یارن جیسی کموڈٹی کو 17 سے 18 فیصد کے پرافٹ مارجن کے ساتھ فروخت کیا جائے جو دو سے پانچ فیصد ہو سکتا ہے لہٰذا یہ ٹیکس درآمدکنندگان پر بوجھ ہے اس کو واپس لیا جائے یا پھر ایک فیصد رکھا جائے۔
یہ بھی پڑھیے:
کپاس کی پیداوار میں 34 فیصد کمی، ٹیکسٹائل برآمدات متاثر ہونے کا خدشہ
’ٹیکسٹائل سیکٹر کے برآمدی آرڈرز میں ریکارڈ اضافہ، روئی کی قلت، اربوں کی روئی درآمد کرنا پڑے گی‘
انہوں نے بتایا کہ درآمدی سطح پر کیپٹل گڈز پر ایک فیصد، خام مال پر دو فیصد اور فنشڈ گڈز پر ساڑھے پانچ فیصد ٹیکس عائد ہے لہٰذا ودہولڈنگ ٹیکس صنعتی و کمرشل درآمدکنندگان پر یکساں یعنی ایک فیصد ہونا چاہیے۔
اسی طرح پولیسٹر فلامنٹ یارن (خام مال) پر اڑھائی فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہے جو ویونگ، نٹنگ اور ہوم ٹیکسٹائل میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ 70 فیصد درآمد ہوتا ہے جبکہ صرف 30 فیصد مقامی مینوفیکچررز تیار کرتے ہیں لہٰذا پولیسٹر فلامنٹ یارن پر ریگولیٹری ڈیوٹی مکمل طور پر ختم کی جانی چاہیے۔
پائما کے وفد نے ایف بی آر افسران کی توجہ ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کی طرف مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی جو اس وقت دو فیصد ہے اسے مکمل ختم کیا جائے نیز پولیسٹر ویلیو ایشن چین کے کاسکیڈنگ سسٹم کو جسٹیفائی کیا جائے تاکہ نچلے اور اوپری سطح پر پولیسٹر ویلیو ایشن چین کے کاسکیڈنگ سسٹم کے شرکت کنندگان کے کاروبار کو تحفظ حاصل ہو سکے۔ اگر حکومت اس کا نفاذ کرتی ہے تو اس سے سرمایہ کاری بڑھے گی اور روزگار میں بھی اضافہ ہو گا۔
حنیف لاکھانی اور فرحان اشرفی نے ممبراِن لینڈ ریونیو کو یہ بھی بتایا کہ غیر رجسٹرڈ افراد کو مال کی فروخت پر تین فیصد اضافی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جس سے جعلی انوائسز کا رجحان بڑھ جاتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور اس طرح حکومت ایک جانب 17 فیصد براہ راست وصولی سے محروم ہو جاتی ہے اور دوسری طرف ریونیو کی مد میں خطیر نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یارن کے ٹرن اوور کے جو ریٹ ہیں اس میں اناملی ہے کیونکہ یارن کے ٹریڈرز کا کہنا ہے کہ وہ بڑے والیم کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں جبکہ منافع کی شرح بہت کم ہوتی ہے وہ یارن اسپنرز سے خرید کر ویونگ سیکٹر کو فروخت کرتے ہیں۔ ان کا منافع ایک فیصد یا بعض اوقات اس سے بھی کم ہوتا ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے 2001ء میں ایس آر او 333 جاری کیا گیا جس کے تحت یارن کے ٹریڈرز پر 0.1 فیصد ٹرن اوور ٹیکس عائد کیا گیا جو مجموعی مارجن کا 10 فیصد بنتا ہے لہٰذا پائما کا مطالبہ ہے کہ اس اناملی کو ختم کیا جائے اور فرسٹ شیڈول پارٹ 1 ڈویژن IX کو اس میں شامل کیا جائے۔
پائما کے وفد نے مزید کہا کہ پولیسٹر یارن کی سکیڈنگ چین خام مال کی حیثیت رکھتا ہے اور اس میں پولیسٹر پارشلی اوریئنٹڈ (پی او وائے) کو جس ٹیرف اسٹرکچر میں رکھا گیا ہے وہ فنشڈ گڈز کے لیے ہوتا ہے۔ پی او وائے ایک درمیانے درجے کا خام مال ہے جس کو صرف اس لیے تیار کیا جاتا ہے تاکہ پولیسٹر ڈراء ٹیکسچرڈ یارن (ڈی ٹی وائے) تیار کیا جا سکے۔
پاکستان میں پی او وائے درآمد نہیں کیا جاتا جبکہ ڈی ٹی وائے سالانہ تقریباً 200 ملین ڈالر مالیت کا درآمد کیا جاتا ہے لہٰذا پالیسی ساز ایسے اقدامات عمل میں لائیں جس سے ڈیوٹی کم ہو اور پی او وائے پر ٹیکس کی شرح کم ہو تاکہ ڈی ٹی وائے کی صنعتیں قائم ہوں اور درآمدات پر قابو پایا جا سکے اس سے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوں گے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے اخراج کو بچانے میں بھی مدد ملے گی۔
اس موقع پر ممبر اِن لینڈ ریونیو آپریشن فیڈرل بورڈ آف ریونیو ڈاکٹر محمد اشفاق احمد نے پائما کے وفد کو یقین دہانی کروائی کہ وہ پائما کے پیش کردہ ایجنڈے پر غور کریں گے اور وزارت تجارت اور وزارت خزانہ کو بھی آگاہ کریں گے تاکہ اسے بجٹ میں شامل کیا جا سکے۔
انہوں نے وفد کو اپنے ہر ممکن تعاون کی بھی یقین دہانی کروائی جس کا مقصد ملک میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینا اور حکومتی ریونیو میں اضافہ ممکن بنانا ہے۔