حکومت نے سول سروس اصلاحات متعارف کروا دیں

ملازمین کی ترقی کیلئے بورڈز کے اختیارات میں اضافہ، ریٹائرمنٹ کی عمر کم نہ کرنیکا فیصلہ، نیب یا ایف آئی اے کی انکوائری بھگتنے والے افسر کو ترقی نہیں ملے گی، تین اے سی آر بہتر نہ ہونے یا پلی بارگین کرنیوالے افسر کو ریٹائر کر دیا جائیگا: شفقت محمود

1009

اسلام آباد: وفاقی وزیر تعلیم اور کابینہ کی ادارہ جاتی اصلاحات کمیٹی کے سربراہ شفقت محمود نے ادارہ جاتی اصلاحات کمیٹی کے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملازمین کی ترقی کے لئے بورڈز کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے، ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد کم کرنے کی کوئی تجویز نہیں، پینشن والے اداروں کے ملازمین کو پینشن ملے گی۔

بدھ کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ کابینہ کی ادارہ جاتی ریفارمز کمیٹی میں سول سروس ریفارمز کے چھ حصوں پر فیصلے کئے گئے ہیں، اس میں سرکاری ملازمین کی ترقی، ریٹائرڈ کرنے کے اختیارات، ڈسپلنری رولز میں ترامیم اور ایم پی سکیل کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے، سرکاری افسران کی روٹیشن پالیسی پر بھی تفصیلی فیصلہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادارہ جاتی اصلاحات میں پہلی دفعہ تقرری کی مجاز اتھارٹی کا تعین کیا گیا ہے، جس سرکاری افسر پر نیب یا ایف آئی اے میں انکوائری چل رہی ہو گی اس کی ترقی کو موخر کیا جائے گا، تین سال تک زیر التواء مقدمات پر ترقی کے لئے کیس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

شفقت محمود نے کہا کہ اصلاحات میں ملازمین کی ترقی کے لیے بورڈز کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے، ایف پی ایس سی کے چیئرمین کو 20ویں گریڈ تک جبکہ 17 سے 19 تک سیکرٹری اور نچلے گریڈ کے ملازمین کو ریٹائر کرنے کا اختیار جوائنٹ سیکرٹری کو دے دیا گیا ہے۔

شفقت محمود نے کہا کہ تین اے سی آر بہتر نہ ہونے پر ملازمین کو ریٹائرڈ کیا جا سکے گا، پلی بارگین کرنے والے افسر کو ریٹائر کرنے کا اختیار ہو گا۔ ای اینڈ ڈی رولز میں ترمیم کی گئی ہیں، انکوائری کمیٹی کو 60 دن میں فیصلہ کرنا ہو گا، سزا دینے کا مجاز افسر 30 دن میں فیصلہ کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ پلی بارگین کرنے والے افسر کے خلاف انضباطی کارروائی بھی کیا جا سکے گی، ایک سے زائد الزامات کی صورت میں ایک ہی انکوائری ہو گی۔ صوبوں میں کام کرنے والے افسران کی انکوائری اب اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھی کر سکتی ہے۔

وزیر تعلیم نے کہا کہ ایم پی سکیل کا دورانیہ تین سال کر دیا گیا ہے، کمیٹی اس میں توسیع کا اختیار رکھتی ہے۔ روٹیشن پالیسی کے تحت ایک ہی صوبے میں دس سال سے زیادہ کوئی افسر تعینات نہیں رہ سکے گا۔ دو سال ہارڈ ایریاز میں سروس کرنا لازمی ہو گا۔

شفقت محمود نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد کم کرنے کی کوئی تجویز نہیں ہے، گو کہ پینشن سے سرکاری خزانے پر بوجھ بڑھ رہا ہے تاہم پینشن ریفارمز بارے تجاویز زیرغور ہیں۔ پینشن والے اداروں کے ملازمین کو پینشن ملے گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here