فیصل آباد: عالمی سطح پر 22 کروڑ سے زائد صارفین کے ساتھ پاکستان دنیا کی آٹھویں بڑی صارف مارکیٹ بن گیا ہے جبکہ پاکستان کے صنعتی شعبہ میں فوڈ انڈسٹری کا حصہ 27 فیصد ہے جو اس شعبے میں مجموعی طور پر روز گار کا 18 فیصد حصہ ڈال رہا ہے۔
اسی طرح پاکستان 55 ارب لٹر سالانہ دودھ کی پیداوار حاصل کرکے دنیا کا پانچواں بڑا ملک قرار پایا ہے لیکن فوڈ پراسیسنگ اور ویلیو ایڈیشن کا نظام دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے صرف چار سے پانچ فیصد دودھ پراسیس کیا جا رہا ہے۔
ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ زرعی انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین کے مطابق پولٹری، کپاس کے بعد ملک کی دوسری بڑی صنعت کا درجہ رکھتی ہے اور اس سے 12 کروڑ افراد وابستہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر گوشت کی پیداوار کا 24.8 فیصد مرغی کے گوشت سے حاصل کیا جاتا ہے، اس کے باوجود پاکستان بین الاقوامی مارکیٹ میں گوشت برآمد کرنے والے ممالک میں انتہائی نچلے درجے پر موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پانچ ہزار 253 ٹن تازہ پھل پیدا ہو رہے ہیں مگر باغبانوں کے پاس پوسٹ ہارویسٹ ٹیکنالوجی اور فوڈ انجینئرنگ کا نظام نہ ہونے کی و جہ سے زیادہ تر پیدا وار ضائع ہو جاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان کو عالمی مارکیٹ میں اپنا حصہ حاصل کرنے کیلئے زرعی ٹیکنالوجی کو اپنانا ہو گا اس وقت دنیا کے 100 ممالک میں 94 ہزار سے زائد گلوبل گیپ پروڈیوسر اپنی پیداواریت کو بیرونی منڈیوں میں بھجوا رہے ہیں اور آنیوالے سالوں میں ان کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ممالک برطانوی معیارات خصوصاََ بی آر سی کے تحت اپنی مصنوعات کی درجہ بندی کر سکتے ہیں، اس سلسلہ میں اب تک 73 ممالک سے 17 ہزار بی آ ر سی مستند پروڈیوسرز اپنی مصنوعات فروخت کیلئے پیش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فوڈ انجینئرنگ کی پوری دنیا میں بہت مانگ ہے لہٰذا جامعہ زرعیہ فیصل آباد کی جانب سے اس کا آغازبہترین اقدام ہے۔