اسلام آباد: پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے آر ایل این جی کی خریداری ، فروخت اور پالیسی سازی کے حوالے سے وزارت پٹرویم کی بریفنگ پرعدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس میں چیئرمین رانا تنویر حسین کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی، اجلاس میں پٹرولیم ڈویژن کے 2019 -2020ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ وزارت پٹرولیم کی طرف سے سپیکر کو ایک خط موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پی اے سی صرف آڈٹ اعتراضات تک ہی اپنا کردارادا کرے، لیکن ہماری جو ذمہ داری ہے وہ پوری کریں گے، سابق سپیکر گوہر ایوب کے دور میں کمیٹیوں کے قواعد میں ترمیم کرکے بااختیار بنایا گیا تھا۔
اس پر سیکرٹری پٹرولیم اسد حیا الدین نے کہا کہ پارلیمنٹ بااختیار ہے، ہمیں پارلیمنٹ کی بالا دستی پر کوئی شک و شبہ نہیں، ہم سے ہر قسم کا سوال کیا جا سکتا ہے۔
سیکریٹری پٹرولیم نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت مقامی اور درآمدی دو گیسیں ہیں جبکہ ان کی قیمت میں فرق ہے، اسی سے طلب اور رسد میں فرق آتا ہے، جب دونوں گیسوں کو مکس کریں گے تو لامحالہ قیمت بڑھ جائے گی اور ہمیں گردشی قرضوں کا سامنا ہو گا۔
یہ بھی پڑھیے:
سی این جی اسٹیشنز، غیر برآمدی صنعتوں کو گیس فراہمی بند
تیل و گیس کی تلاش کیلئے 20 نئے بلاکس کی نیلام کا فیصلہ
فلوٹنگ یونٹس کے ذریعے اہم صارفین کو گیس فراہمی کا منصوبہ شروع
کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس وقت ذرائع ابلاغ میں 122 ارب روپے کے نقصانات کی بات کی جا رہی ہے حالانکہ ان تین ماہ کے لئے ہم نے صرف 35 ارب کی ایل این جی خریدی ہے، اگر قیمت ہی صرف 35 ارب ہو گی تو 122 ارب کا نقصان کیسے ہو سکتا ہے۔ ایل این جی صرف ڈیمانڈ پر منگوائی جاتی ہے۔
پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے کہا کہ اگر ضرورت تھی تو نئے ٹرمینلز کیوں نہیں لگائے گئے، بروقت ایل این جی کیوں نہیں خریدی گئی، بروقت فیصلے نہ لینے کی وجہ سے 122 ارب روپے کے نقصانات کی بات ہو رہی ہے۔
کمیٹی کی رکن منزہ حسن نے کہا کہ اصل مسئلہ پالیسی سازی کا فقدان اور بروقت طلب و رسد کا تعین نہ ہونا ہے۔ سردار ایازصادق نے کہا کہ کہ قطر گیس کے ساتھ پے اینڈ ٹیک کا معاہد ہ ہے، 60 فیصد گیس کی خریدار آئی پی پیز ہیں جن کے ساتھ فروخت کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہے اور معاہدہ اس لئے نہیں کیا جاتا کیونکہ جو بھی ایسا کرے گا نیب اسے پکڑے گی، اب کتنے لوگوں کا کمیشن بٹھائیں گے؟ یہ معاملات کابینہ میں جانے چاہئیں۔
سیکرٹری پٹرولیم نے کہا کہ گیس کی خریداری پیپرا قوانین کے تحت کی جاتی ہے، مینوفیکچررز کے علاوہ کچھ ٹریڈنگ کمپنیاں بھی ہیں جن سے گیس خریدی جاتی ہے، 2022ء تک 66 فیصد آر ایل این جی کی کھپت پاور پلانٹس میں ہو گی، اس کے بعد یہ معاہدہ ختم ہو جائے گی، آر ایل این جی، سی این جی سیکٹر اور بعض دیگر مراعات یافتہ صنعتوں کو بھی دی جاتی ہے، اوگرا نے دو نئے ٹرمینلز کا لائسنس دینے کا فیصلہ کیا ہے، گیس کو برینٹ کے ساتھ منسلک کرنے کی بجائے گیس کے ساتھ ہی منسلک کرنا چاہیے تھا۔
کمیٹی کی رکن حنا ربانی کھر نے کہا کہ گیس خرید لی گئی مگر اس کی فروخت کا کوئی طریقہ کار نہیں بنایا گیا اور اس بات کا تعین بھی نہیں کیا گیا کہ سبسڈی کی رقم کون ادا کرے گا۔ سید نوید قمر نے سوال اٹھایا کہ ہماری آئل اینڈ گیس کمپنیاں کب تک سبسڈیز کا بوجھ برداشت کریں گی؟
مسلم لیگ ن کے مشاہد حسین سید نے کہا کہ کہیں فیصلہ سازی کے فقدان کی وجہ نیب کا خوف تو نہیں؟ اس پر سیکرٹری پٹرولیم نے کہا کہ آر ایل این جی کا بڑا صارف پاور سیکٹر ہے، اصل مسئلہ ایک چیز کی دو قیمتیں ہیں۔
کمیٹی کے سربراہ رانا تنویر حسین نے کہا کہ مسئلہ گیس کی سپلائی کا بھی ہے جس طرح قطر سے گیس خریدی گئی اسی طرح اس کی فروخت کا طریقہ کار بنایا جانا چاہیے تھا، اگر مہنگی گیس خرید کر گھریلو صارفین کو دی جائے گی تو لامحالہ سبسڈی بھی دینا پڑتی ہے۔
سیکرٹری پٹرولیم کا کہنا تھا کہ صرف سردیوں میں گھریلو صارفین کو آر ایل این جی دی جا تی ہے، اولین ترجیح گھریلو صارفین ہیں، ہمیں گیس کی سٹوریج کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔
رانا تنویر حسین نے کہا کہ انجام سے قطع نظر قوم کے مفاد میں فیصلے کرنے پڑتے ہیں، شاہد خاقان عباسی نے بھی اس وقت فیصلے کئے ، ملک عامر ڈوگر نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی نے غلط فیصلے کر کے ملک کو نقصان پہنچایا ہے جس پر رانا تنویر حسین نے کہا کہ ہمیں یہاں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے، ہمیں پارٹی وابستگی سے بالا تر ہو کر مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔
راجہ ریاض احمد نے کہا کہ اصل پالیسی سازوں کو بھی پی اے سی میں طلب کیا جائے۔ پی اے سی نے وزارت پٹرولیم کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ سازی کا فقدان نظر آ رہا ہے، مسائل کا عملی حل کرنے میں وزارت پٹرولیم ناکام رہی ہے۔
چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ آر ایل این جی ایک حساس معاملہ بن گیا ہے، اگر ضرورت پڑی تو معاون خصوصی ندیم بابر کو بھی بلائیں گے۔ مزید کس کس کو بلانا ہے اس کا فیصلہ ارکان سے مشاورت کرکے دوبارہ وزارت پٹرولیم کو پی اے سی میں بلایا جائے گا۔