واشنگٹن: امریکہ میں صدر ٹرمپ کے حامی بدھ کے روز نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کی الیکٹورل کالج میں فتح کی باقاعدہ تصدیق کے لیے منعقدہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے دوران ایوان میں گھس گئے اور توڑ پھوڑ کی جس کے بعد صورت حال پر قابو پانے کے لیے فوج طلب کر لی گئی اور واشنگٹن ڈی سی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہائوس کے قریب نکالی جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
امریکی کانگرس اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس نائب صدر مائیک پینس کی سربراہی میں جاری تھا کہ ٹرمپ کے حامیوں کی ریلی کے بعد نیلے پرچم اٹھائے ایک ہجوم نے کیپٹل ہل کے باہر رکاوٹیں توڑ دیں اور عمارت کے اندر داخل ہو گئے۔ اس دوران ٹرمپ کا ایک حامی سینیٹ میں ڈائس پر چڑھ گیا اور ٹرمپ کی جیت کا دعوی کیا۔
واقعے کے دوران سینیٹ اور ایوان نمائندگان کا مشترکہ اجلاس کچھ وقت کے لیے معطل کیا گیا، پولیس نے ارکان کانگریس کو باہر نکالنے کے دوران مظاہرین پر شیلنگ کی، پرتشدد مظاہرے کے دوران ایک خاتون اور تین دیگر افراد کی ہلاکت اور 52 افراد کو گرفتار کرنے کی تصدیق کی گئی ہے۔
سکیورٹی فورسز نے ایوانِ نمائندگان کو ٹرمپ کے حامی احتجاجی مظاہرین سے خالی کرا دیا لیکن واشنگٹن میں حالات کو قابو میں کرنے کے لیے کرفیو نافذ کرنا پڑا جب کہ شہر بھر میں ایمرجنسی میں 15 روز کی توسیع بھی کر دی گئی ہے۔
جوبائیڈن، کملا ہیرس کی فتح کی توثیق
ادھر امریکی کانگریس نے الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی حتمی گنتی کے بعد نومبر 2020ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج کی توثیق کر دی ہے جس کے بعد جو بائیڈن اور کملا ہیرس اس انتخاب کے فاتح قرار پائے ہیں۔
دونوں 20 جنوری 2021ء کو بالترتیب امریکی صدر اور نائب صدر کے عہدوں کا حلف اٹھائیں گے۔ ان کی کامیابی کا اعلان موجودہ امریکی نائب صدر مائیک پینس نے کیا جو اپنے عہدے کے اعتبار سے امریکی سینیٹ کے سربراہ بھی ہیں۔
اقوام متحدہ کی مذمت
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش اور جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکیر نے بھی امریکی پارلیمنٹ کی عمارت کیپٹل ہل پر پُرتشدد حملے کی مذمت کرتے ہوئے گہری تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق سیکرٹری جنرل کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے جاری بیان میں کہا کہ اقوام متحدہ کے سربراہ نے واشنگٹن ڈی سی میں پارلیمنٹ کی عمارت پر حملہ افسوس کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں یہ بہت ضروری ہے کہ سیاسی رہنما اپنے حامیوں کو تشدد سے باز رہنے، جمہوری عمل اور قانون کی حکمرانی کا احترام کرنے کی ضرورت پر زور دیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکیر نے اپنے ٹویٹ میں امریکی پارلیمنٹ پر پرتشدد حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں واشنگٹن ڈی سی میں تشدد اور امریکہ میں جمہوری عمل میں رکاوٹ پر گہری تشویش ہے۔
جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکیر کے دفتر نے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ امریکہ دنیا کی بڑے جمہوریتو ں میں سے ایک ہے اور انہیں یقین ہے کہ اس مشکل گھڑی میں امریکہ میں امن اور جمہوری عمل کے احترام کو بحال رکھا جائے گا۔
نیٹو کا ردعمل
شمالی بحر اوقیانوس کے ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو کے جنرل سیکرٹری جینزسٹولن برگ نے امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں پارلیمنٹ کی عمارت کیپٹل ہل پر ٹرمپ کے حامیوں کے پُرتشدد حملے کو حیران کن قرار دے دیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق جینزسٹولن برگ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ واشنگٹن کے حیرت انگیز مناظر ہیں اور امریکہ کے جمہوری انتخابات کے نتائج کا احترام لازماََ کیا جانا چاہیے۔
ٹرمپ کے سوشل میڈیا اکائونٹس کیخلاف کارروائی
فیس بک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا عہدہ صدارت ختم ہونے تک انہیں اپنے سوشل میڈیا ایپس پر بلاک کر دیا ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ فیس بک کی جانب سے کسی امریکی صدر کے اکاؤنٹ کے خلاف اس قسم کی کارروائی کی گئی۔
یہ اعلان فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے 7 جنوری کو ایک پوسٹ کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کمپنی کا ماننا ہے کہ صدر کو اس کے عہدے کی مدت مکمل ہونے تک ہماری سروسز کے استعمال جاری رکھنے کی اجازت دینا بہت زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔
اسی طرح ٹویٹر نے بھی ٹرمپ کا اکائونٹ 12 گھنٹوں کے لیے بلاک کرتے ہوئے کہا کہ اگر ٹویٹ نہ ہٹائے گئے تو ٹرمپ کا اکاؤنٹ بلاک رکھا جائے گا تاکہ وہ مزید ٹویٹس نہ کر پائیں تاہم 12 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی ٹرمپ کی جانب سے ٹویٹ نہیں کیا گیا۔
یوٹیوب کو بھی ٹرمپ کی اشتعال انگیز ویڈیو ہٹانا پڑی جس میں وہ مسلسل یہ الزام لگا رہے تھے کہ صدارتی الیکشن چوری کیا گیا اور اس کے ساتھ وہ اپنے حامی مظاہرین کو گھر لوٹ جانے کی تلقین بھی کر رہے تھے، تاہم یوٹیوب کی جانب سے ٹرمپ کے اکاؤنٹ کے خلاف مزید کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
فیس بک کی ملکیتی کمپنی انسٹاگرام کے سربراہ (Adam Mosseri) نے ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ امریکی صدر کے اکاؤنٹ سے ایسی ہی ایک ویڈیو انسٹاگرام نے بھی ہٹا کر ٹرمپ کا اکاؤنٹ 24 گھنٹوں کے لیے بند کر دیا ہے۔
ٹیک کمپنیاں بھی امریکی الیکشن سے متعلق اپنے پلیٹ فارمز پر غلط معلومات پھیلانے سے متعلق دباؤ میں ہیں، صارفین کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ٹرمپ کا اکاؤنٹ منسوخ کرنے کے لیے ہزاروں فون کالز بھی کی گئیں۔