اسلام آباد: ملک میں گاڑیوں کی طلب کو پورا کرنے کے لیے آٹوموٹو فورمز پیداواری صلاحیت بڑھانے میں مکمل طور پر ناکام، وفاقی کابینہ نے وزارتِ صنعت و پیداوار کو آٹوموٹو کمپنیوں کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کا حکم دے دیا۔
پرافٹ اردو کو معلوم ہوا ہے کہ ملک میں آٹوموٹو کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت میں کمی کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ اور گاڑیوں کی طلب میں اضافہ سے بحران پیدا ہو گیا ہے، یہ گھمبیر صورتحال آٹوموٹو مارکیٹ میں بلیک مارکیٹنگ کا سبب بن رہی ہے، آٹوموٹو کمپنیاں پریمیم یا ‘آن منی’ کے نام پر صارفین سے دونوں ہاتھوں پیسے بٹور رہی ہیں۔
ذرائع نے پرافٹ اردو پر اعتماد کرتے ہوئے بتایا کہ (منگل) کے روز کابینہ کے ایک اجلاس میں گاڑیوں کی طلب میں اضافے کے باوجود مقامی سطح پر تیار کردہ گاڑیوں کے پیداواری بحران کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے وزیرصنعت و پیداوار حماد اظہر کو معاملے میں تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہونڈا، ٹیوٹا اور سوزوکی سمیت بڑی آٹو کمپنیاں ملک میں گزشتہ 30 سے 40 سال سے کاروبار چلا رہی ہیں، کابینہ ارکان نے طلب میں اضافہ ہونے کے باوجود پیداواری صلاحیت نہ بڑھانے کے باعث ان کمپنیوں کے خلاف تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ آٹو پالیسی کے مطابق جاپانی کمپنیاں گاڑیوں کے پرزہ جات کو مقامی سطح پر تیار کرنے میں ناکام ہو گئی تھیں اور ابھی تک کئی پرزہ جات جاپان سے ہی درآمد کیے جارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
پاکستان میں تیار کردہ برقی گاڑیوں پر کتنا ٹیکس لگے گا؟
قائمہ کمیٹی کی جانب سے آٹو موبائل پالیسی سے متعلق وزارت کی بریفنگ غیرتسلی بخش قرار
پاکستان میں برقی کاروں، بسوں کی مینوفیکچرنگ کیلئے حکومت کا بڑا فیصلہ
آٹوموبائل آلات کے شعبہ میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں 20 فیصد اضافہ
تاہم، آٹو کمپنی کے ایک عہدیدار نے نمائندہ پرافٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آٹو کمپنیاں کئی سالوں سے حکومت کو کچھ عرصے کے لیے پریمیم کے کلچر کی حوصلہ شکنی کرنے اور نئی گاڑیوں کی ری سیل پر ٹیکسز لاگو کرنے کی تجویز دے رہی ہیں۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ مختلف پرزہ جات کے لیے مینوفیکچرنگ پلانٹس لگانے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے یہ سرمایہ کاری طویل مدتی پالیسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مارکیٹ میں سپیس کے مطابق کی جا سکتی ہے۔ “بدقسمتی سے ملک میں پالیسیاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں جو سرمایہ کاروں کی جانب سے بڑی سرمایہ کاری کے لیے ایک بنیادی رسک ہے”۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انجنئیرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) کے حکام کابینہ کی ان ہدایات سے متعلق لاعلم تھے۔ بار بار کوششوں کے باوجود سیکرٹری انڈسٹریز نے اس مسئلے پر آگاہ کرنے کے لیے فون نہیں اٹھایا۔
مزید برآں، ذرائع نے بتایا کہ حکومت کے بیرونِ ملک سے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر سخت شرائط لاگو کرنے کے بعد ملک میں گاڑیوں کی طلب میں اضافہ ہوا۔ “بیگیج سسٹم کے ذریعے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر پابندیوں سے گاڑیوں کی درآمدات تقریباََ ختم ہو گئی ہیں”۔
انڈس موٹرز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) علی اصغر جمالی سے جب اس بابت رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ کسی بھی قسم کی تحقیقات کے لیے تیار ہیں۔ “اگرچہ میں کسی بھی ڈویلپمنٹ سے متعلق آگاہ نہیں ہوں، ہم نے کچھ بھی نہیں چھپایا اس لیے ہم تحقیقات کا خیرمقدم کرتے ہیں”۔
انہوں نے کہا کہ “میں نے وزیراعظم سے 90 روز کے اندر ‘آن منی’ کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے نئی گاڑیوں کی ری سیل پر ٹیکس لاگو کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس حوالے سے امید ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ پریمیم کے مسائل کو حل کرے گا”۔