اسلام آباد: اربوں ڈالر کے دیامیربھاشا ڈیم منصوبے کی زمین کے حوالے سے گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے دو قبائل کے مابین دیرینہ تنازع کے حل کیلئے بالآخر 20 رکنی جرگہ تشکیل دے دیا گیا۔
چوںکہ دیامیر بھاشا ڈیم پر تعمیراتی کام جاری ہے اس لیے زمین کا تنازع منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق کمشنر دیامیر کے دفتر میں تنازع کے فریقین کوہستان سے تعلق رکھنے والے ہربان قبیلے اور دیامیر کے تھور قبیلے کے بڑوں کا ایک اکٹھ ہوا جہاں اس بات پراتفاق کیا گیا کہ زمین کے تنازع کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کیلئے ایک اعلیٰ سطح جرگہ تشکیل دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیے:
زمین کا تنازعہ دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے آڑے آنے لگا
سندھ میں نئی گج ڈیم کی تعمیر کیلئے 46 ارب کی منظوری
آبی ذخائر میں اضافے کیلئے 60 نئے ڈیم کی تعمیر کیے جائیں گے
راول ڈیم میں مضر صحت مواد، سپریم کورٹ نے رپورٹ طلب کرلی
حکومت نے دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے 32 ہزار 139 ایکڑ زمین حاصل کر لی
جرگے میں دونوں قبائل کے نمائندوں کے علاوہ گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے سرکاری حکام بھی شامل ہیں جبکہ دیامیر اور کوہستان کی ضلعی انتظامیہ اور واپڈٓ حکام جرگے کی معاونت کریں گے۔
ذرائع کے مطابق جرگہ کے ارکان تاریخی دستاویزات کی روشنی میں خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے اُن علاقوں کی حدود کا تعین کریں گے جہاں ڈیم بنایا جا رہا ہے۔
گلگت بلتستان کے ضلع دیامیر اور خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کے اُس علاقے، جہاں ڈیم بن رہا ہے، کے رہائشیوں کے مابین حدبندی کا تنازع وقت کے ساتھ مزید گہرا ہو چکا ہے اور فریقین اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
گاندلو نالہ کے علاقہ میں، جہاں دیامیر بھاشا ڈیم کا پاور پلانٹ لگایا جانا ہے، کم و بیش آٹھ کلومیٹر کے علاقہ پر دونوں اضلاع کے قبائل اپنا اپنا دعویٰ کرتے چلے آ رہے ہیں، 2014ء میں تنازع پُرتشدد صورت اختیار کر گیا تھا اور فریقین کے مابین تصادم میں کم از کم سات افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
اگرچہ ماضی میں بھی تنازع کے حل کیلئے یک شخصی کمیشن بنایا گیا تھا لیکن فریقین نے کمیشن کی سفارشات کو مسترد کر دیا تھا جس کے بعد گلگت بلتستان کی حکومت نے وفاقی حکومت سے ایک گرینڈ جرگہ تشکیل دینے کی درخواست کی تھی تاکہ تنازع کا پرامن حل نکالا جا سکے۔
اس کے علاوہ خیبرپختونخوا اسمبلی نے متنازع آٹھ کلومیٹر زمین کو صوبے کا حصہ قرار دینے کی قرارداد بھی پاس کی تھی جس پر گلگت بلتستان کے سیاسی رہنمائوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا اور تحقیقات کیلئے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی تھی۔
پارلیمانی کمیٹی نے اُن پرانی اور تاریخی دستاویزات کو کنگھال نکالا جن پر 1947ء میں دستخط کیے گئے تھے اور مذکورہ متنازع علاقہ کو دیامیر کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔
سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جب دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے فنڈز اکٹھے کرنے کی مہم شروع کی تو انہوں نے بھی ڈیم کی زمین کے تنازع کا نوٹس لیا اور حکمران جماعت کو ہدایت کی تھی کہ معاملہ عدالت سے باہر خوش اسلوبی سے حل کیا جائے۔
چونکہ ڈیم کی کچھ ٹربائنز گلگت بلتستان میں جبکہ باقی خیبرپختونخوا کی زمین پر لگائی جائیں گی اس لیے آئینی پابندیوں کے باعث رائلٹی کی رقم کے حوالے سے مسائل اٹھ کھڑے ہوئے۔