اسلام آباد: پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے ریفنڈز کے معاملات کی شفافیت پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے آڈیٹر جنرل کو حکم دیا ہے کہ ایف بی آر کے ایک سال کے ریفنڈز کا ایک ماہ میں خصوصی آڈٹ کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔
کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ ہائوس میں پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر حسین کی زیر صدارت ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان مشاہد حسین سید، خواجہ محمد آصف، سید حسین طارق، سینیٹر سیمی ایزدی، سید نوید قمر، نور عالم خان، حنا ربانی کھر، منزہ حسن، شیخ روحیل اصغر اور ریاض فتیانہ سمیت دیگر ارکان اور متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شر کت کی۔
یہ بھی پڑھیے:
ایف بی آر کا ملک گیر آپریشن، کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری پکڑی گئی
ایف بی آر کا آمدن چھپانے والے ٹیکس دہندگان کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
ایف بی آر کا پہلی کیٹیگری کے ریٹیلرز سے خریداری پر پانچ فیصد کیش بیک کا اعلان
اجلاس میں وزارت داخلہ اور ایف بی آر کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا، وزارت داخلہ کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے چیئرمین پی اے سی رانا تنویر نے ہدایت کی کہ نادرا کی جانب سے اسلحہ لائسنس فیس کے حوالہ سے سرکاری مالیاتی نظم و نسق کی پابندی کی جائے، وزارت خزانہ سے منظوری لیں، بصورت دیگر اسلحہ لائسنس فیس کی وصولی بند کی جائے۔
نادرا کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ وصولیاں 2010ء میں وزیراعظم کی منظوری سے شروع کی گئیں، پی اے سی کے ارکان کا خیال تھا کہ پہلے جو وصولیاں کی جا چکی ہیں وزارت خزانہ سے ان کی بھی موثر بہ ماضی منظوری حاصل کی جائے۔
پی اے سی نے ہدایت کی کہ ایک ہفتہ کے اندر یہ مسئلہ حل کیا جائے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ چھ ہزار لائسنس فیس کے ساتھ 1500 روپے وصولی چارجز بھی لیے گئے۔
اس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر نادرا نے اپنا کوئی سافٹ ویئر بنایا ہے تو اپنے پیسوں سے بنائے، لوگوں سے اضافی رقم وصول نہ کریں یا پھر اسلحہ لائسنس کی فیس چھ ہزار سے بڑھا کر ساڑھے سات ہزار کر دیں مگر طریقہ کار قانونی ہونا چاہیے۔
آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ یکم فروری 2018ء کو ایف آئی اے نے برطانیہ میں لاء فرم کی خدمات وزارت قانون و انصاف کی منظوری کے بغیر حاصل کیں۔ اس ضمن میں ہوائی ٹکٹ بھی دیئے گئے۔
اس پر سیکرٹری داخلہ نے جواب دیا کہ مذکورہ فرم کی خدمات ایم کیو ایم لندن کے قائد الطاف حسین سے عمران فاروق قتل کیس کی تحقیقات کے لئے حاصل کی گئیں، اہم اور حساس معاملہ ہونے کی وجہ سے تمام اقدامات ہنگامی بنیادوں پر کئے گئے، اس کی رقم کی اقتصادی رابطہ کمیٹی سے بھی موثر بہ ماضی منظوری لی جا رہی ہے۔
وزارت قانون و انصاف کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ کیس ہمارے پاس آیا تھا، ہم نے کہا تھا کہ اس کی اٹارنی جنرل سے منظوری حاصل کی جائے۔
اس پر چیئرمین پی اے سی رانا تنویر حسین نے کہا کہ معاملے کا ای سی سی کی طرف سے منظوری کا انتظار کر لیتے ہیں۔ پی اے سی نے سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کو ہدایت کی کہ اس مسئلہ کو ترجیحی بنیاوں پر حل کیا جائے۔
ملتان میں جعلی ریفنڈ حاصل کرنے والی ایک کمیٹی کے معاملے کے جائزے کے دوران پی اے سی کو بتایا گیا کہ چیئرمین ایف بی آر اپنی بعض مصروفیات کی وجہ سے نہیں آ سکے جس پر چیئرمین پی اے سی نے برہمی کا اظہار کیا اور آڈیٹر جنرل کو ہدایت کی کہ ایف بی آر کے ایک سال کے ریفنڈ کیسز کا خصوصی آڈٹ ایک ماہ میں کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ریفنڈز کے معاملات پر ایکسپورٹرز شدید مشکلات کا شکار ہیں، چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ایکسپورٹرز کمیشن دے کر ایف بی آر سے ریفنڈز حاصل کرتے ہیں جس سے ان کے کاروبار شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔