بھارت، مودی حکومت پر دبائو بڑھانے کیلئے احتجاجی کسانوں کی بھوک ہڑتال

1082

نئی دہلی: بھارت میں مودی سرکار کے نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا ملک گیر احتجاج جاری ہے، دارالحکومت نئی دہلی کو پنجاب سے آئے ہوئے سکھوں سمیت کئی ریاستوں سے آنے والے ہزاروں کسانوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔

منگل کو عالمی ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ کئی ہفتوں سے دھرنے پر بیٹھے کسانوں کی وجہ سے دہلی اور ملک کی کئی ریاستوں میں معمول کی سرگرمیاں مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔

زرعی اصلاحات قوانین کیخلاف کسان تنظیموں نے تحریک تیز کر دی ہے اور بھارتی حکومت پر دبائو بڑھانے کے لئے بھوک ہڑتال پر چلے گئے ہیں، یہ ہڑتال دارالحکومت میں غازی پور، ٹکری، سندھو بارڈر اور دیگر کئی مقامات پر جاری رہی، کئی ضلعی ہیڈ کوارٹرز پر کسانوں نے بھوک ہڑتال کی اور مظاہرہ کیا۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ اُس وقت تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں کئے جاتے، پولیس اور انتظامیہ نے رکاوٹیں کھڑی کرکے کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے لیکن کسانوں نے بھی دہلی کا دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع کر دیا ہے۔

اس دوران دہلی کے مضافات میں کئی جگہوں پر کسانوں اور پولیس کے مابین تصادم بھی ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے کسانوں کے خلاف ریاست ہریانہ کی دارالحکومت دہلی سے ملحقہ سرحد پر واٹر کینن اور آنسو گیس کے گولے استعمال کیے۔

اس کے باوجود کسانوں کی تحریک مسلسل پھیل رہی ہے اور اس میں پنجاب، ہریانہ، راجستھان، اترپردیش اور دیگر ریاستوں کے کسان بھی ہزاروں کی تعداد میں شامل ہو رہے ہیں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ نے حال ہی میں زراعت کے متعلق تین نئے قانون پاس کئے تھے۔ ان قوانین کی ملک بھر میں کسان تنظیمیں مخالفت کر رہی ہیں۔

بھارتی حکومت نے کسانوں کے مظاہرے کو غیرسیاسی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون کسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے بنایا گیا ہے۔

لیکن بھارت کی حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے لئے موت کا پروانہ ثابت ہوں گے، کسان تنظیموں کا بھی کہنا ہے کہ قوانین غیرمنصفانہ ہیں اور ان سے کسانوں کا استحصال ہو گا۔

ادھر دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کسان تنظیموں کی حمایت جاری رکھے گی۔

بھارت کے کسانوں نے دارالحکومت دہلی میں ایک طویل عرصہ کے بعد اس طرح کا سخت احتجاج کیا ہے، کسانوں کا مطالبہ ہے کہ نافذ کردہ زرعی قانون کو واپس لیا جائے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here