ایسا کیوں ہے کہ جب بھی کوئی یورپ سے خریدے گئے ملبوسات کا ٹیگ دیکھتا ہے تو ہمیشہ یہ ہی کہتا ہے کہ ‘میڈ اِن بنگلہ دیش’؟ پورے یورپ کے بڑے فیشن برانڈز جیسا کہ زارا (سپین کا ملبوسات کا مشہور برانڈ) اپنے کپڑے بنگلہ دیش سے ہی تیار کرواتے ہیں۔
اس کی ایک خاص وجہ ہے اور وہ صرف سستی افرادی قوت اور اچھی کپاس کی پیداوار ہی نہیں ہے، تکنیکی طور پر جائزہ لیا جائے تو بنگلہ دیش 1995ء سے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ساتھ منسلک ہوا ہے مگر 2001ء میں اس نے اپنی قسمت بدل دینے والا فیصلہ کیا، اس سال بنگلہ دیش نے یورپی یونین کے ساتھ ‘ای یو- بنگلہ دیش کوآپریشن ایگری منٹ’ پر دستخط کیے۔
اس معاہدے کے تحت بنگلہ دیش نے تجارتی و معاشی ترقی، انسانی حقوق، اچھی طرز حکمرانی اور ماحولیات سے متعلق یورپ کا وسیع تعاون حاصل کر لیا۔
مذکورہ معاہدے کی صورت میں بنگلہ دیش کو جو اصل فوائد حاصل ہوئے وہ بلاشبہ تجارت کے حوالے سے ہی تھے، اس معاہدے کے تحت بنگلہ دیش کو جی ایس پی (گلوبلائزڈ سکیم آف پریفرینسز) سٹیٹس مل گیا جس کی وجہ سے اسے یورپی مارکیٹوں تک ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہو گئی، جی ایس پی سٹیٹس کا مقصد پسماندہ ممالک کو تجارت کے ذریعے ترقی حاصل کرنے میں مدد دینا ہے اور اس کے تحت بنگلہ دیش کو دیگر ترقی پذیر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ رعاتیں میسر آئیں۔
یہ بھی پڑھیے:
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارتی حجم میں 36.66 فیصد کمی
تجارتی سہولیات فراہمی میں پاکستان کی پوزیشن بھارت، بنگلہ دیش سے بہتر
بنگلہ دیش کیلئے جی ایس پی سٹیٹس کافی مددگار ثابت ہوا، 2015ء میں اس کی مجموعی تجارت میں سے 24 فیصد یورپی یونین کے ساتھ تھی جبکہ 2015ء میں یورپ 90 فیصد ٹیکسٹائل مصنوعات اور ملبوسات بنگلہ دیش سے درآمد کرتا تھا۔
مزید متاثر کن امر یہ ہے کہ 2008ء سے 2015ء کے درمیان یورپ کی بنگلہ دیش سے درآمدات کا حجم پانچ ارب 46 کروڑ 40 لاکھ یورو سے بڑھ کر 15 ارب 14 کروڑ 50 لاکھ یورو تک پہنچ گیا اور یہ بنگلہ دیش کی مجموعی برآمدات کے نصف کے برابر تھا۔
جرابیں بنانے والی ایک بڑی پاکستانی کمپنی انٹرلوپ نے اس صورت حال کا جائزہ لیا، یہ کمپنی پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کی سب سے شاندار اور تیزی سے ترقی کرنے والی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔
اور ایسا کیوں ہے؟ آئیے ہم بتاتے ہیں۔
1992ء میں دو بھائیوں مصدق ذوالقرنین اور نوید فاضل نے اپنے ایک دوست طارق اقبال کے ساتھ مل کر فیصل آباد میں ہوزری مصنوعات تیار کرنے والا کارخانہ لگایا، ذوالقرنین اس وقت انجنئیر تھے اور سوئی ناردرن گیس کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے جبکہ نوید فاضل برطانیہ کی آکسفرڈ یونیورسٹی سے گریجوایشن کرنے کے بعد کسی ملازمت کی تلاش میں تھے۔
یہی وہ وقت تھا جب دونوں بھائیوں کے دوست طارق اقبال نے انہیں ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ میں ایک نئی ٹیکنالوجی کے بارے میں بتایا اور مشورہ دیا کہ اسے پاکستان لا کر ہاؤزری کا کارخانہ قائم کیا جا سکتا ہے۔
اس طرح کچھ کمرشل پراپرٹی کی فروخت کے بعد انٹر لوپ قائم کی گئی (یہ نام سُوت کو جوڑنے سے ماخذ ہے) اس کمپنی کی ابتداء ساڑھے 93 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری سے ہوئی، ابتدائی طور پر اٹلی سے درآمد شدہ دس کمپیوٹرائزڈ کنٹنگ مشینوں کے ساتھ کام شروع کیا گیا۔
انٹرلوپ کے اٹلی سے روابط کارآمد ثابت ہوئے، نوے کی دہائی میں جس اطالوی کمپنی سے انٹرلوپ نے مینوفیکچرنگ مشینیں خریدی تھیں اس کے ایجنٹس پاکستان میں بھی کام کر رہے تھے جو ناصرف اطالوی کمپنی کی مشینوں کی مارکیٹنگ کرتے تھے بلکہ وہ مشینیں خریدنے والی کمپنیوں کو گاہک لا کر دینے کے بھی ذمہ دار تھے۔
یہ بھی پڑھیے:
’1990ء کے بعد پہلی بار فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری مکمل بحال‘
فیصل آباد، صنعتی سرگرمیاں تیز، ٹیکسٹائل انڈسٹری میں اڑھائی لاکھ ملازمین کی کمی
انہی ایجنٹس کے ذریعے مصدق ایک فرانسیسی گاہک سے متعارف ہوئے، اس گاہک نے انٹر لوپ کو دو مزید گاہک فراہم کیے جن میں سے ایک کا تعلق فرانس اور دوسرے کا کوریا سے تھا۔
آج انٹرلوپ کے پاس پانچ ہزار سے زائد knitting مشینیں ہیں، ملازمین کی تعداد 15 ہزار ہے اور کمپنی کا نیٹ ورک تین براعظموں تک پھیلا ہوا ہے، اس کے کلائنٹس میں کھیلوں کھلاڑیوں کے ملبوسات بنانے والے دنیا کے بڑے برانڈز نائیکی، ری بوک، ایڈی ڈاز اور پوما شامل ہیں جبکہ ایچ اینڈ ایم، ٹارگٹ، یونیکلو (Uniqlo) اور لیویز بھی انٹرلوپ کے کلائنٹس ہیں۔
مارچ 2019ء میں انٹرلوپ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں 12.5 فیصد حصص کی لسٹنگ کے ساتھ پہلی عوامی پیشکش (آئی پی او) کی جس کے نتیجے میں کمپنی نے 5.02 ارب روپے کمائے جو ملک میں نجی شعبے کی جانب سے سب سے بڑی ابتدائی عوامی پیشکش (آئی پی او) تھی۔
کمپنی کی ایک حالیہ سالانہ رپورٹ کے مطابق 2019ء میں اس کا بعد از ٹیکس منافع ایک ارب 79 کروڑ 60 لاکھ روپے تھا جو گزشتہ برس کے پانچ ارب 19 کروڑ 50 لاکھ روپے سے بہت کم ہے، اس کی بڑی وجہ رواں سال کورونا وائرس کے منفی اثرات ہیں۔
مگر بنگلہ دیش میں انٹرلوپ کی دلچسپی کیسے پیدا ہوئی؟ دراصل پہلے اس کمپنی نے یورپی یونین میں قدم جمانے کیلئے دلچسپی لی، 2009ء میں اس نے یورپ میں اپنے کلائنٹس کو مارکیٹنگ انٹیلی جنس، ڈیزائن، سیلز اور ڈسٹری بیوشن سروسز کی فراہمی کے لیے نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والی فرم یورو سوکس پلس (Eurosox Plus) کے ساتھ اشتراک کیا ۔
اس توسیع کا یہ فطری نتیجہ نکلا اخذ کیا گیا کہ یورپ کے ساتھ کس کے تعلقات زیادہ بہتر ہیں، اسی موقع پر ہی انٹرلوپ بنگلہ دیش میں داخل ہو گئی اور 2010ء میں وہاں آئی ایل بنگلہ لمیٹڈ (IL Bangla Ltd) کے نام سے ایک ہوزری پلانٹ قائم کر دیا جہاں ماہانہ جرابوں کے 30 لاکھ جوڑے بنائے جاتے تھے۔
اس کے ساتھ ہی انٹرلوپ بنگلہ دیش میں اپنا سیٹ اَپ لگانے والی پہلی پاکستانی گارمنٹس کمپنی بھی بن گئی جس کا مقصد بنگلہ دیش کو یورپی یونین کی جانب سے ملنے والی ٹیرف فری رسائی سے فائدہ اُٹھانا تھا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے یورپی یونین سے جی ایس پی پلس رسائی کے لیے کوشاں رہی ہے مگر اسے کامیابی نہیں مل سکی۔ اس کی ایک وجہ یورپی یونین کی جانب سے ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے قوانین میں بہتری اور سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
مصدق ذوالقرنین جرابیں بیچ کر ارب پتی کیسے بن گئے؟
چین، بھارت کے بجائے بڑے عالمی برانڈز پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا رُخ کیوں کر رہے ہیں؟
زرداری دور میں 2008ء سے 2013ء تک سزائے موت پرعمل درآمد معطل رہا مگر اس قانون کو ختم نہیں کیا گیا، اس پر یورپی یونین نے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دینے پر غور شروع کر دیا مگر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان نے دوبارہ سے مجرمان کو پھانسیاں دینا شروع کیں تو یورپی یونین نے اپنی پیشکش واپس لے لی۔
18 نومبر 2020ء کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو بھیجے جانے والے ایک نوٹس میں انٹرلوپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں اپنے آپریشنز سے علیحدگی اختیار کر رہی ہے۔ دراصل کمپنی نے بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کے نتیجے میں جن جادوئی فوائد کی اُمید لگا رکھی تھی وہ اسے حاصل نہیں ہو سکے۔
پاکستان سٹاک ایکسچینج کو بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ”بنگلہ دیش میں مارکیٹ کی صورت حال قدرے ناموافق ہے اور انٹرلوپ کا یونٹ کچھ عرصہ سے خسارے میں چل رہا ہے جس کی وجہ سے کمپنی کے لیے اپنی سرمایہ کاری نکال لینا ضروری ہو گیا ہے تاکہ اسے کسی اور منافع بخش کام میں لگایا جا سکے۔”
اس وقت انٹرلوپ آئی ایل بنگلہ لمیٹڈ کے 31.6 فیصد حصص کی مالک ہے اور اس کا بنگلہ دیش سے انخلاء اور اثاثوں کی فروخت وہاں کے قوانین کے مطابق ہو گی۔
ہوا یہ کہ اپنے ٹریک ریکارڈ اور بنگلہ دیش کی مارکیٹ سے وابستہ بلند اُمیدوں کے باوجود انٹرلوپ فوائد سمیٹنے میں ناکام رہی، اس لیے اب مزید ‘میڈ ان بنگلہ دیش’ جرابیں دیکھنے کو نہیں ملیں گی بلکہ ان کے بجائے ‘میڈ اِن پاکستان’ جرابیں مارکیٹ میں دستیاب ہوں گی، گو کہ پاکستان میں ٹیکسٹائل اور ہوزری کی صنعت پر ٹیکس اور ڈیوٹیز زیادہ ہیں۔