واشنگٹن ڈی سی میں پاک امریکا تعلقات پر نظر رکھنے والے افراد کے محدود حلقے میں گزشتہ ڈیڑھ برس سے یہ خیال عام ہے کہ اگر امریکا واقعی پاکستان کی پالیسیاں اپنی خواہش کے مطابق بنانے پر مجبور کرنا چاہتا ہے تو اسے متحدہ عرب امارات کی حکومت کو پاکستان کی اشرافیہ کو ویزے جاری کرنے سے روکنا ہو گا۔
ایسا لگتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت میں بیٹھے کچھ افراد بھی ایسی ہی سوچ رکھتے ہیں کیونکہ ایک سفارتی تناؤ کے بعد یو اے ای نے پاکستان سمیت کئی ممالک کے شہریوں کو ویزے جاری نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے حالانکہ اس سفارتی تنازع کی درست وجوہات بھی معلوم نہیں۔
اس اعلان کے بعد متحدہ عرب امارات میں رہنے والے پاکستانی تو اپنے ویزوں کی تجدید کروا سکیں گے مگر کسی پاکستانی کو نیا ویزہ جاری نہیں کیا جائے گا، مزید یہ کہ اگر یو اے ای میں رہتے ہوئے کسی پاکستانی کا ویزہ ختم ہو جاتا ہے تو اسے فوراََ ملک چھوڑنا ہو گا، پاکستان واحد ایسا ملک ہے جس کے لیے وزٹ کے ساتھ ورک ویزے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی حکومت نے اس پالیسی کی وجہ نہیں بتائی اور پاکستان کے دفتر خارجہ کے بیانات سے بھی یہی تاثر ملتا ہے کہ اماراتی حکومت نے پاکستانی حکام کو نجی طور پر بھی اس بات سے آگاہ نہیں کیا کہ اس نے پاکستانیوں کی آمد پر پابندی کیوں لگائی ہے۔
اگرچہ یہ پرافٹ اردو کا دائرہ کار نہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا تجزیہ کیا جائے یا اس ضمن میں حکومت کو کوئی مشورہ دیا جائے لیکن پاکستان کے متحدہ عرب امارات سے تعلقات معاشی لحاظ سے بہت اہم ہیں لہٰذا اس حوالے سے بات کرنا اس ضروری ہے کہ کس طرح اسلام آباد اور ابوظہبی کے تعلقات میں بگاڑ سے پاکستانی معیشت کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری میں اضافہ
اہم بات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات پاکستان کے لیے ترسیلات زر کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے جو اس ضمن میں سعودی عرب (جہاں پاکستانی تارکین وطن کی تعداد یو اے ای سے دُگنی ہے) سے ذرا سا پیچھے اور امریکا، کینیڈا اور یورپی یونین کی مجموعی ترسیلات زر کے تقریباً برابر ہے، تجارتی لحاظ سے بھی چین کے بعد یو اے ای ہمارا دوسرا بڑا شراکت دار ہے اور تیل کی درآمد کا واحد بڑا ذریعہ ہے۔
مگر ترسیلات زر کے اعدادوشمار کافی دلچسپ ہیں، ہمارا دعویٰ ہے کہ متحدہ عرب امارات سے تکنیکی طور پر پاکستان منتقل ہونے والی زیادہ تر رقم درحقیقت پاکستان میں ہی کمائی گئی تھی اور اسے محض محفوظ بنانے کے لئے متحدہ عرب امارات منتقل کیا گیا تھا اور یہ محض سرمایہ کاری کے لیے پاکستان واپس آ رہی ہے۔
ظاہر ہے ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستانی، خاص طور پر اعلیٰ متوسط طبقہ اور دولت مند اشرافیہ، متحدہ عرب امارات میں پیسہ رکھنا اور لگانا چاہتے ہیں لیکن پرافٹ اردو اپنے تجزیے کے ذریعے یہ معلوم کرنے میں کامیاب رہا ہے کہ یو اے ای سے کتنا پیسہ واپس پاکستان آتا ہے۔
ان اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کا متحدہ عرب امارات پر انحصار تجارت اور ترسیلات زر سے بڑھ کر ہے، وہاں پاکستان کی بہت سی دولت پڑی ہے جو حالیہ سفارتی تنازع کے طول پکڑنے کی صورت میں پھنس سکتی ہے۔
مگر یہ اعدادوشمار پاکستانیوں اور خاص کر حکومت کے لیے متحدہ عرب امارات کے مالیاتی محفوظ جنت کے کردار کا ازسرنو جائزہ لینے کا ایک موقع بھی پیش کر رہے ہیں، اس مضمون میں ہم آگے چل کر اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کس طرح متحدہ عرب امارات پاکستانیوں کے لیے دولت چھپانے کی بظاہر دکھائی دینے سے بھی زیادہ کمزور اور غیرمحفوظ جگہ ہے، کوئی وجہ نہیں کہ دبئی میں رکھا گیا پیسہ کراچی، لاہور اور فیصل آباد میں نہیں رکھا جا سکتا۔
مختصر یہ کہ سفارتی بحران ایک دلچسپ نقطے کی جانب نشاندہی کرتا ہے، وہ یہ کہ اگر پاکستانی دبئی میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں کمی کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پاکستانی معیشت کی ترقی کی رفتار تیز کرنے کے لیے درکار سرمائے کی مقدار بڑھا سکتے ہیں۔
دوسری عرب سرد جنگ میں غیر جانبدار رہنے کی پاکستانی کوشش
یہ کافی حد تک واضح ہو چکا ہے کہ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے چھ میں سے پانچ ممالک کا بلاک، جس کی سربراہی متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کر رہے ہیں، تیل سے مالا مال خطے بلاد الشام (Levant) پر کنٹرول کے لیے مقابلے کا حصہ ہے، یہ علاقہ اب شام، لبنان، اردن، فلسطین، عراق اور اسرائیل پر مشتمل ہے۔ ان کی یہ کوششیں پہلے صرف ایران کے خلاف تھیں مگر اب ترکی بھی ان کا حریف بن گیا ہے، یہ منظرنامہ صرف بلاد الشام تک محدود نہیں بلکہ یمن میں خانہ جنگی کی وجہ بھی ہے۔
ہم عربوں کی اس سردجنگ کی تاریخی وجوہات اور جغرافیائی پیچیدگیوں کے حوالے سے بات نہیں کریں گے کیونکہ اس مضمون کے مصنف اس بارے میں بات کرنے لیے زیادہ مہارت نہیں رکھتے۔
یہ بھی پڑھیے: متحدہ عرب امارات، غیرملکی سرمایہ کاروں کو سو فیصد ملکیت کا حق
1952ء سے 1979ء تک جاری رہنے والی پہلی عرب سرد جنگ کے دوران پاکستان سعودی دھڑے کے ساتھ اور مصری صدر جمال ناصر کی سربراہی والے عرب قوم پرستوں کے دھڑے کے خلاف تھا، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول سعودی عرب اور کی آزادی کے بعد سے متحدہ عرب امارات کے ساتھ اتحاد ہے، یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے بھی اتحادی ہیں۔
درحقیقت پاکستان سعودی عرب کی طرف داری میں اس حد تک چلا گیا تھا کہ جب سعودی عرب سترکی دہائی میں اسرائیل اور عربوں کے تنازع کا حصہ بنا تو پاکستان نے 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو فوجی مدد فراہم کی اور شام میں گولان کی پہاڑیوں کے اوپر جنگی جہازوں کی ڈٓاگ فائٹ میں دو پاکستانی ہوا باز نشانہ بنے۔
یہی نہیں، جب 1970ء میں فلسطین تنظیم آزادی (پی ایل او) اردن حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بننے لگی تو یہ بریگیڈئیر ضیاء الحق (بعد میں صدر پاکستان) کی سربراہی میں جانے والے پاک فوج کے دستے ہی تھے جنہوں نے اردن کی حکومت کو پی ایل او کی بغاوت روکنے میں مدد کی۔
پاکستان کی طرف سے اس طرح کی غیرمتزلزل فوجی امداد ایک ایسا عنصر ہے جس کی توقع عرب حکومتوں نے کی تھی اور پاکستان کو معاشی مدد کی ضرورت پڑنے پر یہ قرض چکایا گیا۔
1998ء میں جب ایٹمی دھماکے کرنے پر امریکا اور یورپ نے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دی تھیں تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں نے پاکستان کو پچاس، پچاس کروڑ ڈالر کا اُدھار تیل دینے کے علاوہ ملک کے زرمبادلہ ذخائر میں اضافے کے لیے مالی امداد فراہم کی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستانی کمپنی انٹرلوپ بنگلہ دیش سے سرمایہ کاری کیوں نکال رہی ہے؟
جب تک معاملات پاکستان سے باہر رہے تب تک پاکستان کو سعودی عرب کی سربراہی والے عرب اتحاد کے ساتھ کام کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس کے عوض سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کی معاشی مدد کرتے رہے۔ مگر پھر 1979ء میں انقلاب ایران کے بعد بساط الٹ گئی اور حالات خراب ہونا شروع ہو گئے، عربوں کی سرد جنگ اب عرب ایران سرد جنگ بن گئی جس کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیے جانے لگے، پاکستان کے گلی کوچوں میں سعودی اور ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروہوں نے قتل و غارت گری شروع کر دی۔
2008ء میں زرداری حکومت نے فوجی قیادت کی رضامندی کے ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی کا فیصلہ کیا، یہ طے کیا گیا کہ پاکستان سعودی عرب کا اتحادی رہے گا تاہم سعودی عرب اور ایران کے معاملات کے حوالے سے غیرجانبدار رہے گا۔
اس تبدیل شدہ حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ناصرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کے اس فیصلے سے چونک گئے بلکہ پاکستان نے دونوں ممالک سے کسی قسم کی معاشی مدد لینا بھی بند کر دی کیونکہ ایسا کرنے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی تھی تاہم 2013ء میں نواز شریف حکومت نے غیرجانبدار خارجہ پالیسی کو جاری نہ رکھنے کی سنگین غلطی کر دی۔
2014ء میں نواز شریف حکومت نے پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر میں اضافے کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تین ارب ڈالر کی امداد مانگی، نتیجتاََ سعودی عرب نے یمن میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاز کے خلاف کارروائی کیلئے پاکستان سے فوج بھیجنے کی امید لگا لی مگر پاکستان کے پارلیمان نے بیگانی جنگ میں حصہ لینے اور مرنے کے لیے پاکستانی فوجی بھیجنے سے انکار کر دیا، یہیں سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں سنگین غلطیوں کے ایک دور کا آغاز ہوا۔
سعودی اور اماراتی معاشی امداد کی قیمت ادا کرنے کا وقت آیا اور اس امداد کے بدلے جب عسکری تعاون کا مطالبہ کیا گیا تو حکومت پاکستان کو اچانک غیرجانبدار پالیسی یاد آ گئی، سونے پر سہاگہ یہ کہ پاکستان نے ترکی اور ایران کے ساتھ پینگیں بڑھانا شروع کر دیں اور 2017ء میں سعودی اتحادیوں اور امریکا کی جانب سے قطر کی معاشی ناکہ بندی کے زمانے میں اُسے خوراک کی سپلائی شروع کر دی۔
ان اقدامات کو ریاض اور ابوظہبی میں کافی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا اور ظاہر ہے ان اقدامات کی پاکستان کو کسی نہ کسی دور میں قیمت تو ادا کرنا پڑے گی، مگر حالیہ سفارتی تنائو کے بارے میں واضح نہیں کہ کیا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات ناراض ہے، شائد اس کی وجہ وزیراعظم عمران خان کے وہ بیانات ہوں جن میں انہوں نے نام لیے بغیر کہا تھا کہ چند ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دبائو ڈال رہے ہیں۔
اس سے قطع نظر کہ یو اے ای اسرائیل والے معاملے کی وجہ سے ناراض ہے، اب پاکستانیوں کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ متحدہ عرب امارات رسائی کے لحاظ سے ان کے لئے پہلے کی طرح محفوظ نہیں۔
معاملہ صرف ترسیلات زر کا نہیں
بیرون ترسیلات زر کے پاکستان کی معیشت پر دور رس اثرات ہیں، متحدہ عرب امارات پر پاکستانیوں کا انحصار طویل عرصے سے ہے کیونکہ وہ اس ملک کو اثاثے رکھنے کیلئے ایک ’محفوظ جنت‘ تصور کرتے ہیں، چاہے ایسا ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کیا جائے یا ملکی قوانین سے بچنے کیلئے۔ اگر آپ اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں تو ایک لمحے کے نوٹس پر دبئی جا سکتے ہیں۔
اس تاثر کو یوں بھی تقویت ملتی ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں سے ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے، درحقیقت یہ اتنا سچا تاثر ہے کہ وباء سے پہلے ہفتے میں کراچی اور دبئی کے درمیان پروازوں کی تعداد کراچی اور لاہور سے زیادہ تھی، متحدہ عرب امارات کے ویزے کا حصول بھی آسان ہوتا جا رہا تھا، یہاں تک کہ اتحاد ائیرویز اور ایمریٹس کی ٹکٹ خریدنے پر آپ کو دبئی اور ابو ظہبی تک رسائی دے دی جاتی تھی۔
اس آسان رسائی اور کسی قدر کاروبار دوست قوانین نے امارات کو پاکستانیوں کیلئے اپنے ملک سے برآمدات کی آڑ میں پیسہ نکال کر یو اے ای کی ’محفوظ جنت‘ میں منتقل کرنے اور پھر وہاں سے دوبارہ ترسیلات زر کی صورت پاکستان منتقل کرنے کی سہولت بہم پہنچائی ہے۔
یہ سب کچھ یوں ہوتا ہے کہ کوئی برآمدکنندہ ملک سے اشیاء برآمد کرے گا مگر پاکستانی اداروں کو اس کی اصل قیمت فروخت کی درست معلومات فراہم نہیں کرے گا بلکہ اس کے بجائے متحدہ عرب امارات میں رجسٹرڈ کسی کمپنی کے ذریعے آدھی رقم وہاں وصول کر لے گا، ایسے میں جب خریدار انہیں ادائیگی کریں تو اس کا کچھ حصہ پاکستان واپس آئے گا اور کچھ متحدہ عرب امارات میں ہی رہے گا۔
یہ بھی پڑھیے: ’دنیا میں سالانہ 34 ملین نرسوں کی تنخواہ کے برابر ٹیکس چوری‘
پاکستان میں تجارتی مالیات سے منسلک کاروبار اس چیز سے ناصرف واقف ہیں بلکہ اسے برداشت بھی کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جو لیٹر آف کریڈٹ وہ جاری کریں گے اس کی ادائیگی پاکستان یا متحدہ عرب امارات میں ہو جائے گی لہٰذا وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ پیسہ کہاں ظاہر کیا جاتا ہے۔
پاکستانی اخبارات میں اس طریقہ کاروبار کو جرم بتایا جاتا ہے جو کہ غلط ہے، اگرچہ یہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے فارن ایکسچینج مینوئل کے کچھ اصولوں کی خلاف ورزی کے قریب تر ہے مگر سخت معنوں میں یہ غیرقانونی نہیں۔
یہ نہ تو ٹیکس چوری ہے اور نہ ناجائز کمائی دولت چھپانے کا طریقہ۔ جو پیسہ ملک سے باہر جاتا ہے وہ قانونی برآمد کنندگان کے ذریعے جاتا ہے اور برآمدات کی آمدن پر ٹیکس کی شرح صرف ایک فیصد ہے۔ لہٰذا ہر امیر پاکستانی جس نے پاکستان میں اپنی دولت ظاہر کر رکھی ہو وہ اس قدر کم شرح ٹیکس کی بدولت اس طریقہ کاروبار کو ترجیح دے گا مگر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
اس کے لیے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا، جب 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد عالمی ردعمل کے نتیجے میں حکومت نے غیرملکی کرنسی ڈیپازٹس کے حوالے سے پالیسی راتوں رات تبدیل کر دی تھی۔ اگرچہ اس زمانے میں بھی بہت سے امیر پاکستانی بیرون ملک اثاثوں کے مالک تھے مگر ایک بڑا طبقہ، جو امیر نہیں بلکہ اپرمڈل کلاس تصور کیا جاتا ہے، نے پاکستانی بنکوں میں بڑی تعداد میں ڈالر ڈیپازٹ کروائے ہوئے تھے، ان ڈیپازٹس کا مقصد پاکستانی روپے کی قدر میں ہونے والی کمی سے تحفظ حاصل کرنا اور بوقت ضرورت (کچھ پابندیوں کے ساتھ) بیرون ملک سفر کے لیے پیسوں کا انتظام کرنا تھا۔
یہ کوئی چھوٹی رقم نہیں تھی، ایٹمی دھماکوں کی شام پاکستانی بینکوں کے پاس 9.8 ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائر تھے جو ملکی جی ڈی پی کے 11.7 فیصد کے برابر تھے۔ آج کل کی بات کریں تو اُن ذخائر کی مالیت 31 ارب ڈالر بنتی ہے مگر دھماکوں کے بعد حکومت نے کئی سالوں تک ان رقوم کو بینکوں سے نکلوانے پر پابندی عائد کیے رکھی، اگر کسی کو رقم نکلوانے کی اجازت دی بھی گئی تو مارکیٹ سے 25 فیصد کم ایکسچینج ریٹ پر۔
مگر ان اقدامات کی بدولت پاکستانیوں میں غیرملکی کرنسی بینکوں میں رکھوانے کے حوالے سے شدید عدم اعتماد پیدا ہوا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب 2003ء میں حکومت نے بینکوں سے غیرملکی کرنسی نکالنے پر سے پابندی مکمل طور پر اُٹھائی تو بینکوں کے پاس صرف 29 کروڑ 30 لاکھ روپے ڈالر موجود تھے جو 1997ء کے 9 ارب 84 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی نسبت 97 فیصد کم تھے۔
تو یہ سارا پیسہ کہاں گیا؟ بہت سی جگہوں پر، مگر زیادہ تر دبئی منتقل کیا گیا۔ اس کے ساتھ وہ پیسہ بھی گیا جو پاکستانی امراء نے اُس دور کے بعد کمایا اور اسے حکومت کی پہنچ سے دور رکھنا ہی مناسب سمجھا۔
اگرچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان سے کتنا پیسہ متحدہ عرب امارات منتقل کیا گیا مگر ہمیں اس بات کا اندازہ ضرور ہے کہ ہر سال کتنا پیسہ پاکستان واپس آتا ہے، کسی نہ کسی سطح پر سٹیٹ بنک آف پاکستان یہ بات جانتا ہے کہ پاکستانی اپنا پیسہ متحدہ عرب امارات میں رکھواتے ہیں اور یہ پیسہ ‘ترسیلات زر’ کی صورت میں واپس آتا ہے اور یہ ترسیلات زر حقیقی معنوں تارکین وطن کی کمائی نہیں ہوتی بلکہ متحدہ عرب امارات سے ‘ری سائیکل’ ہو کر رقم واپس وطن آتی ہے۔
یہی وجہ ہےکہ سٹیٹ بنک آف پاکستان امارات سے آنے والی ترسیلات زر کو جس طرح تفصیلی طور پر الگ کرتا ہے، اس طرح کسی اور ملک سے آنے والی رقوم کو نہیں کرتا۔ حالانکہ سعودی عرب سے سب سے زیادہ ترسیلات زر پاکستان آتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: معاشی بہتری کے اعشارے، مسلسل پانچویں ماہ ترسیلات زر 2 ارب ڈالر سے زائد
دبئی اور دیگر اماراتی ریاستوں کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو حیران کُن انکشافات ہوتے ہیں: متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی کسی بھی دوسرے ملک میں مقیم پاکستانیوں سے زیادہ پیسہ بھیجتے ہیں مگر وہاں موجود پاکستانیوں کی تعداد کے لحاظ سے اس چیز کا جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔
30 جون 2020ء کو ختم ہونے والے مالی سال میں متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانیوں نے پانچ ارب 61 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی ترسیلات زر بھیجیں، اس میں سے بھی دبئی میں رہنے والے پاکستانیوں نے چار ارب 76 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ارسال کیے، دبئی میں چار لاکھ 38 ہزار پاکستانی رہتے ہیں جبکہ دیگر اماراتی ریاستوں سے صرف 84 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی ترسیلات زر پاکستان بھجوائی گئیں حالانکہ ان ریاستوں میں 12 لاکھ پاکستانی رہتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ دبئی میں رہنے والے پاکستانیوں نے ماہانہ 90 کروڑ 80 لاکھ ڈالر پاکستان بھجوائے، یہ اعداد و شمار دیکھنے میں حیران کن ہیں۔ دیگر ریاستوں میں مقیم پاکستانیوں نے ماہانہ صرف 58 ڈالر پاکستان بھجوائے۔ یہاں تک کہ سعودی عرب، جہاں طرز زندگی متحدہ عرب امارات کی نسبت قدرے سستی ہے، میں رہنے والا انفرادی پاکستانی تارک وطن بھی ماہانہ صرف 197 ڈالر ہی وطن بھجوا سکا۔
وضاحت کے لیے بتاتے چلیں کہ جب ہم انفرادی تارک وطن کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد بیرون ملک کام کرنے والے فرد پر منحصر تمام افراد ہوتے ہیں۔ ہمارے حساب سے دبئی میں میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتمل ایک پاکستانی خاندان جس میں صرف ایک فرد ہی کما رہا ہو۔ ہر ملک میں پاکستانی تارکین وطن کی تعداد کے لئے ہمارا حساب کتاب ہر حکومت اور حکومت پاکستان کے بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے تخمینے پر منحصر ہے۔
اگر ہم دبئی سے آنے والی ترسیلات زر کو باقی متحدہ عرب امارات سے آنے والی ترسیلات زر کے مقابلے میں معمول پر رکھ کر دیکھیں تو حیران کن نتیجہ سامنے آتا ہے، یعنی چار ارب 76 کروڑ 80 لاکھ ڈالر میں سے 30 کروڑ 70 لاکھ ڈالر، جس کا مطلب ہے متحدہ عرب امارات سے آنے والی کل ترسیلات زر کا صرف چھ فیصد۔ دبئی سے آنے والی ترسیلات زر ممکنہ طور پر وہاں رہائش پذیر پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جاتی ہیں جب کہ بقیہ چار ارب 46 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی ترسیلات زر دراصل ری سائیکل ہونے والا پیسہ ہے جو محفوظ بنانے کےلیے پاکستان سے متحدہ عرب امارات بھیجا گیا اور وہاں رکھا گیا۔
یہ پیسہ اس لیے پاکستان واپس آ رہا ہے تاکہ خاندان کی شادیوں، گھر کی خریداری اور یہاں تک کہ پاکستان میں کسی کاروبار میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ مالی سال 2020ء میں پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم دو ارب 30 کروڑ 80 لاکھ ڈالر تھا یہ رقم دبئی سے ری سائیکل ہو کر پاکستان منتقل ہونے والی رقم کے نصف کے برابر ہے۔
یہ کہنا بے جا ہو گا کہ دبئی میں پاکستانیوں کے اربوں روپے کے اثاثے ہیں جو وہاں یا تو رئیل سٹیٹ کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں یا مالیاتی اداروں میں پڑے ہیں۔ یہ تمام اثاثے وہاں محفوظ اور آسانی سے قابل رسائی ہونے کے تاثر کے تحت موجود ہیں لیکن اب اگر حال ہی میں لگائی گئیں ویزا پابندیاں آہستہ آہستہ اُٹھا لی جاتی ہیں، جیسا پاکستانی حکومت نے غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس پر سے رقم نکلوانے پر سے اُٹھائی تھی، تو کتنے فیصد پاکستانی متحدہ عرب امارات میں پیسہ رکھنے کو محفوظ سمجھیں گے؟
اس بات کا بہت امکان ہے کہ دبئی سے پاکستانی پیسے انخلاء کا شروع ہو جائے، اس بات سے قطع نظر کہ ویزوں کے معاملے میں آگے کیا ہوتا ہے، ایک مرتبہ اعتماد متزلزل ہو جائے تو اسے بحال کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر یہ پیسہ کہاں جائے گا؟
پیسے سے محبت ہے تو اسے آزاد چھوڑ دیں
یہ پیسہ ممکنہ طور پر سنگاپور منتقل ہو سکتا ہے، جو ایشیا کا اگلا ایسٹ مینجمنٹ حب بننے جا رہا ہے، یا پھر لندن۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے معاملات کے باعث نیویارک میں یہ پیسہ منتقل کیے جانے کے امکانات کم ہیں اور زیورخ میں بدنام امیر ہی پیسہ منتقل کرتے ہیں۔
مگر جہاں پاکستان کے دفتر خارجہ کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے ویزوں پر پابندی کے باعث ہونے والے سفارتی نقصان کو کم کرنے کی سعی کرنی چاہیے، وہیں وزارت خزانہ کو اس بات کی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ دبئی سے نکلنے والا پاکستانی پیسہ سنگاپور اور لندن جانے کے بجائے کراچی ، لاہور، فیصل آباد، ملتان اور گوجرانوالا میں واپس آئے۔
ایسا کرنے کے لیے حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہو گی کہ یہ پیسہ ملک سے باہر گیا ہی کیوں تھا؟ پاکستان میں رہنے والے اس بات کی ضمانت چاہتے ہیں کہ ملک کے اندر ان کا پیسہ محفوظ ہے اور وہ جب چاہیں اسے لے کر ملک سے باہر جا سکتے ہیں۔ ستر کی دہائی میں بھٹو دور کی قومیائے جانے کی پالیسی اور 1998ء میں غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹ سے متعلق نواز حکومت کے اقدامات کی وجہ سے پاکستانیوں میں اپنے پیسے کے حوالے سے عدم اعتماد اور خوف پایا جاتا ہے۔
اگر پاکستانی حکومت بیرون ملک سے پیسہ وطن واپس لانا چاہتی ہے تو اسے اپنے ہاتھ خود باندھنا ہوں گے اور سرکار کی اس صلاحیت کو مستقل طور پر ختم کرنا ہوگا کہ وہ کسی قاعدے اور قانون کے بغیر کسی شہری کی جائیداد کو قبضے میں لے سکے، اس کے علاوہ اسے اپنے اس اختیار کو بھی ختم کرنا ہو گا جس کے تحت وہ کسی بھی شہری کو اس کی جائز اور قابل ٹیکس دولت اور اثاثوں کی ملک کے اندر اور باہر منتقلی کو بغیر عدالتی کارروائی کے روک سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: زیادہ بیرونی سرمایہ کاری کے لحاظ سے پاکستان پہلے پانچ ممالک میں شامل
یہ سب کچھ پارلیمنٹ کی منظوری سے ہی کیا جا سکتا ہے جو ناصرف حکومت کے ان اختیارات کو ختم کر دے بلکہ وزارت خزانہ کو قانونی ریگولیٹری احکامات ( ایس آر اوز) بھی جاری کرنے سے روک دے جو اس ایکٹ کے برخلاف ہوں۔ ایسا کرنے سے ایک واضحح پیغام جائے گا کہ حکومت نے خود کو ایک ایسے قانون کا تابع بنا لیا ہے جسے راتوں رات تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور اگر کبھی اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑی تو اس کے لیے پارلیمنٹ میں بحث درکار ہو گی۔
قانون میں تبدیلی کے اختیار کو مشکل بنا کر حکومت ملک سے باہر پیسہ رکھنے والے پاکستانیوں کو اپنا پیسہ ملک میں لانے پر قائل کرسکتی ہے، اس چیز کا نتیجہ معاشی استحکام کی صورت نکلے گا۔
ذرا تصور کریں کہ اگر نجی بنکوں کے پاس زرمبادلہ کے اتنے ہی ذخائر آ گئے جتنے 1997ء میں تھے یعنی مجموعی طور پر 31 ارب ڈالر۔ تو پاکستانی کاروباروں کو قرض دینے کے لیے بینکوں کے پاس کس قدر رقم دستیاب ہو گی اور بیرونی کے بجائے مقامی فنانسگ پر حکومت کا انحصار کتنا بڑھ جائے گا؟
مگر یہ سب کرنے کے لیے حکومت پاکستان کو ایسے اقدامات اٹھانا پڑیں گے جو وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی شہریوں کو ایک بار اس پر اعتبار کرنے کی طرف راغب کریں گے۔ گیند اب حکومت کے کورٹ میں ہے، ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے کہ کسی حکومت کو اپنے شہریوں کا اعتماد جیتنے کا دوسرا موقع مل جائے، ایسا ہر بار نہیں ہوتا لہٰذا یہی بامقصد اقدامات اُٹھانے کا وقت ہے۔