کورونا بحران سے نکلنے کیلئے وزیراعظم عمران خان کا 10 نکاتی ایجنڈہ کیا ہے؟

907

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے اثرات سے نمٹنے کے لئے 10 نکاتی ایجنڈا پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وبا پر قابو پانے کے لئے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔

کورونا وبا کے اثرات کا جائزہ لینے اور معاشی نقصانات پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ورچوئل اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا وبا دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے سنگین عالمی بحران ہے، اس وائرس سے تقریباً چھ کروڑ پچاس لاکھ افراد متاثر اور 15 لاکھ کے قریب ہلاک ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کی ویکسین ہر کسی کے لئے میسر ہونی چاہئے، 1930ء کے بعد کورونا کے باعث سب سے بڑی معاشی بدحالی کا سامنا کرنا پڑا ہے، وبا سے ترقی پذیر ممالک سمیت دنیا بھر میں رہنے والے غریب افراد سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں تقریباً دس کروڑ افراد کورونا کے باعث غربت کی نچلی سطح تک چلے جائیں گے۔ امیر ملکوں نے اپنی معیشتوں کو سنبھالنے کے لئے 13 کھرب ڈالر خرچ کئے ہیں جبکہ دوسری طرف ترقی پذیر ممالک کے پاس معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے وسائل نہیں ہیں، ترقی پذیر ملک دو سے تین کھرب ڈالر کا بھی بندوبست نہیں کر پا رہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے سمارٹ لاک ڈائون کی کامیاب پالیسی پر عمل کرکے ناصرف لوگوں کو وائرس سے بچایا بلکہ انہیں غربت سے مرنے سے بچانے کے لئے بھی کوششیں کی ہیں اور ہم نے تقریباً 8 ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج دیا جو ہماری جی ڈی پی کا تقریباً تین فیصد ہے اور اس کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا اور معیشت کو مستحکم رکھنا تھا۔

عمران خان نے کہا کہ اب ہمیں کورونا وبا کی دوسری شدید لہر کا سامنا ہے جس کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کر رہے ہیں اور ہمیں اپنی معاشی شرح نمو کی بحالی اور اسے برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ کورونا کے مریضوں کی تعداد میں بڑھتے ہوئے اضافے کا چیلنج درپیش ہے جن کی وجہ سے ہمارے ہسپتالوں پر دباﺅ بڑھ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر نے معاشی استحکام کے لئے زیادہ سے زیادہ درکار فنڈز خرچ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے تحت بجٹ خسارے میں کمی کے لئے اقدامات کر رہا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ دوسرے ترقی پذیر ممالک کو بھی پاکستان کی طرح صورت حال کا سامنا ہے کہ کس طرح معیشت کو مستحکم بنائیں اور دوسری طرف بجٹ خسارے میں بھی کمی لائی جائے۔

انہوں نے کہا کہ اضافی سرمایہ تک رسائی ہی مالیاتی انتظام اور شرح نمو کی بحالی کا راستہ ہے۔ اپریل میں قرضوں میں ریلیف سے متعلق عالمی اقدام کی اپیل کی تھی، مئی میں جی 20 ممالک کی طرف سے قرضے معطل کرنے اور بعد ازاں اگلے سال جون تک توسیع کرنے پر ان کے شکر گزار ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف سے قرضوں کی تیز فراہمی کے اقدام کو بھی سراہتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ اب تک جتنی رقم اکٹھی ہوئی ہے وہ کورونا وباء کے اثرات سے نکلنے کے لئے ترقی پذیر ممالک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ناکافی ہے اور پانچ ترقی پذیر ممالک اپنے قرضوں کے حوالے سے پہلے ہی دیوالیہ ہو چکے ہیں، دیگر بھی ان کی طرح دیوالیہ ہو سکتے ہیں، کئی ممالک کو بڑے پیمانے پر قرضوں کی واپسی اور محصولات میں کمی کا مسئلہ درپیش ہے اور وہ بھی معاشی تباہی کے دھانے پر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے بعض علاقوں میں ممکنہ افلاس کے حوالے سے عالمی ادارہ خوراک کی رپورٹس تشویش ناک ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور کینیڈا اور جمیکا کے وزرائے اعظم نے ترقی کے لئے مالی معاونت کے حوالے سے امداد کا معاملہ اٹھایا۔ اس میں ترقی پذیر ممالک کی مالی معاونت کے لئے سینکڑوں آپشنز کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس عمل کو بعض ٹھوس اقدامات کے ذریعے جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام میں اصلاحات، قرضوں کے انتظام کا جامع اور مساوی طریقہ کار مرتب کرنے، ایک جمہوری ایس ڈی جی ٹریڈنگ سسٹم کے قیام اور ٹیکس کا منصفانہ عالمی نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے، اگر وبا کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کی اقتصادی تباہی کو روکنا ہے تو دنیا کو بعض ترجیحی اقدامات کی نشاندہی کرنا اور ان پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔

وزیراعظم پاکستان نے فوری اقدامات کے لئے دس نکاتی ایجنڈا پیش کرتے ہوئے کہا کہ

1۔ وبا کے خاتمے تک ترقی پذیر ملکوں کے قرضے موخر کئے جائیں، انتہائی پسماندہ ملکوں کے قرضے معاف کئے جائیں۔

2۔ جامع کثیر الجہتی فریم ورک کے تحت ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کی جائے۔

3۔ وبا سے نمٹنے کے اقدامات کیلئے پانچ سو ارب ڈالر کا خصوصی فنڈ مختص کیا جائے۔

4۔ ملٹی لیٹرل ڈویلپمنٹ بینکوں کے ذریعے کم ترقی یافتہ ملکوں کے لئے رعایتی قرضوں کی سہولت دی جائے، کم شرح پر قلیل مدتی قرضے فراہم کئے جائیں۔

5۔ کم شرح پر مختصر مدت کے قرضوں کی فراہمی کے لئے نئی لیکویڈیٹی اور سسٹین ایبلٹی فیسلٹی پیدا کی جائے۔

6۔ ترقی میں 0.7 فیصد کی معاونت کے حوالے سے وعدے پورے کئے جائیں۔

7۔ پائیدار بنیادی ڈھانچے کے لئے سالانہ 15 کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کا انتظام کیا جائے۔

8۔ ترقی پذیر ملکوں میں موسمیاتی تبدیلی کے لئے سالانہ سو ارب ڈالر کی فراہمی کا ہدف یقینی بنایا جائے۔

9۔ ترقی پذیر ملکوں سے امیر ممالک، ٹیکس کے حوالے سے محفوظ آف شور مقامات پر غیرقانونی طور پر رقم کی منتقلی روکنے کے لئے فوری اقدامات ہونے چاہئیں۔

10۔ بدعنوان سیاستدانوں اور مجرموں کی طرف سے لوٹے گئے اثاثوں کی متعلقہ ممالک میں فوری واپسی یقینی بنائی جائے۔

عمران خان نے کہا کہ وہ یقین دلاتے ہیں کہ ان اقدامات کی بدولت دوسرے بہت سے اقدامات کے مقابلے میں ترقی پذیر ممالک کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ بحران سے نکلنے کے لئے اجتماعی مساعی کے ساتھ پائیدار ترقی اور پیرس معاہدے کے اہداف کے حصول کے لئے کوششوں کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اجتماعی معاشی سیکورٹی اور تنازعات کے خاتمے کے لئے اقوام متحدہ کے چارٹر پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور اس چارٹر کے اصولوں کے مطابق ہمیں مستحکم اور پائیدار اقتصادی، سماجی اور سیاسی نظام کے لئے مل کر کام کرنا چاہئے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here