اسلام آباد: پاکستانی برآمدکنندگان نے رواں سیزن میں کینو کی برآمد کا ہدف ساڑھے تین لاکھ ٹن مقرر کیا ہے جو گزشتہ سال کے تین لاکھ ٹن سے زیادہ ہے، کینو کی برآمد سے 21 کروڑ ڈالر زرمبادلہ حاصل ہو گا۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق یکم دسمبر سے کینو کی برآمد شروع کر دی گئی ہے، رواں سال کینو کی پیداوار کا اندازہ اکیس لاکھ ٹن لگایا گیا ہے تاہم اس میں برآمداتی معیار کی پیداوار کم ہے، پچھتر فیصد پیداوار بی اور سی گریڈ ہے جسے برآمد نہیں کیا جاسکتا۔
ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلی وحید احمد کے بقول کینو کے اکثر باغات ساٹھ سال پرانے ہیں جو بیماریوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے، پاکستانی کینو کی جلد پر داغ دھبوں اور نشانات کی بیماری عام ہے جس کی وجہ سے اس کی ظاہری خوبصورتی متاثر ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ برآمدکنندگان نے یورپ کو کینو کی برآمد پر ازخود پابندی عائد کر رکھی ہے۔
وحید احمد کے مطابق رواں سیزن کورونا وباء کی وجہ سے وٹامن سی سے بھرپور ترشادہ پھلوں کی مانگ میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور پاکستان اس طلب سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن کینو کے معیار کے مسائل کی وجہ سے ان امکانات سے بھرپور فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی ترشادہ پھلوں اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی مجموعی برآمدات پانچ سال میں ایک ارب ڈالر تک بڑھائی جا سکتی ہیں تاہم اس کے لیے تحقیق و ترقی کے ذریعے ترشادہ پھلوں کی نئی اقسام کاشت کرنا ہوں گی، کینو کو بیماریوں سے پاک کرنا ہو گا اور اس کی فی ایکڑ پیداوار بڑھاتے ہوئے نئے باغات لگانا ہوں گے۔
وحید احمد کے مطابق پاکستان میں کینو کی معیشت کا مجموعی حجم 125 ارب روپے کے لگ بھگ ہے، بھلوال اور سرگودھا کی معیشت کا تمام تر دارومدار کینو کی صنعت پر ہے جہاں 250 فیکٹریوں میں لگ بھگ اڑھائی لاکھ افردا کو براہ راست روزگار مل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ایف وی اے نے کینو کو درپیش مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل تلاش کرنے کے لیے قومی کانفرنس کی منصوبہ بندی کی ہے جو کورونا وبا اور دیگر ناگزیر وجوہات کی بنا پر یکم دسمبر کو منعقد نہ ہو سکی تاہم سیزن کے دوران کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا جس میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے ساتھ زرعی جامعات، برآمدکنندگان، کاشت کاروں اور دیگر تمام سٹیک ہولڈرز شرکت کریں گے اور کینو کی صنعت کی بقا اور ترقی کے لیے سفارشات مرتب کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ رواں سیزن پاکستان میں کنٹینرز کی قلت کا سامنا بھی ہے، کینو زمینی اور سمندری راستے سے برآمد کیا جاتا ہے، کنٹینرز نہ ہونے اور فضائی کمپنیوں کے کرائے زیادہ ہونے کی وجہ سے برآمدات میں مشکلات کا سامنا ہے، برآمدات کا ہدف حاصل کرنے کے لیے متعلقہ وزارتوں اور محکموں کا تعاون ناگزیر ہے۔