لاہور: مرغیوں کی خوراک مہنگی ہونے پر پولٹری فارمرز نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو پیداوار میں کمی اور پولٹری مصنوعات کی قیمتوں میں طویل عرصے تک اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
اس حوالے سے پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن (پی پی اے) نارتھ ریجن کے نائب چئیرمین راجا عتیق الرحمان نے کہا ہے کہ جولائی میں جس دانے کی قیمت 1132 روپے فی من تھی وہی اب 1700 روپے فی من ہو گئی ہے، سویابین 3273 روپے فی من سے 4160 روپے فی من، رائس ٹِپس 1371 روپے فی من سے بڑھ کر 1800 روپے فی من گندم بران 1078 روپے سے بڑھ کر 1421 روپے فی من، کینولا 2412 روپے سے بڑھ کر 2508 روپے اور سن فلاور 1814 روپے سے بڑھ کر 2160 روپے فی من ہو گئی ہے”۔
نائب چئیرمین پی پی اے نے کہا کہ پولٹری فِیڈ کی قیمتوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، فیڈ کی بڑے پیمانے پر ذخیرہ اندوزی کی جا رہی ہے، مارکیٹ میں قلیل مقدار میں فیڈ سپلائی کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
عتیق الرحمان نے کہا کہ پولٹری فیڈ پر 75 سے 80 فیصد لاگت آ رہی ہے جو براہِ راست پیداواری لاگت پر اثر انداز ہو رہی ہے اور نتیجتاََ پولٹری فارمرز کو نقصان بھگتنا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
’حکومت پولٹری کی قیمتوں کا تعین کھلی منڈی میں طلب و رسد کی بنیاد پر کرنے دے‘
’پاکستان میں 50 فیصد پولٹری فارم بند ہو سکتے ہیں‘
ہوٹلوں اور شادی ہالز کی بندش سے پولٹری کی طلب میں 30 فیصد کمی
انہوں نے کہا کہ فِیڈ کی قیمت جولائی سے نومبر کے دوران 3085 فی پچاس کلو گرام سے بڑھ کر 3530 روپے ہو گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ چند ہی ماہ میں 8900 روپے فی ٹن کا اضافہ ہو چکا ہے۔
نائب چئیرمین پی پی اے نے مزید کہا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے پروٹوکول جاری کیے گئے ہیں جس کی بنا پر شادی ہالز اور ریستورانٹس پر پابندیوں عائد ہیں جس کی وجہ سے چکن کی کھپت کم ہوئی ہے اس طرح رسد میں مزید کمی اور لاگت میں اضافہ ہو گا۔
پی پی اے کے رکن نے دانے کی درآمد پر سے عارضی طور پر ریگولیٹری اور کسٹم ڈیوٹی ختم جبکہ آئل سیکٹر کے خام مال جیسے سویابین تیل کے بیج پر کسٹمز ڈیوٹی تین فیصد سے صفر اور سیلز ٹیکس 17 فیصد سے پانچ فیصد پر لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ “سویابین مِیل پولٹری فیڈ کا لازمی جزو ہے اور اس سے کھپت کے لیے خوردنی تیل بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ اس تیل پر سے کسٹمز ڈیوٹی کم کرنی چاہیے”۔
پی پی اے ریجنل سیکرٹری میجر (ر) سید جاوید حسین بخاری نے کہا کہ اگر زیادہ عرصے کے لیے پیداوار پر دباؤ برقرار رہا تو اس کے نتیجے میں چوزوں کی اگلی کھیپ میں کمی آئے گی جو 77 ہفتوں کے لیے پیداوار پر اثرانداز رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ”پولٹری سیکٹر کو بچانے کے لیے متعلقہ حکام کو ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور صرف اس صورت میں صارفین کو دیرپا افراطِ زر سے بچایا جاسکتا ہے”۔