ویڈیو سٹریمنگ کی جنگ پاکستان میں بھی پہنچ چکی، کیا ہم اس کیلئے تیار ہے؟

نیٹ فلکس اور ایمازون جیسے ویڈیو سٹریمنگ پلیٹ فارم پاکستان سے اربوں کما رہے ہیں، ان کے صارفین تیزی سے بڑھ رہے ہیں، تاہم حکومت اس میدان میں مسابقت کیلئے پاکستانی ورژن متعارف کرانے جا رہی ہے، سٹریمنگ سروسز کی طرف منتقلی سے کانٹینٹ، ٹیلنٹ اور پرفارمنگ آرٹس پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

گزشتہ برس جنوری میں نیٹ فلکس نے ایک خط لکھ کر اپنے سرمایہ کاروں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اسے ڈزنی اور وارنر میڈیا، جنہوں نے اپنی ذاتی ویڈیو سٹریمنگ سروسز شروع کر دی ہیں، کی جانب سے بڑھتی مسابقت سے کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ اسے ایک ایسے حریف کا سامنا ہے جو ان دونوں سے بڑا ہے اور وہ ہے فورٹ نائٹ (Fortnite)۔

یہ ایک آن لائن ویڈیو گیم تھا جس نے ہرعمر کے افراد کو اپنی جانب کھینج لیا، لوگ جو وقت نیٹ فلکس پر گزارتے تھے وہ اس ویڈیو گیم کھیلنے میں صرف ہونے لگا، نیٹ فلکس کے لیے یہ مسابقت اس  کے دیگر حریفوں، ایمازون وغیرہ‘ سے مختلف تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ فورٹ نائٹ کوئی ویڈیو سٹریمنگ سروس نہیں بلکہ ایک مختلف نوعیت کا تفریحی پلیٹ فارم تھا، 2017 میں برطانوی اخبار دی گارجین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس مسابقت کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ نیٹ فلکس کا مقابلہ نیند سے ہے۔

ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اِس طرح کی مستقبل کی سوچ اور اعلی پائے کی مسابقت سامنے آ رہی ہے، دوسری جانب حکومت پاکستان ہے جو سنسرشپ کے نت نئے طریقے سوچنے اور انٹرنیٹ کی ملکیت  کے خواب دیکھنے میں مصروف ہے، پہلے پہل صحافی ارشد شریف جیسے کچھ افراد کی جانب سے یہ باتیں کی گئیں کہ پاکستان میں بھی چین کی طرح فیس بُک اور وٹس ایپ کا مقامی ورژن دستیاب ہونا چاہیے، اب حکومتی وزراء بھی کارخیر میں حصہ ڈالنے لگے ہیں۔

حال ہی میں وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا ہے کہ حکومت ناصرف نیٹ فلکس کے مقامی ورژن پر کام کر رہی ہے بلکہ اس ضمن میں ٹیکنالوجی سے متعلقہ کام پایہ تکمیل تک بھی پہنچ گیا ہے، پیمرا کو اس پلیٹ فارم کے کانٹینٹ سے متعلق گائیڈ لائنز کی تیاری کی ہدایت کر دی گئی ہے تاکہ اسے سرکاری و نجی شراکت داری کے تحت متعارف کرایا جا سکے۔ مسائل کی شروعات یہیں سے ہوتی ہے۔

حکومت کے لیے نیٹ فلکس کے مقامی ورژن کا مطلب ہے کہ اسے دکھائے جانے والے مواد پر مکمل اختیار حاصل ہو گا لیکن ایک اور چیز ہے جو اس منصوبے کی قسمت کا فیصلہ کرے گی اور وہ یہ کہ کیا لوگ اس سروس کے لیے پیسے خرچ کریں گے؟

روایتی سوچ کے حامل افراد کا موقف ہے کہ آخر پاکستانی ایسے مواد کے لیے پیسے کیوں خرچ کریں گے جو انہیں مفت میں دستیاب ہو سکتا ہے۔ عموماََ یہ سوچ بند کمروں میں بیٹھ کر سوچ لی جاتی ہے، یا پھر اس کا منبع وٹس ایپ میسجز ہوتے ہیں، اس طبقے کی باقی باتوں کی طرح یہ سوچ بھی غلط ہے۔

ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستانی اُن پلیٹ فارمز کے لیے پیسے خرچ کرنے کو تیار ہیں جو ٹھیک سے کام  کرتے ہوں اور جن کی کانٹینٹ لائبریری بھرپور ہو، عوامی سطح پرترتیب دیے گئے اور دستیاب اعدادوشمار کے مطابق پرافٹ اردو کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چھ سالوں سے کام کرنے والی سب سے بڑی سٹریمنگ سروس نیٹ فلکس ہے جس نے رواں برس ملک سے 1.2 ارب روپے یا 71 لاکھ ڈالر کا ریونیو حاصل کیا ہے۔

دوسری جانب اگر پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسری میں سب سے بڑے ہم نیٹ ورک کی بات کریں تو چار ٹی وی چینلز اور ایک مووی سٹوڈیو پر مشتمل یہ نیٹ ورک گزشتہ 15 سالوں سے کام کر رہا ہے اور 2019ء میں اسکی آمدن چار ارب روپے (29.2 ملین ڈالر) رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نیٹ فلکس پاکستان میں کئی چھوٹے انٹرٹینمنٹ چینلز سے بڑا ہے اور یہ ملک کے چند بڑے ٹی وی چینلز کو بھی پیچھے چھوڑنے کی راہ پر گامزن ہے۔

پھر نیٹ فلکس کا تو پاکستان میں ابھی آغاز ہے، ایسی بہت سی دوسری سروسز بھی ہیں جن کے لیے پاکستانی پیسے خرچ رہے ہیں، اس کے علاوہ بہت سے ایسے پلٹ فارمز بھی ہیں جہاں سے کانٹینٹ غیرقانونی طور پر مفت ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر آپ کوئی معیاری چیز مناسب داموں میں پیش کریں گے تو پاکستانی اسے خریدنے کیلئے تیار ہیں۔

تو یہ چیز پاکستانی کانٹینٹ مارکیٹ کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟  اوّل: کانٹینٹ مالکان اور پروڈیوسرز کے لیے ریونیو کے زیادہ ذرائع

دوئم: ناظرین کو زیادہ متنوع  مواد دیکھنے کو ملے

سوئم: مقامی کانٹینٹ جیسا کہ ‘چڑیلز’ جو بھارتی سٹریمنگ سروس زی فائیو پر نشر ہوا۔

پاکستان میں سٹریمنگ سپیس کا مالک کون ہے؟

 اس وقت سب سے بڑا کھلاڑی نیٹ فلکس ہے جس کے کانٹینٹ لائبریری میں بڑی تعداد میں ہالی ووڈ، بالی ووڈ اور پاکستانی مواد موجود ہے اور اس کے پریمیم اکاؤنٹ کی سبسکرپشن فیس 1500 روپے جبکہ بیسک کی 950 روپے ہے، نیٹ فلکس سے بہتر آپشن دستیاب نہیں لہٰذا اس کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔

نیٹ فلکس کانٹینٹ صارف کی جگہ کے مطابق اس کے پاس ظاہر ہوتا ہے، کئی آزاد پروڈیوسرز کی جانب سے فراہم کردہ مواد کے علاوہ نیٹ فلکس اپنا خود کا کانٹینٹ بھی بناتا ہے اور اس پر غیرملکی زبانوں میں موجود کانٹینٹ کو سمجھنے میں آسانی کے لیے انگریزی میں ڈبنگ اور سب ٹائٹلزکی سہولت بھی دی جاتی ہے۔

نیٹ فلکس اپنے نظام کی مدد سے صارف کے استعمال کا جائزہ لے کر اسے خود سے کانٹینٹ بھی تجویز کرتا ہے، قیمت کے لحاظ سے مسابقت میں رہنے کے لیے سبسکرپشن کے لیے تین آپشنز یعنی بیسک، سٹینڈرڈ اور پریمیم دیے جاتے ہیں۔ ہر سبسکرپشن میں سکرینز کی تعداد مختلف ہوتی ہے،( جی ہاں، نیٹ فلکس جانتا ہے کہ آپ اپنا پاسورڈ دوسروں کے ساتھ شئیر کرتے ہیں اور جتنے زیادہ لوگوں کے ساتھ آپ اپنا پاسورڈ شئیر کریں گے نیٹ فلکس اتنے ہی زیادہ پیسے چارج کرے گا)۔

یہ بھی پڑھیے: نیٹ فلکس طرز کا پاکستانی ویڈیو سٹریمنگ پلیٹ فارم تیار

نیٹ فلکس کا بڑا عالمی حریف جو پاکستان میں بھی کام کر رہا ہے وہ ایمازون ہے، یہ اپنے نظام کی بدولت خود کار طریقے سے صارفین کو مواد دیکھنے کے لیے بہترین تجاویز دیتا ہے، ایمازون پرائم کے پریمیر اکاؤنٹ کی سبسکرپشن فیس ایک ہزار روپے ہے۔ اس میں ایک رے نام کا فیچر بھی دیا گیا ہے جو کرداروں اور مناظر کے پس منظر سے متعلق معلومات دیتا ہے، یہ گوگل کروم کاسٹ کے ساتھ کام نہیں کرتا اور اس پر پاکستانی کانٹینٹ بھی بہت تھوڑی تعداد میں دستیاب ہے تاہم اس پر بھارتی کانٹینٹ بڑی تعداد میں موجود ہے جسے پاکستانیوں کی اچھی خاصی تعداد دیکھتی ہے، اس میں پارٹی واچ کا آپشن بھی نہیں ہے یعنی ایک سے زیادہ لوگ نہیں دیکھ سکتے۔ مگر اس سب کے باوجود ایمازون پاکستانی صارفین میں مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے، ان دونوں سٹریمنگ پلیٹ فارمز کے علاوہ کچھ دیگر علاقائی پلیٹ فارمز بھی پاکستان میں اپنی سروسز فراہم کر رہے ہیں۔

ان میں سےایک ملائیشیا کا آئی فلکس بھی ہے، یہ سٹریمنگ پلیٹ فارم پاکستان میں اس لیے مقبول ہے کیونکہ اس کی سبسکرپشن فیس کم ہے اور اس کی لائبریری  میں پاکستانی ڈرامے اور فلمیں بشمول غیرملکی کانٹینٹ بھی موجود ہے، اس میں بچوں کے لیے بھی کافی مواد پیش کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے یہ جلد ہی فیملی سٹریمنگ سروس کے طور پر مقبول ہو چکا ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور سٹریمنگ آن ڈیمانڈ سروس کا نام سٹارز پلے (Starz Play) ہے، یہ بھی پاکستان میں کافی جانی پہنچانی ہے، مگر یہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ممالک میں زیادہ مقبول ہے، یہ سروس اسی خطے (mena) سے شروع ہوئی مگر Cinepax کے اشتراک سے پاکستان آئی، اس سروس پر ہالی ووڈ فلمیں، ٹی وی شوز، ڈاکومینٹریز اور بچوں کیلئے مواد پیش کیا جاتا ہے، اور امریکا میں ریلیز ہونے پر سیریز بھی دکھائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس پر پاکستانی، عرب اور بالی ووڈ کانٹینٹ بھی دستیاب ہے ، یہ پلیٹ فارم پاکستان سمیت مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے 20 ممالک میں اپنی سروسز فراہم کر رہا ہے، اس کی سبسکرپشن یومیہ، ہفتہ وار اور ماہانہ بنیادوں پر مل سکتی ہے جن کی قیمتیں مختلف ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان میں بھارتی سٹریمنگ سروسز خاص کر زی فائیو بھی اپنی جگہ بنانے کیلئے کوشاں ہے، زی فائیو تو ایک قدم آگے بڑھ کر پاکستانی مواد براہ راست اپنے پلیٹ فارم پر دکھا رہی ہے جیسا کہ پاکستانی سیریز ’چڑیلز‘۔ بد قسمتی سے زی فائیو پر ’چڑیلز‘ زیادہ دیر چل نہیں سکا، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاص نظریاتی جھکاؤ کی بناء پر پاکستان میں بھارتی کمپنیوں کا کاروبار کرنا ناقابل عمل ہے، یہی وجہ ہے کہ سٹیٹ بینک نے بھارتی سٹریمنگ سروسز کو پاکستان سے ادائیگیوں کا عمل روک دیا ہے۔

پاکستان میں سٹریمنگ مارکیٹ کتنی بڑی ہے؟ 

 یہ اصل سوال ہے، پاکستانی پہلے ہی ان سروسز پر پیسے خرچ کر رہے ہیں، ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا وباء کے باعث پاکستان میں سٹریمنگ سروسز کی سبسکرپشن میں زبردست اضافہ دیکھا گیا، رپورٹ کے مطابق فروری 2020ء میں ملک میں کل 36 ہزار افراد نیٹ فلکس استعمال کر رہے تھے، جبکہ اب اس سڑیمنگ سروس کے صارفین کی تعداد 87 ہزار سے زائد ہو گئی ہے تاہم عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نیٹ فلکس صارفین کی تعداد ایک لاکھ ہو چکی ہے۔

زیادہ تر پاکستانی بیسک لیول کی سبسکرپشن حاصل کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ نیٹ فلکس رواں برس پاکستان سے ایک ارب 20 کروڑ روپے (71 لاکھ ڈالر) کی آمدن حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے اور جس رفتار سے یہ مقبولیت پا رہا ہے اور جس طرح کورونا وبا کے نتیجے میں ہی سہی لوگوں کا ای کامرس اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کی جانب رجحان بڑھ رہا ہے، اس بات کا بہت امکان ہے کہ نیٹ فلکس آمدن کے لحاظ سے پاکستان میں سب سے بڑی انٹرٹینمنٹ کمپنی بن جائے گی۔

نیٹ فلکس اور دیگر سٹریمنگ سروسز کی آمدن میں یہ اضافہ پاکستانی مواد دکھانے کے لیے لائسنس کے حصول کی مد میں کی گئی بھاری سرمایہ کاری ہے، مثال کے طور پر ہم نیٹ ورک نے اپنے مواد کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر منتقل کرنے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ہے اورکیبل ٹیلی ویژن کی طرح آمدنی کے لیے اشتہاروں پر انحصار نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستان سے بھارتی انٹرٹینمنٹ پلیٹ فارم ‘زی فائیو‘ کو ادائیگیوں پر پابندی

ہم نیٹ ورک کی سالانہ رپورٹ برائے 2019ء کے مطابق ”پاکستان میں بڑھتے ہوئے برانڈ بینڈ صارفین اور دنیا بھر کے ناظرین، جو تیزی سے آن لائن ذرائع کا رُخ کر رہے ہیں، کی ضروریات پوری کرنے کے لیے  ایک مربوط ڈیجیٹل وِنگ قائم کیا گیا ہے۔”

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے ”ہم نیٹ ورک پہلا پاکستانی چینل ہے جس کا مواد نیٹ فلکس اور آئی فلکس پر بھی دستیاب ہے اور اروز نائو (ErosNow) کے اشتراک سے یوٹیوب اور ڈیلی موشن پر بھی چینلز چلائے جا ہے ہیں۔”

یہ صرف خوش کُن بیانات ہی نہیں بلکہ یہ حکمت عملی ہم نیٹ ورک کے لیے معاشی طور پر بہت اہمیت رکھتی ہے،31 مارچ 2020ء تک 12 ماہ میں ہم نیٹ ورک نے سبسکرپشن کی مد میں  65 کروڑ 10 لاکھ روپے اور ڈیجیٹل ریونیو کی مد میں 4 کروڑ 30 لاکھ روپے کمائے، اس میں وہ آمدن اور لائسنس فیس بھی شامل ہے جو ہم نیٹ ورک کو اس کا مواد ویڈیو آن ڈیمانڈ سڑیمنگ سروسز بشمول نیٹ فلکس اور آئی فلکس پر دکھائے جانے کے عوض حاصل ہوئی۔

صارفین کی تعداد بڑھنے پر نیٹ فلکس کو کچھ اہم فیصلے بھی لینا پڑے، اس نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی طلب کے پیش نظر اپنی سب سے بڑی بینڈ وڈتھ ختم کر دی، اس اقدام کا مقصد ٹریفک کے دباؤ میں کمی لانا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ نیٖٹ فلکس کو سبسکرائب کر سکیں۔

کیا چیز سٹریمنگ کے رُجحان میں اضافہ کر رہی ہے؟

نیٹ فلکس کو فیملی انٹرٹینمنٹ کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے آپ کو سمارٹ ٹی وی کی بھی ضرورت نہیں، گوگل کروم کاسٹ اور می باکس (Mi Box) جیسی ڈیوائسز کی مدد سے نیٹ فلکس کو عام ٹی وی پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری تاحال طویل اقساط پر مبنی ڈراموں جیسے  پُرانے ماڈل کے تحت ہی چل رہی ہے، اچھے ڈرامے کی ہفتے میں صرف ایک قسط ہی دکھائی جاتی ہے لیکن نیٹ فلکس اور دیگر سٹریمنگ سروسز پر کوئی بھی ڈرامہ مسلسل دیکھا جا سکتا ہے، اسی لیے یہ پاکستان میں بھی باقی دنیا کی طرح مقبول ہے۔

اکٹھے بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا پاکستان میں آج بھی ایک عُمدہ روایت سمجھی جاتی ہے، 1970ء سے 2010ء کے درمیان کی نسلیں وی ایچ ایس ٹیپس اور کیبل یا سیٹلائٹ ٹی وی دیکھتے ہوئے بڑی ہوئی ہیں، ٹی وی سیٹ ویسے بھی اپنی فطرت کے لحاظ سے گروہ کی شکل میں بیٹھ کر دیکھنے کی چیز ہے، مگر نیٹ فلکس نے اس روایت میں کچھ تبدیلی کر دی ہے، زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس نے غیرملکی مواد دیکھنے کے لوگوں کے طریقے کو تبدیل کر دیا ہے۔

آج سے پہلے لوگ چوری شدہ مواد دیکھتے تھے، سالوں تک فلموں اور ڈراموں کی غیرقانونی سی ڈیز اور کیسٹوں کا کاروبار خوب چلتا رہا، ڈیجیٹل دور میں ٹورنٹ اور اشتہارات سے بھرپور آن لائن سٹریمنگ پلیٹ فارمز کا سہارا میسر آ گیا، ایسا اس لیے تھا کیونکہ اصل ذرائع سے مواد دیکھنا کافی مہنگا تھا مگر سٹریمنگ پلیٹ فارمز نے منظرنامہ یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔

ایسا اس لیے ہوا کیونکہ ناصرف دنیا میں کاپی رائٹ کے قوانین سخت ہو گئے بلکہ سٹریمنگ پلیٹ فارمز بھی زیادہ مہنگے نہیں رہے، سٹارز پلے کے سابق ہیڈ آف سٹریٹیجی علی حسن کا پرافٹ سے گفتگو میں کہنا تھا ”صارف سمجھ دار ہے اور مواد دیکھنے کیلئے پیسے دینے کو بھی تیار ہے، اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے مُلک کی آبادی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: خاندانی اور کاروباری جھگڑوں کے باوجود’’ہم نیٹ ورک‘‘ کیسے میڈیا انڈسٹری کا بڑا نام بن گیا؟

انہوں نے کہا کہ ”ہم لوگوں کی بڑی تعداد کو نیٹ فلکس تو فراہم نہیں کرسکتے مگر اس کے سستے متبادل ضرور دے سکتے ہیں، چوںکہ پاکستانی پیسے کے حوالے سے کافی حساس ہیں اور اکثریت کی قوت خرید کم ہے، جلد ہی سٹریمنگ پلیٹ فارم لوگوں کو سستی سروسز فراہم کرنا شروع کر دیں گے جس کی قیمت صارفین کے لیے معنی نہیں رکھے گی۔”

 علی حسن کے مطابق ”ایک سٹریمنگ پلیٹ فارم کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس کی لائبریری میں انواع و اقسام کا تفریحی مواد موجود ہو، اگر وہ مواد دیکھنے کے قابل ہوا تو لوگ اس کے لیے رقم خرچ کرنے کو تیار ہوں گے۔”

قیمت میں لچک کی بات کی جائے تو سٹارز پلے اس بارے میں سب سے بہتر نظر آتا ہے، اس پلیٹ فارم نے اپنی سبسکرپشن فیس کا تعین مقامی آبادی کو مدنظر رکھ کر کیا ہے، صارفین یومیہ آٹھ روپے، ہفتہ وار 59 اور ماہانہ 239 روپے میں اس کی سبسکرپشن حاصل کر سکتے ہیں، قیمتوں کے اس لائحہ عمل سے سٹارز پلے کو کافی فائدہ پہنچا ہے جس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ وباء کے دوران اس کا استعمال چار سو گنا بڑھ گیا تھا۔

تاہم کریڈٹ کارڈز کے ذریعے ادائیگی بھی اکثر پاکستانیوں کے لیے سٹریمنگ پلیٹ فارمز کے انتخاب میں ایک اہم عنصر ہے، ملک کی صرف ایک فیصد آبادی کے پاس کریڈٹ کارڈز ہیں، یہی وجہ ہے کہ بہت سے پلیٹ فارمز اپنی سبسکرپشن یا تو دراز ڈاٹ پی کے یا پھر ٹیلی کام کمپنیوں کے ذریعے فراہم کرتے ہیں۔

سٹارز پلے کے مارکیٹنگ ہیڈ حسن جاوید کا پرافٹ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ”ادائیگیوں کے حوالے سے ہمیں دوسروں پر برتری حاصل ہے، موبائل پیمنٹ کا آپشن مقامی آبادی کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتا ہے اور یہی چیز ہمیں نیٹ فلکس سے ممتاز کرتی ہے، درحقیقت پاکستان میں لوگ نیٹ فلکس کی متعدد سبسکرپشنز خرید کر آگے ان لوگوں کو فروخت کر دیتے ہیں جن کے پاس کارڈز نہیں ہوتے یا جنہیں اس طریقہ ادائیگی سے مسئلہ ہے۔”

پراٖفٹ سے گفتگو میں ایک نیٹ فلکس صارف نے بتایا کہ بین الاقوامی مواد کے لیے وہ نیٹ فلکس، پاکستانی مواد کے لیے یوٹیوب اور خبروں کے لیے نیوز چینلز کی ایپس پر انحصار کرتی ہیں، نیٹ فلکس کے انفرادی اکاؤنٹ کے لیے انہیں اپنے کیبل کنکشن سے کم پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں، نیٹ فلکس پر وہ کبھی بھی اور کہیں بھی کانٹینٹ دیکھ سکتی ہیں نہ کہ صرف اس وقت جب وہ ٹی وی کے سامنے ہوں۔

لیکن یہاں یوٹیوب کی بات کرنا بھی اہم ہے، نیٹ فلکس کی طرح یوٹیوب کو بھی کروم کاسٹ کی مدد سے ٹی وی پر دیکھا جا سکتا ہے، زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تمام ٹیلی ویژن نیٹ ورک اپنے ڈرامے یوٹیوب پر لازمی اَپ لوڈ کرتے ہیں، پچھلے پانچ سالوں سے ٹیلی ویژن کے دور کا اختتام شروع ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے حکومت نے بھی ویڈیو سٹریمنگ سروس  کے میدان میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یوٹیوب تو کافی عرصے سے موجود ہے اور حکومت کا اس کے ساتھ تعلق تنازعات سے بھرپور رہا ہے مگر عام پاکستانی کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ بالکل مفت دستیاب ہے۔

یوٹیوب کے لیے بھی جگہ رکھیں 

یوٹیوب کے ہوتے ہوئے پاکستانی کانٹینٹ دیکھنے کیلئے آپ کو کسی دوسرے پلیٹ فارم کا رُخ نہیں کرنا پڑے گا، کیونکہ تمام پاکستانی ڈرامے یوٹیوب پر اپ لوڈ کیے جاتے ہیں، اگرچہ یوٹیوب میں بفرنگ، ویڈیو کے معیار اور اشتہارات کا مسئلہ درپیش رہتا ہے مگر یوٹیوب ناصرف استعمال میں آسان ہے بلکہ اس کے لیے سائن اَپ، ادائیگی یا کانٹینٹ دیکھنے کیلئے کسی اور اُلجھن کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

علی حسن کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ”پاکستان میں سٹریمنگ سروسز کا مستقبل روشن ہے، عام ٹی وی دنیا بھر میں زوال پذیر ہے، ایسا پاکستان میں بھی ہو گا، مطلب یہ کہ ٹی وی اور کانٹینٹ سپلائی چین ارتقا کے عمل سے گزریں گے اور یہ کام بہت سی جگہوں پر یوٹیوب کی صورت میں ہو بھی رہا ہے، مقامی کانٹینٹ پروڈیوسرز بھی عام ٹی وی کی بجائے سٹریمنگ پلیٹ فارمز کی طرف منتقل ہونا شروع کر دیں گے، بس انہیں اس میں اپنا فائدہ نظر آنے کی دیر ہے۔‘‘

آئندہ دنوں میں زی فائیو پاکستان کے اے آر وائی، ہم نیٹ ورک اور جیو جیسے اداروں کو بھی اپنے سٹریمنگ پلیٹ فارمز بنانے کی طرف راغب کرے گا، ابھی یہ کمپنیاں اپنا کانٹینٹ مفت میں یوٹیوب پر ڈال رہی ہیں مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ ایسا کر کے انہیں بہت کم آمدن ہو رہی ہے اور یہ چیز انہیں سٹریمنگ ویڈیو آن ڈیمانڈ کی طرف دھکیل دے گی، زی فائیو پر ’چڑیلز‘ کی مقبولیت نے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو پہلے ہی خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔

تاہم یوٹیوب سٹریمنگ پلیٹ فارمز پر پاکستانی ڈرامہ سیریلز کی مارکیٹنگ کو مشکل بنا رہا ہے، سٹارز پلے کے مارکیٹنگ ہیڈ حسن جاوید کے مطابق ”پاکستانی کانٹینٹ سٹریمنگ پلیٹ فارمز پر اس لیے اچھی کارکردگی نہیں دکھا پاتا کیونکہ پروڈیوسرز پہلے ہی اسے یوٹیوب پر ڈال چکے ہوتے ہیں مگر ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے شوز ان پلیٹ فارمز پر بڑی تعداد میں دیکھے جاتے ہیں۔”

یہ بھی پڑھیے: سونے کے کاروبار اور سکینڈلز سے میڈیا ایمپائر تک،ARY  گروپ کے مشکوک عروج کی کہانی

مگر موجودہ حکومت یوٹیوب پر پھرسے پابندی لگانے کی کوششوں میں ہے اور ایسے میں ارشد شریف جیسے افراد بلاشبہ چینی ماڈل کی یوٹیوب کے لیے ٹاؤٹ کا کردار ادا کریں گے، دراصل حکومت دیگر تمام آپشنز کو محدود کرکے چاہتی ہے کہ ہم وہ کچھ دیکھیں جسے وہ کنٹرول کرسکے اور ہم اس کے لیے پیسے بھی دیں۔ یہ ناصرف مالی بلکہ بنیادی حقوق کے لحاظ سے بھی خطرناک بات ہے۔

علی حسن کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ”آئندہ دنوں میں نیٹ فلکس، ایمازون اور دیگر سٹریمنگ پلیٹ فارمز کے لیے سینسر شپ کا خطرہ بڑھ رہا ہے، ابھی انہیں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے کیونکہ ایک چھوٹا سا طبقہ ان کا صارف ہے مگر جلد ہی کوئی ان پلیٹ فارمز کے کانٹینٹ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرسکتا ہے۔ سعودی عرب نے حسن منہاج کی ایک قسط پر پابندی لگا دی ہے، سینسرشپ قوانین پاکستان جیسے ملک میں سٹریمنگ سروسز کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں جہاں ٹی وی اور سینما پیمرا قوانین کے تابع ہیں۔”

علی حسن کے مطابق ”ریاست یا حکومت کی مداخلت پاکستانی نیٹ فلکس کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گی، اس میں کوئی شک نہیں کہ قوانین اس صنعت کے لیے نقصان دہ ہوں گے جیسا کہ کئی ایک دوسری صنعتوں کے لیے ہیں۔”

حد سے زیادہ سینسرشپ کی وجہ سے پاکستانی سینما انڈسٹری شدید متاثر ہوئی ہے، وبا سے قبل سینما مالکان کو بھارتی مواد پر پابندی کے باعث اپنے ہالز بھرنے  کیلئے مشکلات کا سامنا تھا۔ 12 نومبر 2020ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان نے بینکوں کو انڈین سٹریمنگ پلیٹ فارمز خاص کر زی فائیو کو ادائیگیاں روکنے کی ہدایت کر دی، ایسا کابینہ ڈویژن کی ملک میں بھارتی کانٹینٹ کو محدود کرنے کی ہدایات کے باعث کیا گیا، اسلامی بنک پہلے ہی نیٹ فلکس یا کسی دوسری سٹریمنگ سروس کو ادائیگیاں نہیں کرتے۔

اسی قسم کی پابندیوں کی وجہ سے ’زندگی تماشا‘ جیسا کانٹینٹ پاکستان میں ریلیز نہیں ہو سکا اور نہ ہی کسی پاکستانی چینل نے ’چڑیلز‘ کو خریدنے سے متعلق غور کیا ہے۔

لیکن اگر حکومت نے پابندیاں لگانے کی اپنی روش برقرار رکھی، جوکہ اس کے طرزعمل اور خواہش کی بنا پر لگتا ہے کہ جاری رہے گی، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے میں پھر پاکستان اپنی سٹریمنگ سروس متعارف کرا پائے گا؟

کیا پاکستانی میڈیا اس تبدیلی کے لیے تیار ہے؟

پاکستانی چینلز کو جس چیز کا ادراک نہیں وہ یہ ہے کہ جب تک یہ اپنا کانٹیٹ یوٹیوب پرمفت فراہم کرتے رہیں گے تب آمدن نہیں ہو سکے گی، اپنے پریمیم کانٹینٹ کو سٹریمنگ پلیٹ فارمز پر ڈالنے سے اُنہیں ناصرف زیادہ ناظرین میسر آئیں گے بلکہ آمدن بھی بڑھے گی۔

بہت سے لوگ پاکستانی کانٹینٹ کا مقابلہ بھارتی کانٹینٹ سے کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی کانٹینٹ کی مارکیٹ بڑی ہے اور یہ بڑی ہی رہے گی کیونکہ بھارت کی آبادی زیادہ ہے، براڈ بینڈ اور ٹیلی کام صارفین کے لحاظ سے بھی ہندوستان کو پاکستان پر برتری حاصل ہے۔

اس کے علاوہ بھارتی انڈسٹری میں پروڈیوس کیا جانے کانٹینٹ پاکستانی انڈسٹری کی نسبت کہیں زیادہ ہے، اسکے علاوہ نیٹ فلکس سمیت دیگر پلیٹ فارمز سمجھے ہیں کہ بھارت میں دکھایا جانے والا کانٹینٹ پاکستان میں بھی دکھایا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں بھارتی کانٹینٹ کی مانگ کافی زیادہ ہے، یہ سچ بھی ہے، نیٹ فلکس کا سیزن ’سیکرڈ گیمز‘ اور ایمازون کا ’مرزا پور‘ دونوں پاکستان میں بھی خاصے مقبول رہے ہیں، ’چڑیلز‘ نے اس تاثر کو مزید تقویت دی حالانکہ وہ ایک نسبتاً چھوٹے پلیٹ فارم پر نشر ہوا۔

صلاحیت و امکانات 

جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ گزشتہ کچھ ماہ  میں نیٹ فلکس کے صارفین کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے، ایسا ہونے کی وجہ صرف وبا ہی نہیں، بلکہ پاکستان بھر میں انٹرنیٹ کی پہنچ کی صورت حال میں بہتری بھی ہے، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2019-20ء میں موبائل صارفین کی تعداد 16 کروڑ 70 لاکھ  اور براڈ بینڈ صارفین کی تعداد 8 کروڑ 30 لاکھ ہے۔ اگرچہ پاکستان میں براڈ بینڈ صارفین کی تعداد کم ہے مگر اس میں اضافہ ہو رہا ہے، اس اضافے کے ساتھ پاکستان میں سٹریمنگ سروسز کی مارکیٹ میں بھی اضافہ ہو گا۔

عالمی سطح پر بھی یہ صنعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق 2017ء سے  2035ء تک اس کی ترقی کی شرح 17 فیصد رہے گی، مارکیٹ میں ایمازون، ایچ بی او، ایپل، ڈزنی، گوگل اور ہُولُو (Hulu) نے بھی انٹری دی رکھی ہے، یہ وہ کمپنیاں ہیں جو یا تو بالکل نئی ہیں یا انہوں نے اپنی سروسز میں اضافہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: کورونا وائرس سے عالمی معیشت کو نقصان، لیکن ٹیکنالوجی کمپنیوں کے وارے نیارے

اچھی بات یہ ہے کہ اس مارکیٹ میں انٹری کے لیے کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ہے، سوائے سرمایے کی دستیابی کے۔ بطور صارف سبسکرپشن تبدیل کرنا بھی کچھ مشکل نہیں کیونکہ اس کے لیے کسی اضافی ڈیوائس کی ضرورت نہیں پڑتی۔

سٹریمنگ سروسز کے میدان میں نئے آنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ نیٹ فلکس کے سب سے آگے ہونے کی ایک وجہ ہے۔ نیٹ فلکس کانٹینٹ کا بادشاہ ہے، 2018ء میں ایمی ایوراڈز میں اس کی 118 نامزدگیاں تھیں اور اس نے ایچ بی او کی 17 برس کی برتری ختم کر دی تھی، نیٹ فلکس پر بہترین موویز، سیریز اور ذاتی کانٹنٹ کافی تعداد میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ یہ صارف کے ڈیٹا اور اینالیٹکس کی مدد سے تجاویز بھی دیتا ہے، اس حوالے سے حریف سٹریمنگ پلیٹ فارمز کو ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ مقامی کلچر کے ساتھ جُڑنے کی صلاحیت کی بدولت نیٹ فلکس اپنا کانٹینٹ نمایاں طور پر مارکیٹ کرنے میں کامیاب ہے، اگرچہ کچھ پاکستانی ڈرامے جیسا کہ ’ہم سفر‘، ’زندگی گلزار ہے‘، ’میری ذات ذرہِ بے نشان‘ اور ’میرے پاس تُم ہو‘ نے بہت مقبولیت سمیٹی اور توجہ کا مرکز بنے رہے مگر یہ اپنے سکرین ٹائم سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکے۔

ایک دفعہ دیکھے جانے پر کسی سیریز کے دوبارہ دیکھے جانے کے امکانات قدرے کم ہوتے ہیں، لہٰذا پاکستان میں ری براڈ کاسٹنگ بہت کم کی جاتی ہے، ماسوائے کہ چینلز کسی ڈرامے کو دوبارہ نشر کر دیں، بہت کم ڈرامے ایسے ہیں، جیسا کہ ّالفا براوو چارلیٗ میں وہ کرشمہ ہے کہ اسے دوبارہ بڑے پیمانے پر دکھایا جا سکتا ہے۔

بد قسمتی سے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کو لگتا ہے کہ کانٹینٹ کی ورائٹی وہ چیز ہے جس کی بدولت لوگ سڑیمنگ پلیٹ فارمز کی سبسکرپشن حاصل کر رہے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے، صرف پاکستانی کانٹینٹ یا اخلاقی پابندیوں کے تحت بنایا جانے والا کانٹینٹ ناظرین اور آمدنی نہیں لائے گا، تاہم قواعد میں نرمی اور ڈیجیٹل کانٹینٹ کی حوصلہ افزائی سے یہ انڈسٹری خاطر خواہ آمدنی کے علاوہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کر سکتی ہے لیکن اگر حکومت  کی جانب سے سینسرشپ اور اپنے شہریوں کو زبردستی کچھ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر ایسا ہونا ممکن نہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here