’حکومت پولٹری کی قیمتوں کا تعین کھلی منڈی میں طلب و رسد کی بنیاد پر کرنے دے‘

1122

لاہور: پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن (پی پی اے) نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کھلی مارکیٹ کو کام کرنے کی اجازت دے اور قیمتوں کا تعین طلب و رسد کی بنیاد پر کرنے دے۔

پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن (نارتھ ریجن) کے وائس چئیرمین عتیق الرحمان عباسی نے کہا ہے کہ پولٹری سیکٹر گوشت کی ضروریات کا 40 فیصد پورا کرتا ہے اور یہ سیکٹر ملک میں پروٹین کی ضروریات پوری کرنے کیلئے مرغیوں کے گوشت اور انڈوں کی صورت میں انتہائی کم قیمت پر معیاری خوراک مہیا کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولٹری انڈسٹری کا سالانہ 800 ارب روپے سے زائد کا کاروبار ہوتا ہے اور 15 لاکھ افراد کا بالواسطہ یا بلا واسطہ روزگار اس شعبے سے وابستہ ہے۔

عتیق الرحمان عباسی نے مزید کہا کہ پولٹری سیکٹر سالانہ اعتبار سے 1322 ملین کلوگرام چکن اور 17500 ملین انڈے پیدا کر رہی ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ سیکٹر اپنے قیام سے لے کر اب تک عوام وخواص کو سستے داموں گوشت، انڈے اور دیگر پولٹری مصنوعات فراہم کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولٹری مصنوعات کے نرخوں کا دارومدار طلب و رسد کے طریقہ کار پر ہوتا ہے، پولٹری مصنوعات زیادہ تر لمبے عرصے کیلئے محفوظ نہیں کی جا سکتیں، اسی لیے ان مصنوعات کو جلد فروخت کرنا لازم ہوتا ہے، اس لیے زیادہ تر پولٹری فارمرز کو پیداواری لاگت سے بھی کم قیمت پر فروخت کرنا پڑتی ہیں

ریجنل سیکرٹری میجر (ر) سید جاوید حسین بخاری نے کہا کہ پولٹری کا کاروبار کرنے والے افراد گزشتہ چھ ماہ سے ایک دن کی دیکھ بھال کے بعد چوزے چار روپے سے 20 روپے تک اور مرغیاں 90 سے 130 روپے تک فروخت کر رہے ہیں تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ چوزوں اور مرغیوں کی ایک دن کی پیداواری لاگت بھی بالترتیب 45 روپے اور 160 روپے تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولٹری ایسوسی ایشن حکومت کو بارہا باور کرا چکی ہے کہ جاری صورت حال کے باعث پولٹری مصنوعات کا بحران پیدا ہونے کے علاوہ پیداوار میں بھی کمی ہو گی جس کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔

جاوید بخاری نے کہا کہ انہوں (ایسوسی ایشن) نے حکومت کو کھلی منڈی میں مداخلت سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا اور بتایا تھا کہ رسد کی بنیاد پر قیمتوں میں اضافہ جزوی ہو گا اور یہ بتدریج بڑھ جائے گی، لیکن حکومت کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی، ہماری درخواست پر کان نہیں دھے گئے جس کے نتیجے میں پولٹری فارمرز کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here