حکومت کی غفلت سے سالانہ پونے آٹھ لاکھ ٹن آٹا ضائع ہونے لگا

آٹا ضائع ہونے کی مقدار سالانہ چار لاکھ 60 ہزار سے سات لاکھ ا68 ہزار ٹن بنتی ہے جس کی مالیت 34.56 ارب روپے سے 57.60 ارب روپے ہے، یہ نقصان گندم کی کاشت کے رقبے کے لحاظ سے دو لاکھ 76 ہزار سے چار لاکھ 60 ہزار ہیکٹرز کے برابر ہے

670

اسلام آباد: ایک ایسے وقت میں جب ملک میں آٹے کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور گندم درآمد کرنا پڑ رہی ہے، یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے آٹے کی پیکنگ کیلئے معیاری تھیلے استعمال نہ کرنے کے باعث سالانہ سات لاکھ ستر ہزار ٹن آٹا ضائع ہو جاتا ہے۔

پاکستان پولی پروپلائن وون سیک مینوفیکچررنز کی جانب سے وزارتِ صنعت و پیداوار کو بھیجے گئے ایک خط کے مطابق پاکستان سٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے) کے مقرر کردہ معیار کے حامل تھیلوں کے عدم استعمال کی وجہ سے ملک میں بڑی مقدار میں گندم کا آٹا خراب ہو جاتا ہے۔

سٹینڈرڈز اتھارٹی کی جانب سے خوراک کو محفوظ کرنے کے لیے پولی پروپلائن گریڈ کے لیمینیشن تھیلوں کو ملک میں آٹے کی سپلائی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

تاہم سیک مینوفیکچررز (sack menufacturers) کی جانب سے وزیراعظم اور وزیر صنعت و پیداوار کو خط کے ذریعے شکایت کی گئی ہے کہ ملک میں نان لیمینیٹڈ بوریوں کے استعمال کے باعث سالانہ تین سے پانچ فیصد آٹا ضرورت مندوں تک پہنچنے سے قبل ہی ضائع ہو رہا ہے کیونکہ باریک اور غیر معیاری تھیلے پھٹنے یا نمی جذب کرنے کی وجہ سے آٹا خراب ہو جاتا ہے جو پھر ضائع کرنا پڑتا ہے۔

لیمینیٹڈ تھیلوں کے مینوفیکچررز نے ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ صارفین کے گھروں میں پہنچتے تک 20 کلوگرام آٹے کے بیگ میں سے کم از کم آدھا کلو کم ہو جاتا ہے جس کی وجہ غیرمعیاری تھیلوں کا استعمال ہے، اس وجہ سے صارف کو فی تھیلا 20 سے 30 روپے تک نقصان ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

وفاقی کابینہ نے گندم کی امدادی قیمت 1650 روپے فی من مقرر کر دی

دسمبر تک پبلک سیکٹر 16 لاکھ ٹن، نجی سیکٹر 10 لاکھ ٹن گندم درآمد کرے گا: وزارت خوراک

اس تحقیق کے مطابق آٹا ضائع ہونے کی مقدار سالانہ چار لاکھ 60 ہزار سے سات لاکھ ا68 ہزار ٹن بنتی ہے جس کی مالیت 34.56 ارب روپے سے 57.60 ارب روپے سالانہ ہے، یہ نقصان گندم کی کاشت کے رقبے کے لحاظ سے دو لاکھ 76 ہزار سے چار لاکھ 60 ہزار ہیکٹرز کے برابر ہے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ترسیل اور انتظام کو بہتر بنا کر اور اس کا ضیاع روک کر بڑی مقدار میں آٹا محفوظ کیا جا سکتا ہے کیونکہ گندم بحران کے دوران یہ ضروری ہے کہ غذائی قلت سے بچنے کیلئے ہم جتنا ہو سکے آٹا بچائیں۔ پاکستان ان سات ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں دوتہائی آبادی خوراک کی قلت کے باعث ٹھیک نشوونما نہ ہونے جیسے مسائل کا شکار ہے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ پاکستان میں آٹے اور گندم کے تھیلوں کو نان فوڈ گریڈ کے عدم استعمال کے باعث غیرقانونی قرار دیا گیا ہے کیونکہ پی ایس کیو سی اے نے پہلے ہی فوڈ گریڈ کے استعمال کو لازمی قرار دیا ہے، ان تھیلوں کا ایک حصہ لیمینیٹڈ اور دوسرا ووین پولی پروپلائن ہونا ضروری ہے۔

منیوفیکچررز کی جانب سے وزارتِ فوڈ سکیورٹی کو بھی خط لکھا گیا ہے جس میں نان فوڈ گریڈ اور فوڈ گریڈ تھیلوں کے درمیان قیمت کا فرق واضح کیا گیا ہے جو صرف فی تھیلا 0.22 کلوگرام ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ لاہور، کراچی اور راولپنڈی جیسے ملک کے بڑے شہروں میں آٹے کے تھیلوں اور دیگر اشیائے خورونوش کی پیکنگ غیرمعیاری انداز میں کی جاتی ہے اور پی ایس کیو سی اے کے نوٹی فکیشن پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے بڑی تعداد میں شہریوں کو سنگین بیماریوں کا خطرہ لاحق ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here