اسلام آباد: مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) کا کراچی میں آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (اے پی سی ایم اے) کے چئیرمین اور وائس چئیرمین کے دفاتر پر چھاپہ، دورانِ کارروائی ایسوسی ایشن کے اہم ریکارڈ قبضے میں لے لیے۔
حکام کے مطابق سیمنٹ مینوفیکچررز پر ممکنہ مسابقت مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا شبہ ہے جس کے پیش نظر سی سی پی نےکمپیٹیشن ایکٹ 2010 کی دفع 34 کے تحت کارروائی، سی سی پی نے مئی میں مسابقت مخالف سرگرمیوں کے خلاف انکوائری کا آغاز کیا تھا۔
سی سی پی کی دو مختلف ٹیموں نے چئیرمین اور وائس چئیرمین اے پی سی ایم اے کراچی کے دفاتر میں داخل ہو کر تلاشی لی اور دورانِ کارروائی اہم دستاویزات قبضے میں لے لیے۔
میڈیا کی مختلف رپورٹس کے ذریعے اکٹھی کی گئی معلومات کی بنیاد پر سیمنٹ سیکٹر میں انکوائری کا آغاز کیا گیا، رپورٹس میں اپریل 2020 کے دوران سیمنٹ کی قیمتوں میں اضافے کی شکایات اور تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے:
فوجی سیمنٹ کو فروخت کی مد میں ڈبل فگر گروتھ کی اُمید
مسابقتی کمیشن کی کارروائیاں سرمایہ کاری کیلئے نقصان دہ : سیمنٹ مینوفیکچررز
رپورٹس میں نشاندہی کی گئی کہ سیمنٹ کی قیمت میں فی بوری 45 سے 55 روپے اضافہ کا فیصلہ بظاہر اے پی سی ایم کے تحت ہونے والے سیمنٹ مینوفیکچررز کے اجلاس میں کیا گیا۔
24 ستمبر 2020 کو سی سی پی نے اے پی سی ایم اے کے مرکزی دفتر کے ساتھ ساتھ اے پی سی ایم اے کے ایگزیکٹو کمیٹی (لاہور میں سیمنٹ کی بڑی کمپنی کے اہم اور سینئر ملازم) کے سینئر وائس چئیرمین کے دفتر کی بھی چھان بین کی۔
قبضے میں لیے گئے ریکارڈ میں واٹس ایپ میسجز اور ای میلز شامل ہیں، جس کے ذریعے ساؤتھ زون میں کی گئی چھان بین کے ساتھ حاصل ہونے والے شواہد سے متعلق مسابقت مخالف سرگرمیوں کا پتا چلے گا۔
لاہور میں اکٹھے کیے گئے شواہد سے سیمنٹ مینوفیکچررز کے درمیان ممکنہ کارٹیل یا مجموعی ملی بھگت کا شبہ ہے۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ سیمنٹ سیکٹر میں ملی بھگت کی سرگرمیاں کئی بار سامنے آئیں ہیں، مینوفیکچررز کو ماضی میں ایکٹ کے سیکشن 4 کی خلاف ورزی پر مجموعی طور پر 6.3 ارب سے زائد مالیت کی کارٹیل اور غیرقانونی معاہدوں میں ملوث ہونے کے الزام میں سزا دی گئی تھی۔
2012 میں بھی کمیشن نے دوبارہ سے سیمنٹ کمپنیوں کے خلاف انکوائری کا آغاز کیا تھا، تاہم، لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سیمنٹ کمپنیوں کو حکمِ امتناع دینے کی وجہ سے مزید کارروائی نہ کی جاسکی۔ 2020 میں ایک بار پھر سے انکوائری کا آغاز کیا گیا ہے۔