فیصل آباد : پاکستان کے ٹیکسٹائل کے سب سے بڑے مرکز میں اِن دنوں زبردست کاروباری اور معاشی سرگرمیوں جاری ہیں، شہر میں بند پڑی پچاس ہزار پاور لومز چل پڑی ہیں جب کہ تیس ہزار دیگر پاور لومز کے بھی جلد فعال ہونے کا امکان ہے۔
1990 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ملکی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو اس قدر کاروباری و معاشی ماحول ملا ہے، انڈسٹری اپنی پوری صلاحیت کے مطابق کام کر رہی ہے اور اسے غیرمعمولی تعداد میں بیرون ممالک سے آرڈرز مل رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے صنعتوں کے لیے بجلی کے رعایتی پیکج کے اعلان کا بھی ٹیکسٹائل انڈسٹری پر خوشگوار اثر پڑا ہے۔
اُدھر وزیراعظم عمران خان نے بھی اس حوالے سے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر میڈیا کی خبر شئیر کی ہے جس میں فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں معاشی سرگرمیوں کے بڑھنے اور دو لاکھ مزدوروں کی کمی بارے بتایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ سابق حکومتوں کی عدم توجہی کے باعث فیصل آباد میں بڑی تعداد میں پاور لومز بند ہو گئیں تھیں مگر حریف ممالک میں کورونا کی صورت حال کے باعث انڈسڑی بند ہونے اور پاکستان میں وبا کی صورت حال میں بہتری پر جلد لاک ڈاؤن ختم کرنے سے بیرون ملک سے آرڈرز پاکستان کو منتقل کر دیے گئے ہیں جس سے ملک کے ٹیکسٹائل مرکز میں معاشی سرگرمیاں تیز ہو گئیں ہیں اور بند لومز کی بڑی تعداد نے دوبارہ کام شروع کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
بعد از کورونا پاکستانی برآمدات جنوبی ایشیا میں حریف ممالک پر سبقت لے گئیں، مگر کیسے؟
چین، بھارت کے بجائے بڑے عالمی برانڈز پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا رُخ کیوں کر رہے ہیں؟
اس خوشگوار صورت حال کے حوالے سے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے سیکرٹری جنرل شاہد ستار کا بلوم برگ سے بات چیت میں کہنا تھا کہ ” گارمنٹس مینوفیکچررز اپنی پوری صلاحیت کے مطابق کام کر رہے ہیں اور وہ اگلے چھ ماہ تک مزید آرڈرز لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔”
یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ پاکستان کی جانب سے کورونا کے حوالے سے عائد پابندیاں ہٹانے میں جلدی کی وجہ سے ملک کی برآمدات اس کے جنوبی ایشیائی حریفوں کی نسبت تیزی سے سنبھلی ہیں اور ان برآمدات میں بڑا حصہ ٹیکسٹائل کے شعبے کا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن اُٹھانے میں جلدی اور صنعتوں کو کھلنے کی اجازت دینے کی بدولت ستمبر میں پاکستانی برآمدات میں سات فیصد جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ شپ منٹس میں بلترتیب چھ اور ساڑھے تین فیصد اضافہ ہوا۔