اسلام آباد: قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ فروری 2019ء میں پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے پاکستانی کھجوروں کی درآمد پر 200 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی تھی جس کے باعث وزارت تجارت نے برآمدات کو متبادل منڈیوں میں بھیجنے کے انتظامات کئے ہیں۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں سید جاوید علی شاہ جیلانی کے سوال پر وزارت تجارت کی طرف سے ایوان کو آگاہ کیا گیا ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر کھجور پیدا کرنے والے 10 بڑے ملکوں میں سے پانچویں اور کھجور کی برآمدات کے حوالے سے آٹھویں نمبر پر ہے، پاکستان میں کھجور کی 300 سے زائد اقسام پیدا کی جاتی ہیں جبکہ اس کی سالانہ پیداوار پانچ لاکھ 40 ہزار ٹن کے قریب ہے۔
ایوان کو بتایا گیا کہ ملکی اور بین الاقوامی منڈیوں میں پاکستانی کھجور کی طلب خاصی مستحکم ہے مگر یہ رسمی طور پر بہت کم منڈیوں تک ہی محدود رہی ہے۔ ملک کی خشک کھجور کا سب سے زیادہ حصہ بھارتی منڈیوں میں جاتا تھا۔
پلوامہ حملے سے قبل بھارت 90 فیصد سے زیادہ کھجور پاکستان سے درآمد کر رہا تھا، حملے کے بعد بھارت نے پاکستانی کھجور پر دو سو فیصد ڈیوٹی عائد کر دی، پاکستانی کسان اور برآمد کنندگان اس ڈیوٹی کی وجہ سے بھاری خسارے کے دھانے پر کھڑے رہے تاہم وزارت تجارت کی بروقت مداخلت پر ان برآمدات کو متبادل غیر رسمی منڈیوں میں بھیجا گیا۔
ایوان کو بتایا گیا کہ نئی منڈیوں کی تلاش کے لئے کافی اقدامات کئے گئے ہیں۔ ہارٹی کلچر ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ کمپنی اور ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے اشتراک سے جامع روڈ میپ تیار کیا گیا ہے۔ مختلف ممالک میں تجارتی وفود اور نمائشوں میں شرکت اس روڈ میپ کا حصہ ہے۔ اس وقت کسی بھی ملک میں کھجور کی برآمد پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد اگست 2019ء کو بھارت کے ساتھ فارما سیوٹیکل مصنوعات کے علاوہ تجارت بند کر دی گئی ہے۔