اسلام آباد: وفاقی وزارت منصوبہ بندی، ترقی وخصوصی اقدامات کے ترجمان نے سی پیک اتھارٹی بل 2020ء میں چیرمین سی پیک اتھارٹی اور دیگرافسران کو قومی احتساب بیورو (نیب) و وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیات سے مبراء قراردینے کی خبر کو گمراہ کن، بے بنیاد، بے محل اور حقائق کے منافی قراردیا ہے۔
ترجمان نے کہا ہے کہ استثنیٰ کی شقیں متعدد قوانین کا حصہ ہیں جو پیپرا آرڈی نینس، اوگرا آرڈی نینس ، اے ای ڈی بی ایکٹ 2010ء ، مسابقتی کمیشن ایکٹ اور پی پی پی اے ایکٹ سمیت اسی طرح کے دیگر قوانین میں بھی موجود ہیں۔
وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں ترجمان نے کہا کہ پریس کے بعض حصوں میں یہ خبرچھپی ہے کہ سی پیک اتھارٹی بل 2020ء سے چیرمین سی پیک اتھارٹی اور دیگر افسران کو نیب اور ایف آئی اے کی تحقیات سے مبراء قرار دیا گیا ہے ، یہ خبر گمراہ کن ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ خبر میں ممکنہ طور پر بل کے سیکشن 23 کا حوالہ دیا گیا ہے جو اسی طرح کے دیگر قوانین میں ایک معیاری شق ہے جس میں مذکورہ قوانین کے تحت حکام کی جانب سے نیک نیتی سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: حکومت کا سی پیک اتھارٹی کیلئے نیا قانون لانے کا فیصلہ
ترجمان نے کہا کہ استثنیٰ کی یہ شق پیپرا آرڈی نینس 2002ء (سیکشن23 )، اوگرا آرڈی نینس 2002ء (سیکشن 39 )، اے ای ڈی بی ایکٹ 2010ء (سیکشن 21 )، مسابقتی کمیشن ایکٹ 2010ء (سیکشن 48) اور پی پی پی اے ایکٹ 2010ء (سیکشن 26) سمیت اسی طرح کے دیگر قوانین میں بھی موجود ہے۔
ترجمان وزارت منصوبہ بندی نے کہا کہ خبروں میں جس شق کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سی پیک اتھارٹی آرڈی نینس 2019ء کا حصہ ہے جو اکتوبر 2019ء میں جاری ہوا اور یہ کوئی نئی شق نہیں ہے، یہ شق اسی طرح کے دیگر قوانین کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اس شق سے متعلق قیاس آرائیاں بے بنیاد، بے محل، حقائق کے منافی اور گمراہ کن ہیں۔
سی پیک اتھارٹی آرڈی نینس 2020ء کیا ہے؟
واضح رہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کی تکمیل کا عمل تیز کرنے کیلئے حکومت نے سی پیک اتھارٹی آرڈی نینس 2020ء متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے مسودہ کی منظوری کابینہ کمیٹی آن ڈسپوزل آف لیجسلیٹو کیسز (سی سی ایل سی) پہلے ہی دے چکی ہے جسے قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل وفاقی کابینہ سے بھی منظور کرایا جائے گا۔
سی پیک اتھارتی کا قیام ایک آرڈی نینس کے ذریعے 5 اکتوبر 2019ء کو عمل میں آیا تھا اور اس کا مقصد سی پیک منصوبوں کی نگرانی اور اس حوالے سے مختلف محکموں کے درمیان رابطہ کاری کو ممکن بنانا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: ماضی میں ’زندہ انسانوں کا قبرستان‘ کہلانے والا جلوزئی مہاجر کیمپ اب خصوصی اقتصادی زون میں بدل رہا ہے
ذرائع نے بتایا کے نئے مسودہ قانون میں سی پیک اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او) کا عہدہ ختم کرنے، فیصلہ سازی کے عمل میں چیئرمین کے اختیارات میں کمی اور سی پیک بزنس کونسل کی تشکیل کیلئے اتھارٹی کے اختیارات ختم کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔
مجوزہ قانون کے مطابق ’اتھارٹی کسی بھی شخص، ادارے یا تنظیم سے سے مطلوبہ معلومات حاصل کر سکتی ہے جو سی پیک سے کسی بھی طرح منسلک رہا ہو، یہ معلومات اتھارٹی کے مقرر کردہ وقت کے اندر مہیا کرنا لازم ہو گا۔‘
اسی طرح سی پیک اتھارٹی اپنے کام کے حوالے سے کسی بھی سرکاری دفتر، اتھارٹی یا ادارے سے مدد طلب کر سکتی ہے، صوبائی حکومتوں اور وفاق کے زیر انتظام علاقوں کے مقرر کردہ نمائندوں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے جن کا تقرر صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہو گی۔
مسودہ قانون میں تجویز دی گئی ہے کہ سی پیک اتھارٹی کے اجلاسوں کیلئے کورم کل ارکان کی دو تہائی تعداد پر مشتمل ہو گا جبکہ تمام فیصلے اکثریتی رائے سے ہوں گے۔
سی پیک اتھارٹی کو مشاورت فراہم کرنے کیلئے بورڈ آف انویسٹمنٹ کے نوٹی فکیشن کے بعد سی پیک بزنس کونسل قائم کی جائے گی، سرمایہ کاری بورڈ مذکورہ کونسل کیلئے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرے گا۔ اس حوالے سے پہلے ہی نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز کمیشن آف چائنا اور پاکستان کی وزارت منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات کے مابین مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں۔
یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ سی پیک اتھارٹی کو سنگل لائن بجٹ فراہم کیا جائے گا اور اس کا چیئرپرسن ہی بطور اکائونٹنگ آفیسر کام کردار ادا کرے گا، بجٹ پر تین رکنی کمیٹی نظرثانی کرے گی، جبکہ اتھارٹی فنانس ڈویژن کے قواعد کے مطابق سی پیک فنڈ بھی قائم کرنے کی مجاز ہو گی۔
اتھارٹی اپنے بجٹ اور اخراجات کا مصدقہ چارٹرڈ اکائونٹنٹ یا ایسی ہی کسی فرم سے سالانہ آڈٹ کرانے کی ذمہ دار ہو گی۔ مجوزہ مسودہ قانون وزیراعظم آفس کو بھیجا گیا تھا جہاں سے اسے کابینہ کے اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔