اسلام آباد: وفاقی وزیر بجلی و پٹرولیم عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ مہنگی بجلی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی وجہ سے ہے، سابقہ حکومتوں نے بجلی کے شعبے میں غلط معاہدے کئے اور ملک کے ساتھ ظلم کیا، مسلم لیگ (ن) نے اپنے دور میں بجلی کا ٹیرف جان بوجھ کر نہیں بڑھایا ، 2030 تک انرجی مکس میں قابل تجدید توانائی کا حصہ 30 فیصد اور ہائیڈل کے ساتھ ملا کر 60 فیصد تک لے جائیں گے۔
جمعرات کو ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر بہرہ مند تنگی اور دیگر ارکان کے سوالات کے جواب میں وزیر توانائی عمر ایوب خان نے کہا کہ سابق حکومت نے دو سال تک بجلی کا ٹیرف نہیں بڑھایا اور جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو اس وقت گردشی قرضہ 450 ارب روپے سے بڑھ گیا تھا، بجلی کی قیمت ہمیں 3.29 روپے فی یونٹ اس وقت بڑھانی تھی لیکن ہم نے صارفین کی سہولت کے لئے یکم جنوری 2019ء کو 1.29 روپے فی یونٹ کا مجبوراً اضافہ کیا کیونکہ گردشی قرضہ تیزی سے بڑھ رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کیپسٹی چارجز کی ادائیگی کے معاہدے بھی سابق حکومتوں نے کئے تھے، مسلم لیگ (ن) اور دیگر حکومتوں نے غلط معاہدے کئے اور ملک کے ساتھ ظلم کیا، ہم نے آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کا عمل مکمل کر لیا ہے، ہم مسابقتی مارکیٹ بڑھانے کے لئے کام کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
گردشی قرضہ کیا ہے اور یہ کیوں ختم نہیں ہو رہا؟
’بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2100 ارب سے زائد ہو گیا‘
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ سابق حکومت نے ایل این جی کی درآمد شروع کی اور ملک میں ایل این جی سے چلنے والے چار بجلی گھر لگائے اور انہیں اس بات کا پابند بنایا کہ انہیں ہر صورت میں ایل این جی حاصل کرنا پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی بجلی خریدتی ہے، ہم اس اجارہ داری کو بھی توڑنے جا رہے ہیں اور مختلف کمپنیاں اور صارفین بجلی کی خریداری کے عمل میں شریک ہو سکیں گے۔ تین سے پانچ سال میں یہ کام مکمل ہو جائے گا، اس سے انرجی مارکیٹ میں شفافیت آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق حکومت نے انرجی مکس بھی تبدیل نہیں کیا اور ملک کے مستقبل کو گروی رکھ دیا، ہم قابل تجدید توانائی کا حصہ انرجی مکس میں 2025ء تک 20 فیصد اور 2030ء تک 30 فیصد تک لے جائیں گے جبکہ ہائیڈل پاور کو ملا کر یہ 60 فیصد تک پہنچ جائے گا۔
وزیر توانائی نے کہا کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے بھی کام ہو رہا ہے، ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمیشن سسٹم کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے پہلے گردشی قرضے میں تیزی سے کمی آ رہی تھی اور ہم اسے 14 سے 15 ارب روپے ماہانہ تک لے آئے تھے، رواں سال 31 دستمبر تک ہم نے اسے مزید کم کرنا تھا لیکن کورونا وائرس، فیول پرائس ایڈجسمنٹ اور دیگر وجوہات کی بنا پر مسائل پیدا ہوئے تاہم ہم گردشی قرضے کو کم کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔
ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹرز کے سوالات کے جوابات میں وفاقی وزیر بجلی و پٹرولیم عمر ایوب نے کہا کہ سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے نقصانات 15 فیصد اور سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے نقصانات 11 فیصد سے زائد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں گیس پائپ لائنز بہت پرانی ہیں، کوئٹہ اور کراچی میں ہم یہ تبدیل کر رہے ہیں کیونکہ ان سے لیکج ہوتی ہے، کرک میں پائپ لائنز سابق دور میں لگائی گئیں لیکن مقامی لوگوں کو حق نہیں دیا گیا، اب ہم 9 ارب روپے کی پائپ لائنز بچھا رہے ہیں، ان کا افتتاح بھی ہو چکا ہے۔
عمر ایوب نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں سی پیک کے تحت بجلی کی پیداوار کے دو نئے منصوبے لگائے جائیں گے، خالص پن بجلی منافع اے جی ایم قاضی فارمولے کے تحت دیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پن بجلی منصوبوں کو مکمل کرنے پر زیادہ وقت درکار ہوتا ہے اور ریکوری کاسٹ بھی زیادہ ہوتی ہے، شروع میں ہائیڈل بجلی مہنگی جبکہ قرضوں کی ادائیگی کے بعد سستی ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ تربیلا ڈیم بھی اپنی قرضوں کی ادائیگی کر چکا ہے جس کی وجہ سے وہاں سے سستی بجلی مل رہی ہے، تربیلا ڈیم کی وجہ سے ہمارے ضلع کے 123 دیہات کو قربانی دینا پڑی، خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ہماری بات ہوئی ہے، سی پیک کے تحت دو نئے منصوبے خیبرپختونخوا میں لگائے جائیں گے جس سے صوبے کے عوام کو بجلی کی فراہمی میں بہتری آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ آج اگر ہم 70 فیصد درآمدی ایندھن (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کی وجہ سے درآمد کر رہے ہیں، پہلی بار ہم نے دیامر بھاشا ڈیم کے لئے فنڈز مختص کئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قوم کو چوری چکاری کے بارے میں بتانا ہمارا فرض ہے، مہنگی بجلی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی وجہ سے ہے اور یہ انہی کی مہربانیاں ہیں، ہم نے سولر اور ونڈ انرجی کا ٹیرف کم کیا ہے، بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کریں گے، اس کے علاوہ جنوبی بلوچستان میں آف گرڈ بجلی کی سہولت فراہم کرنے کے لئے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں، جس سے 14 سے 15 لاکھ لوگوں کو فائدہ ہو گا۔