نئی صدی کے آغاز پر دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوئی، دیوار برلن گر چکی تھی، برطانیہ کی وزیراعظم مارگریٹ ٹھیچر اور امریکی صدر رونالڈ ریگن جہان فانی سے کوچ کر چکے تھے، سرد جنگ ختم ہو گئی تھی اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھر چکا تھا مگر پھر نائن الیون کے افسوسناک سانحے نے دنیا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتار دیا۔
پاکستان نے اس جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے میں دیر نہیں لگائی اور اس انسداد دہشتگردی کے عالمی معرکے کا ایک میدان اس کے مغرب یعنی افغانستان میں سج گیا۔ اگرچہ دنیا 9 ستمبر 2001ء کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر حملوں کے بعد سنبھلنے کی کوشش میں تھی مگر یہ وہ وقت تھا جب پاکستان اور امریکا کے درمیان ایک اور اتحاد کی تلخ یادیں دوبارہ سے لوٹ آئیں۔
جس وقت سات ہزار میل دور نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہوا، اس وقت بھی جلوزئی مہاجر کیمپ پاکستان اور امریکا کے مس ایڈونچرز کی بھنیٹ چڑھے ہزاروں افغانیوں کو پناہ دیے ہوا تھا۔
ایک وقت تھا جب یہ کیمپ 1979ء میں سوویت یونین کی افغانستان پر جارحیت سے اپنی جان و مال محفوظ بنا کر پاکستان ہجرت کرنے والے 80 ہزار افغان باشندوں کی پناہ گاہ تھا، گزرتے سالوں میں یہ کیمپ ان مسائل کی وجہ سے مشہور ہوا جن کا اس کے رہائشیوں کو سامنا تھا مگر اب اپنے قیام کی چار دہائیوں بعد یہ خیبرپختونخوا کی دوسری بڑی ہاؤسنگ سکیم بننے جا رہا ہے جس کا رقبہ ایک ہزار 200 ایکڑ ہے، جہاں کبھی جھونپڑیوں پر مشتمل بستی تھی اور زندگی کسی زندان جیسی تھی وہاں آئندہ دنوں میں جدید گھر ہوں گے جن میں بجلی، پانی اور دوسری تمام جدید سہولیات میسر ہوں گی۔
ایک ایسا علاقہ جسے کبھی پاکستان میں ‘زندہ لوگوں کا قبرستان’ کہا جا تا تھا اس کی ترقی کا یہ زبردست پلان تلخ و سیاہ دنوں کے خاتمے کی بنیاد بنے گا مگر جلوزئی کیمپ کی قسمت میں یہ موڑ آیا کیسے اور حکومت کے پاس اس قابل رحم صورت حال کے حامل علاقے کی حالت زار بدلنے کا کیا منصوبہ ہے اور اسے کس طرح عملی جامہ پہنایا جائے گا؟ پرافٹ اردو نے اس مضمون میں جلوزئی کی تاریخ اور اب اس کی حالت بدلنے کے مجوزہ منصوبے یعنی یہاں صوبے کی دوسری بڑی ہاؤسنگ سکیم کے قیام کے پراجیکٹ اور اس کے ممکنہ فوائد کا جائزہ لیا ہے۔
پریشان کن تاریخ
فروری 2002ء میں اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق کمیشن (UNHCR) نے اس بدنام زمانہ مہاجر کیمپ کی بندش کا اعلان کیا اور اس کیمپ میں رہائش پذیر آخری ایک ہزار 570 مہاجرین کی دوسرے کیمپوں میں منتقلی، جو پاک افغان سرحد کے قریب قائم کیے گئے تھے، کے نتیجے میں یہاں دہائیوں پر مبنی مصائب بھری قابل ترس زندگی کا اختتام ہو گیا۔
اس کیمپ کی خراب حالت کا اندازہ چھوٹی سی جگہ پر مہاجرین کی بڑی تعداد کو آباد کرنے سے متعلق سوچ کر لگایا جا سکتا ہے۔ سوویت جارحیت کے بعد 20 لاکھ افغان مہاجرین نے پاکستان ہجرت کی جنہیں تقریباً ڈیڑھ سو کیمپوں میں ٹہرایا گیا ان میں سے سب سے بڑا کیمپ جلوزئی تھا جہاں اسی ہزار مہاجرین کو ٹہرایا گیا تھا۔
پشاور سے صرف 40 کلومیٹر دور قائم کیے گئے اس کیمپ میں گنجائش سے زیادہ افراد قیام پذیر ہوئے، اس حوالے سے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین کے سینئیر ایمرجنسی آفیسر محمد عدیر کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ ”( اس کیمپ میں) اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو ٹھونسا گیا تھا کہ رہائش کے لیے اور لیٹرین سمیت دیگر ضروریات کے لیے بھی جگہ نہیں بچی تھی ۔”
ہزاروں افغان مہاجرین کے لیے ان کیمپوں میں رہنا ایک تلخ تجربہ تھا جہاں ضرورت سے زیادہ افراد کو ٹہرایا گیا تھا اور پینے پانی، نکاسی آب اور دیگر سہولتیں موجود نہیں تھیں، ان کیمپوں کے طرز زندگی کے باعث یہاں ٹی بی ، خسرہ اور گردن توڑ بخار جیسے موذی امراض کے بے قابو پھیلاؤ کا خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جلوزئی میں حالات مزید ابتر ہوتے رہے، کیمپ میں کام کرنے والی واحد تنظیم ‘ ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز’ کے مطابق جلوزئی کے رہائشیوں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک ایک ‘متنازعہ داستان’ ہے۔
1980ء کی دہائی میں لوگ سوویت یونین کے حملے کے باعث افغانستان سے ہجرت کر رہے تھے مگر 1990ء میں جب طالبان نے افغانستان کے مختلف حصوں پر قبضہ جمانا اور خود کو مضبوط کرکے اپنی عمل داری قائم کرنا شروع کی تو افغان عوام ان کے مظالم سے تنگ آکر پاکستان کا رُخ کرنے لگے۔
’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی رپورٹ کے مطابق 1998ء تک پاکستان نے ان لوگوں کو بلا روک ٹوک داخلے کی اجازت دے رکھی تھی اور لوگوں کے پورے کے پورے گروہ کو مہاجر کا درجہ دے دیا جاتا تھا اور کسی کو انفرادی طور پر یہ حیثیت نہیں دی جاتی تھی مگر 1998ء میں پاکستان نے افغانستان سے آنے والوں کو مہاجرین کا درجہ دینا بند کر دیا تھا تاہم لڑائی اور قحط کے باعث لوگوں کی آمد اور پاکستان میں پناہ لینے کا سلسلہ جاری رہا۔
جلوزئی کے برعکس دوسرے کیمپوں میں خوراک کی تقسیم، صحت، تعلیم اور دیگر سہولیات فراہم کی جا رہی تھیں مگر جلوزئی کو مہاجرین کی تعداد میں مسلسل اضافے کے باوجود سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے نظر انداز کر دیا گیا تھا، کیمپ میں اُس وقت کے حالات کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ غیر انسانی اور افسوسناک تھے۔
ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملوں کے بعد پاکستان آنے والے افغان مہاجرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا، اگرچہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے 2002ء میں جلوزئی مہاجر کیمپ کو بند کرنے کا اعلان کیا مگر پھر بھی یہ کیمپ آئندہ کئی سالوں تک اپنے مسائل کے ساتھ قائم رہا۔ تشویشناک بات یہ تھی کہ امریکی حملے کے بعد یہاں افغانستان سے آنے والوں کی بڑی تعداد کا تعلق طالبان سے تھا اور کیمپ زیادہ تر شدت پسندوں کی آماجگاہ بن گیا، 2014ء میں کیمپ پر حملہ بھی ہوا۔
مگر اب یہاں برسوں سے امن و استحکام کی فضا قائم ہے اور علاقے کو سہولیات سے آراستہ رہائشی کالونی کے ساتھ جدید معاشی زون میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے، ماضی میں ایک لاکھ افراد کے خوفناک طرز زندگی کے گواہ اس علاقے کو جدید سہولیات سے آراستہ ہاؤسنگ سکیم میں تبدیل کرنے کا منصوبہ جلوزئی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اثرات سے نکلنے میں مد دے گا۔
خصوصی اقتصادی زون
جولائی میں جب پاکستان میں کورونا وائرس اپنی انتہا پر تھا، اس وقت وزیراعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے ضلع نوشہرہ میں جلوزئی اکنامک زون کا سنگ بنیاد رکھا۔
پرافٹ خصوصی اقتصادی زونز سے متعلق ایک فیچر شائع کر چکا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ سپیشل اکنامک زونز کام کس طرح کرتے ہیں اور جلوزئی کے مہاجر کیمپ کے سپیشل اکنامک زون میں تبدیل ہو جانے کا مطلب کیا ہو گا؟
یہ ذکر برمحل ہو گا کہ اگر کورونا وائرس کی وباء آج سے دس سال پہلے آتی تو جلوزئی مہاجر کیمپ اس کا مرکز ہوتا، یہ خوفناک کیمپ اگرچہ کئی بیماریوں کا گھر تھا مگر وہ سب کورونا وائرس کی نسبت قابو کرنا آسان تھیں، اب بہرحال جلوزئی سے حکومت خیبرپختونخوا کی بڑی اُمیدیں وابستہ ہیں۔
جلوزئی میں سپیشل اکنامک زون کے قیام کے حوالے سے وزیراعلی خیبر پختونخوا محمود خان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا اکنامک زونز ڈیویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی کی جانب سے 257 ایکڑ پر تعمیر کیا جانے والا جلوزئی اکنامک زون بالواسطہ اور بلاواسطہ 50 ہزار نوکریاں پیدا کرے گا، یہاں چھ ارب روپے کی ابتدائی سرمایہ کاری ہو گی اور یہ منصوبہ صوبے کی مں صنعت کاری کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا کہنا ہے کہ ‘اپنے سٹریٹجک محل وقوع کے باعث جلوزئی اقتصادی زون خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہو گا، اس علاقے کی افرادی قوت کی وجہ سے فارماسیوٹیکل، فوڈ پراسیسنگ اینڈ پیکجنگ، تعمیرات، ماربل اینڈ گرینائٹ اور فرنیچر کی صنعتوں کو اس معاشی زون میں سرمایہ کاری کرنے سے بہت فائدہ ہو گا۔‘
جلوزئی کی اقتصادی تعمیر و ترقی کے خواب کی تعبیرکے لیے کچھ عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے، جیسا کہ ان 50 ہزار افراد کی رہائش کا انتظام، جنہیں اس اقتصادی زون کی بدولت روزگار ملے گا، اس مقصد کے لیے ایک ہاؤسنگ سوسائٹی بھی تعمیر کی جا رہی ہے جہاں ضروریات زندگی کی تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی، اس ہاؤسنگ سوسائٹی کو 132 کلو واٹ کے گرڈ اسٹیشن سے پانچ سے دس میگا واٹ بجلی فراہم کی جائے گی۔
سہولیات سے عاری مہاجر کیمپ سے جدید ہاؤسنگ سوسائٹی تک کا سفر
جہاں تک جلوزئی اقتصادی زون کی بات ہے تو اس کے لیے قواعد مختلف ہیں، حکومت یہاں سرمایہ کاری کے فروغ اور کاروبار میں آسانیاں فراہم کرنےکے لیے سب کچھ کر رہی ہے، اس سلسلے میں ایک کوشش تو یہ کی جا رہی ہے کہ اس علاقے میں ہر وقت ہنر مند افراد کی دستیابی رہے جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایسے افراد کو رہائش کی بہترین سہولت فراہم کی جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جلوزئی ہاؤسنگ سوسائٹی خیبر پختنونخوا حکومت کے لیے کماؤ منصوبہ ثابت نہیں ہو گا۔
وزیر ہاؤسنگ خیبر پختونخوا ڈاکٹر امجد علی نے اس حوالے سے بتایا کہ پراونشل ہاؤسنگ اتھارٹی (PHA) جلوزئی ہاؤسنگ سوسائٹی کے رقبے میں پانچ ہزار کنال کا اضافہ کرنے پر کام کر رہی ہے۔ پی ایچ اے نے لینڈ شئیرنگ کی بنیاد پر زمین حاصل کرنے کی منظوری دے دی ہے، اس سکیم کے تحت اتھارٹی کو چار کنال زمین کی فراہمی پر اس کے مالک کو ایک کنال کا مکمل تعمیر شدہ پلاٹ دیا جائے گا، اس کے علاوہ زمین کے مالک کو ڈیویلپمنٹ چارجز کی مد میں 12 لاکھ روپے ادا کرنا ہوں گے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو حکومت نے جلوزئی میں ہاؤسنگ سکیم کو توسیع دینے اور مقامی زمین داروں کو منافع میں حصہ دار بنانے کے لیے اپنایا ہے، جن دنوں جلوزئی میں مہاجر کیمپ آباد تھا اس وقت اس علاقے کی اس طرح کی توسیع سے متعلق سوچا بھی نہیں گیا تھا مگر اب اس سکیم کے اعلان کے بعد اس علاقے میں ایک کنال زمین کی مالیت 30 لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے۔
”اس ہاؤسنگ سکیم کے 70 فیصد پلاٹ سرکاری ملازمین کو تین سال کی اقساط پر الاٹ کر دیے گئے ہیں اور اس سوسائٹی کے بلاک اے سے بلاک ای تک کا 90 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ الاٹیز کو قبضہ لیٹر دسمبر میں جاری کیے جائیں گے جس کے بعد مالکان اپنے پلاٹ پر تعمیرات کا آغاز کر سکیں گے۔‘‘
ڈاکٹر امجد کے مطابق اس ہاؤسنگ سوسائٹی کو بجلی کی فراہمی کے لیے ایک علیحدہ گرڈ سٹیشن بھی قائم کیا جائے گا جس پر پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی ( پیسکو) جلد ہی کام کا آغاز کر دے گی اور جب تک یہ گرڈ سٹیشن مکمل نہیں ہو جاتا تب تک پیسکو اس ہاؤسنگ سوسائٹی کیلئے مختص فیڈرز سے بجلی فراہم کرے گی، علاقے کو بجلی کی فراہمی کے منصوبے کے پہلے مرحلے پر 14 ارب روپے لاگت آئے گی۔
اس طرح کے منصوبے کچھ سال قبل کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوں گے جب جلوزئی ایک مہاجر کیمپ تھا، یہاں ہاؤسنگ سوسائٹی بڑے شہروں میں قائم کی جانے والی جدید اور مکمل محفوظ سوسائٹیز کے ماڈل پر تعمیر جا رہی ہے، اس منصوبے کے لیے حاصل کی جانے والی زمین کا زیادہ تر حصہ رہائشی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ سڑکوں، پارکوں وغیرہ کی تعمیر کے لیے استعمال ہو گا، ہاؤسنگ سوسائٹی کی سیکیورٹی پر خصوصی طور پر توجہ دی جائے گی اور اسے ہر لحاظ سے بہترین بنایا جائے گا۔
ڈاکٹر امجد علی نے مزید بتایا کہ منصوبے میں کمرشل مقاصد کے لیے بھی زمین مختص کی گئی ہے جس سے متعلق جلد ہی اشتہار جاری کیا جائے گا، خواہش مند حضرات اس زمین پر سکول، کالجز اور صحت کے مراکز تعمیر کر سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پراونشل ہائوسنگ اتھارٹی پشاور ریزیڈینشیا ہاؤسنگ سکیم میں 20 ہزار گھر بھی تعمیر کرے گی جو نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کا حصہ ہیں، یہ گھر نیا پاکستان ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی شراکت کے ساتھ پشاور کے سروزئی علاقے میں تعمیر کیے جائیں گے۔
’’پاکستان ہاؤسنگ فاؤنڈیشن اس سکیم میں گرے سٹرکچرز کی تعمیر کی ذمہ دار ہے، اس ہاؤسنگ سکیم کی بیلٹنگ مکمل ہو چکی ہے اور کنسلٹنٹ کا انتخاب بھی کر لیا گیا ہے جب کہ منصوبے کی کل لاگت 97 ارب روپے ہے۔‘‘
وزیر ہائوسنگ خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ پراونشل ڈیویلپمنٹ ورکنگ پارٹی سے اس ہاؤسنگ سکیم کے مین گیٹ، باؤنڈری وال، اور سکیورٹی چیک پوسٹوں کی تعمیر کی منظوری لی جا چکی ہے، پی ایچ اے کا ادارہ منافع کمانے کے لیے نہیں بنایا گیا بلکہ اس کا مقصد صوبے کے کم آمدن والے افراد کو بغیر نفع و نقصان کی بنیاد پر ذاتی رہائش فراہم کرنا ہے۔
ڈاکٹر امجد کے مطابق صوبائی حکومت نے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی کے ساتھ ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت پی ایچ اے پشاور کے علاقہ نشتر آباد میں 20 منزلہ رہائشی پلازے تعمیر کرے گی، یہ بلند و بالا عمارت 36 کنال کے رقبے پر اسلام آباد کے سینٹورس مال کی طرز پر تعمیر کی جائے گی جس میں کمرشل سرگرمیوں کے علاوہ رہائشی اپارٹمنٹس کے لیے جگہ مختص کی جائے گی اور اس منصوبے پر 15 ارب روپے لاگت آئے گی۔
ہاؤسنگ ڈیپارٹمنٹ نے سرکاری ملازمین کے لیے بھی متعدد رہائشی سکیموں پر کام شروع کر دیا ہے، پی ایچ اے سرکاری ملازمین کو ذاتی رہائش کی فراہمی کے لیے حیات آباد فیز 5 میں اپارٹمنٹس تعمیر کر رہی ہے جہاں 80 فیصد سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے، ان فلیٹس کے بی اور ای بلاکس رواں ماہ مکمل ہو جائیں گے۔
اس کے علاوہ سول کوارٹرز فلیٹس پر بھی کام جلد شروع ہو جائے گا۔ ہاؤسنگ ڈیپارٹمنٹ نے سرکاری ملازمین اور عوام کے لیے ہنگو ٹاؤن شپ پراجیکٹ متعارف کرایا ہے اور اس کی جگہ کے حصول کیلئے رجسٹریشن کا عمل جاری ہے۔
ڈاکٹر امجد نے بتایا کہ پشاور، کوہاٹ، خیبر، سوات اور مالاکنڈ میں نئے سیٹلائٹ ٹاؤنز کی تعمیر کے لیے اراضی کی نشاندہی کر لی گئی ہے اور اس حوالے سے کنسلٹنٹ کی خدمات سیکشن فور کے اجراء کے بعد حاصل کی جائیں گی۔
صوبائی وزیر ہاؤسنگ نے کہا کہ میگا ہاؤسنگ سکیموں کے علاوہ خیبرپختونخوا حکومت صوبے کے سیٹلائٹ ٹاؤنز کی ترقی کے منصوبے پر بھی کام کر رہی ہے، پشاور میں ملازئی ہاؤسنگ سیکم مکمل ہو چکی ہے اور جلد ہی الاٹیز کو گھروں کی تعمیر کی اجازت بھی دے دی جائے گی۔ پی ایچ اے 350 کنال کا حویلیاں منصوبہ مکمل کر چکی ہے جبکہ سوا ت میں ڈانگرام ہاؤسنگ سکیم پر بھی جلد ہی کام کا آغاز ہو جائے گا، اس ہاؤسنگ سوسائٹی میں 50 کنال زمین میڈیا کالونی کے لیے مختص کی جائے گی۔