اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بینکوں کو 10 لاکھ سے 2 کروڑ، 5 کروڑ اور 10 کروڑ روپے تک کے دیئے گئے قرضوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فاروق حامد نائیک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاﺅس میں منعقد ہوا۔
اجلاس میں ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک نے کمیٹی کو بتایا کہ بینکوں کی شاخوں کی بندش اور قرضوں سے متعلق امور پر اراکین سینیٹ کے اٹھائے گئے سوالات پر ملک کے پانچ بڑے بینکوں کے سینئر حکام کو بلایا ہے تاکہ کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، کچھ تکنیکی مسائل ضرور ہیں جیسے انڈسٹری کہیں لگی ہے اور ہیڈ آفس دیگر بڑے شہروں میں قائم ہیں جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، بینکوں کو اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ایم سی بینک کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ چار سال پہلے سٹیٹ بینک نے مختلف بینکوں کو صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا دورہ کرایا اور ہدایات دیں کہ پانچ سالہ منصوبہ بنا کر بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبہ بلوچستان میں ایم سی بی کی 57 شاخیں اور 40 اے ٹی ایم ہیں، ڈیپازٹ ریٹ 37 فیصد ہے اور کے پی کے میں ڈیپازٹ ریٹ41 فیصد ہے۔ دونوں صوبوں میں کمیونٹی بینکنگ، میکرو فنانسنگ، اسلامی بینکنگ اور دیگر اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں۔
حبیب بینک لمیٹڈ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں برانچیں قائم کی گئی ہیں اور پورے ملک میں سب سے زیادہ نیٹ ورک اس بینک کا ہے۔ اسلامک بینکنگ اگلے سال پانچ گنا بڑھ جائے گا۔
بینک الفلاح کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں نیٹ ورک موجود ہے، چھوٹے شہروں میں بھی کام کیا جا رہا ہے اور تمام بینکنگ سروسز فراہم کی جا رہی ہیں، سندھ میں سب سے زیادہ اس بینک کی برانچیں ہیں۔
یو بی ایل حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ادارے کی ملک بھر میں 1400 برانچیں ہیں، کپیسٹی بلڈنگ پر خصوصی توجہ دی ہے اور سٹیٹ بینک کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے صوبہ بلوچستان اور کے پی کے میں اضافی برانچیں بھی قائم کی ہیں، سب سے زیادہ زرمبادلہ اس بینک میں آتا ہے۔
نیشنل بینک حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ صوبہ بلوچستان اور کے پی کے میں بھی بینک کی برانچیں کام کر رہی ہیں ایک گروپ بنایا ہے جو سمال انڈسٹری کی مانیٹرنگ کرے گا جس میں چھوٹے کارباری حضرات پر بھر پور توجہ دی جائے گی۔
اس موقع پر سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ جو معلومات فراہم کی گئی ہیں ان کے مطابق صوبہ بلوچستان اور کے پی کے کے ساتھ ناانصافی ہے، یہ مسئلہ پورے صوبے کے عوام کیلئے اٹھایا گیا ہے، ان صوبوں کے قرض کا پورٹ فولیو کم ہوتا جا رہا ہے، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ڈیپازٹس کہیں اور جا رہے ہیں یہ صحیح نہیں۔
اس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے استفسار کیا کہ صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ایڈوانسز کم کیوں ہوئے ہیں اور بہتری کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک نے سپروائزری میں کیا کردار ادا کیا ہے اور ان کو ایڈوانسز نہ دینے کی وجوہات کمیٹی کو فراہم کی جائیں۔
سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ کمیٹی کو بتایا جائے کہ صوبہ سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا و بلوچستان میں قرض دینے کا طریقہ کار کیا ہے۔ سینیٹر مصدق مسعود ملک نے کہا کہ صوبوں کو ڈیپازٹ سے ان کا حق نہیں دیا جا رہا بینک پیسے لیتے ہیں مگر قرض دینے سے کتراتے ہیں جس کو ضرورت ہے اسے قرض نہیں دیا جاتا۔ کمیٹی کو دس لاکھ، دو کروڑ، پانچ کروڑ اور دس کروڑ کے دیئے گئے قرض کی صوبہ وائز تفصیلات فراہم کی جائیں۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ سسٹم کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، قرض اور ڈیپازٹ کی صوبہ وائز تفصیلات کمیٹی کو فراہم کی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی کو آگاہ کیا جائے کہ حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر نے بینکوں سے کتنا ادھار لیا۔ جوابات کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا، کمیٹی نے معاملے کو آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ سبی ریجن میں نیشنل بینک کی برانچ کو بند نہیں کیا گیا، کورونا کی وجہ سے کچھ مسائل پیدا ہو گئے تھے جس پر سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ نیشنل بینک کے صدر سے تین بار بات بھی کی ہے، سبی ڈویڑن کے بینک کی برانچ کا عملہ کوئٹہ میں بیٹھ کر کام کر رہا ہے، یہ سب ایک بندے کو نوازنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قائمہ کمیٹی نے سبی ریجن نیشنل بینک برانچ کو فعال کرنے کی ہدایت کر دی۔
کمیٹی کو کمیونٹی بینک قوانین کے حوالے سے بتایا گیا کہ میکرو فنانس بینکنگ پر زور دیا جا رہا ہے، ضلعی اور علاقائی سطح پر چارسو سے زائد جگہوں پر کام کیا جا رہا ہے، پانچ لاکھ سے 30 لاکھ تک قرض حاصل کیا جا سکتا ہے، 218 ارب کے قرض دیئے ہیں۔
کرپٹو کرنسی کے حوالے سے ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک نے کمیٹی کو بتایا کہ سٹیٹ بینک پاکستان نے اس پر پابندی نہیں لگائی، کچھ ایڈوائزریز جاری کی تھیں تاکہ عوام دھوکا نہ کھائیں، اس میں دھوکے کا اندیشہ ہوتا ہے ، یہ لیگل ٹینڈر نہیں ہے اور پاکستان میں تسلیم شدہ کرنسی بھی نہیں ہے۔ آس پاس کے ممالک میں بھی یہ موجود نہیں ہے ترقی پذیر ممالک اس کو تسلیم نہیں کرتے۔
سینیٹر محسن عزیز نے ملک بھر میں گردش کرنے والے جعلی کرنسی نوٹوں کی بھرمار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقدام اٹھانے پر زور دیا اور ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک کو کمیٹی اجلاس میں جعلی نوٹ بھی پیش کئے تاکہ جائزہ لیا جا سکے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ پے پال اور ای بے کے حوالے سے سٹیٹ بینک کی کوئی پابندی نہیں۔ قائمہ کمیٹی نے چیئرمین سینیٹ کی طرف سے ریفر کی گئی انور مسعود کی عوامی عرض داشت کے حوالے سے فیصلہ کیا کہ یہ عرض داشت عوام کے متعلق نہیں بلکہ انفرادی حیثیت کی ہے کمیٹی اس پر بحث نہیں کر سکتی، کمیٹی نے عوامی عرض داشت کے معاملے کو ختم کر دیا۔