جب حکومت نے پہلی بار یہ اعلان کیا کہ اس نے انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ ماضی کے طے شدہ معاہدوں کے حوالے سے دوبارہ مذاکرات کیے ہیں تو اسے حکومت کی کامیاب پالیسی قرار دیا گیا اور کافی داد و تحسین کی گئی، عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں جو بجلی بنا رہے ہیں (آئی پی پیز) وہ بہت مہنگی بنا رہے ہیں (یہ سچ ہے)، لیکن دوسرا تاثر یہ ہے کہ بجلی مہنگی بنانے کی وجہ بہت زیادہ منافع کمانا ہے (شائد ایسا نہیں ہے)۔
تاہم حکومت کی اس ’کامیاب پالیسی‘ کی خوشی منانے کے بعد جن دو مسائل کا سامنا ہوا انہیں پہلے شائد نظر انداز کر دیا گیا تھا۔
پہلا مسئلہ یہ کہ حکومت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ دہائیوں پرانے معاہدے توڑ کر انہیں دوبارہ بات چیت پر مجبور کرکے ایک بری مثال قائم کر رہی ہے، حکومتی دعوے کہ کمپنیاں رضاکارانہ طور پر بات چیت پر راضی ہوئی ہیں، محض اتفاقیہ ہیں، لیکن اس سے مستقبل میں نجی کمپنیوں کا حکومت پر اعتماد ضرور متزلزل ہو گا، خاص طور پر یہ رجحان ملک کیلئے اس لیے بھی خطرناک ہے کیونکہ ملک کو انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے نجی سیکٹر کی ہمیشہ اشد ضرورت رہتی ہے۔
دوسرا مسئلہ جسے نظر انداز کیا گیا وہ یہ کہ آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کا عمل غیرمنصفانہ طور پر انجام دیا گیا، کچھ کمپنیوں کے ساتھ واضح طور پر دوسروں کی نسبت برا سلوک کیا گیا، مختلف کیٹیگریز کے تحت آنے والی کچھ کمپنیوں کو مذاکراتی عمل سے سرے سے خارج ہی کر دیا گیا، کچھ کمپنیاں جو آئی پی پیز میں شامل تھیں اور جن کے ساتھ بات چیت ہونی چاہیے تھی، انہیں نئے معاہدے پر دستخط کرنے سے بچایا گیا، اور پھر کچھ کمپنیوں نے دستخط کیے، لیکن معجزانہ طور پہ اُن پر ’زیادہ منافع‘ کمانے کے الزامات نہیں تھے۔
ان تمام مسائل پر ذیل میں روشنی ڈالی گئی ہے لیکن اس سے قبل آئی پی پیز کے حوالے سے اعلان کردہ پالیسی کے مکمل اثرات کی نشاندہی کرنا اہم ہے، مذکورہ پالیسی پر اگر اس کی روح کے مطابق عمل کر لیا جائے تو اس کا بجلی کی پیداواری لاگت پر خاطر خواہ اثر پڑے گا۔
حکومت کی جانب سے پاور سیکٹر کے آڈٹ اور گردشی قرضے کے حل سمیت مستقبل کے لائحہ عمل کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، اس کمیٹی کی مارچ 2020ء کی رپورٹ کے مطابق اگر بجلی خریدنے کے معاہدوں میں وہ تمام اصلاحات نافذ کر دی جائیں، جو حکومت اور آئی پی پیز کے مابین حالیہ معاہدے میں کی گئی اصلاحات سے بھی مطابقت رکھتی ہیں تو صارفین کو بجلی ایک روپیہ فی کلو واٹ آور (kWh) تک سستی بجلی ملے، (کچھ ماہرین کے مطابق صارفین کیلئے بجلی کی قیمت 25 پیسے فی کلو واٹ آور تک بھی ہو سکتی ہے)۔
یہ بھی پڑھیے: زائد لاگت دکھا کر اربوں وصول کرنے کا انکشاف، آئی پی پیز سے 100 ارب روپے وصول کرنے کی تجویز
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے دستیاب اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2019ء میں ملک میں فروخت ہونے والی بجلی کی اوسط قیمت تقریباََ 14.47 روپے فی کلو واٹ آور تھی، لہٰذا بجلی کی قیمت ایک روپے فی کلوواٹ آور کا معاملہ بلاجواز بھی نہیں۔
تاہم یہاں ایک مسئلہ ہے، پرافٹ اردو نے جب نیپرا کے اعدادوشمار کی جمع تفریق کر کے دیکھی تو معلوم ہوا کہ بجلی چوری سمیت ایسے ہی دیگر عوامل کے باعث صارفین کو بجلی 4.52 روپے فی کلو واٹ آور میں پڑتی ہے۔
لیکن یہ اس قیمت کے قریب بھی نہیں جس میں صارفین کو بجلی فروخت کی جا رہی ہے، پاکستان میں بجلی مہنگی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں دیگر ترقی پذیر ممالک کی نسبت چوری کی وباء کچھ زیادہ ہی عام ہے، بجلی چوروں کے خلاف سخت کریک ڈائون کے بغیر لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی کوشش کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے تلوار کے گہرے زخم کو سادہ پٹی لگا کر مندمل کرنے کی کوشش کرنا، شائد اس سے زخم کسی قدر چھپ جائے لیکن خون کا رسائو نہیں رکے گا اور مریض موت کے منہ میں چلا جائے گا۔
اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ آئی پی پیز کے ساتھ نئے سرے سے بات چیت میں کیا برائی ہے۔
بری مثال قائم ہو گی
پاور کمپنیوں کو پرانے معاہدوں کے حوالے سے ازسرنو بات چیت پر مجبور کرنے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مستقبل کیلئے ایک بری مثال قائم ہو گی، حکومت اور آئی پی پیز کے مابین مذاکرات کے معیشت پر برے اثرات کو سمجھنے سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ حکومت نے یہ راہ اختیار ہی کیوں کی۔
80ء کی دہائی کے اواخر اور 90ء کے آغاز میں ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت مستقبل کیلئے ناکافی ہے، اُس وقت ملک میں پن بجلی پیدا کرنے کے دو ہی بڑے ذرائع تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم موجود تھے، چونکہ ڈیم بنانے پر اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں اس لیے حکومت پاکستان مہنگے ڈیم تعمیر کرکے بجلی پیدا کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی، نتیجتاََ حکومت کو انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز سے بجلی حاصل کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا، یہ نجی کمپنیاں تھیں جنہوں نے اپنے پاور پلانٹس سے بجلی بنا کر حکومت کو فروخت کرنا تھی جو آگے واپڈا کے ترسیلی نظام کے ذریعے ملک بھر میں پہنچائی جاتی۔
اب ایک پاور پلانٹ لگانا خاص طور پر نجی شعبہ کے سرمایہ کاروں کیلئے بے حد مہنگا سودا ہے، وہ صرف اسی صورت مناسب نرخوں پر بجلی فراہم کر سکتے ہیں جب انہیں طویل مدت کیلئے مالیاتی اعانت میسر ہو تاکہ قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کیلئے انہیں مناسب وقت مل سکے۔ یہ پرخطر کاروبار ضرور ہے لیکن اس سے بھی خطرناک ایک عنصر یہ ہے جب آئی پی پیز نے پاور پلانٹس لگا کر بجلی پیدا کرنی شروع کر دی تو ملک میں واپڈا کے علاوہ کوئی دوسرا خریدار نہیں تھا، اس لیے اگر واپڈا بجلی خریدنے سے انکار کر دیتی تو پاور پلانٹ لگانے والوں کی سرمایہ کاری ڈوب جاتی۔ اس کے علاوہ 90ء کے آغاز میں یہ بھی واضح نہ تھا کہ نجی شعبہ پاور پلانٹ لگانے کی سکت رکھتا ہے، اس لیے حکومت کو ایسی مراعات کا اعلان کرنا پڑا تاکہ کہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں پاور پلانٹس لگانے پر آمادہ ہو جائیں۔
اس موقع پر جو معاہدے ہوئے ان کے چار پہلو ہیں:
پہلا: معاہدے کی معیاد 25 سال (جتنی عموماََ پاو پلانٹ کی عمر ہوتی ہے) رکھی گئی تاکہ سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری واپس حاصل کر سکے۔
دوسرا: حکومت نے یہ ضمانت دی کہ یا تو وہ خود آئی پی پیز سے بجلی خریدے گی، یا پھر انہیں بجلی سٹور کرنے کیلئے ادائیگی کرے گی اور پاور کمپنیوں کیلئے لازم ہو گا کہ بوقت ضرورت وہ سرکاری نظام کو بجلی سپلائی کریں۔
تیسرا: معاہدے میں ایک ریٹ آف ریٹرن مقرر کیا گیا تاکہ آئندہ کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو۔
چوتھا: منافع کی شرح امریکی ڈالر میں وصول کرنے کی اجازت دی گئی تاکہ مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پرکشش منافع مل سکے اور وہ مزید سرمایہ کاری پر آمادہ ہو سکیں۔
یہی چوتھی شرط نہایت اہم ثابت ہوئی، اسے دیکھتے ہوئے کچھ یورپی توانائی کمپنیوں نے پاکستان میں پہلی نجی کمپنی حب پاور کے نام سے قائم کر دی۔
یہ بھی پڑھیے: ’آئی پی پیز کو اُتنی ہی ادائیگی کی جائیگی جتنی بجلی قومی گرڈ میں جائے گی‘
معاہدے میں شامل ان چار شرائط میں اب تک کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا، کمپنیوں کی سرمایہ کاری اب بھی طویل المدتی ہے، اب بھی حکومت کے علاوہ آئی پی پیز کی بجلی کا دوسرا کوئی خریدار نہیں، بجلی کی قیمت پر اب بھی بات چیت ہو سکتی ہے اور پاکستان اب بھی شعبہ توانائی میں بیرونی سرمایہ کاری حاصل کر سکتا ہے۔
اگر تمام شرائط جوں کی توں ہیں تو پھر آئی پی پیز کےساتھ مذاکرات کرنا کیوں ضروری تھے؟ بلکہ کوئی ایک یا ایک سے زائد شرائط میں ردوبدل ہوتا تو معاہدے پر ازسرنو گفت و شنید پھر بھی نہیں ہونی چاہیے تھی، حکومت کے ساتھ معاہدے کرنے میں کئی طرح کے سیاسی خطرات کارفرما رہتے ہیں لیکن پھر بھی طویل المدتی معاہدے ملک میں ضروری انفراسٹرکچر کیلئے بیرونی سرمایہ کاری لانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
لیکن اگرایسی مثال قائم کر دی جاتی ہے کہ حکومت بدلنے کیساتھ ہی 25 سالہ معاہدے میں ردوبدل شروع کر دیا جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی ہمت کون کرے گا؟ مستقبل میں حکومت نے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دی تو کیا وہ حکومتی پیشکش کو سنجیدگی سے لیں گے؟
ایسی مثال کو دیکھ کر طویل مدت کیلئے سرمایہ کاری کرنے والے تو بھاگ جائیں گے البتہ مختصر مدت کیلئے سرمایہ کاری کرنے والوں کو موقع مل جائے گا کہ وہ کم مدت میں جو کچھ کما سکتے ہیں کما لیں۔
کیا آئی پی پیز کیساتھ معاہدے میں کوئی بے حد خطرناک شق شامل تھی کہ جسے تبدیل کیے بغیر چارہ نہ تھا؟ 1994ء اور 2002ء میں ہونے والے معاہدوں میں تو ایسا کچھ نہیں تھا، 2015ء کا معاہدہ بالکل ایک دوسری چیز ہے۔
لیکن اگر ماضی کی حکومتوں کے کیے گئے معاہدوں میں کچھ غلط تھا تو نئے اور بہتر سرمایہ کاروں کیساتھ بات چیت کر کے ایک نئی مثال قائم کی جا سکتی تھی، یا پرانے سرمایہ کاروں کیساتھ نئے پراجیکٹس کیلئے بات کر لی جاتی۔ بری مثالوں کے اثرات مزید بری مثالوں سے زائل نہیں کیے جاتے، بلکہ اگر حکومت ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھے تو ماضی کے دھبے بھی دُھل جاتے ہیں۔
یہاں تک کہ اگر موجودہ حکومت کا یہ خیال تھا کہ سابق حکومتوں نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کرتے ہوئے کرپشن کی ہے تو اسے ثبوتوں کے ساتھ عدالت میں جانا چاہیے تھا، اگر کارروائی ضروری تھی تو یہ جبری مذاکرات کی بجائے عدالتی راستے سے ہونی چاہیے تھی۔
کچھ کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات کیوں نہیں کیے گئے؟
اوپر بیان کردہ دلیل کا تعلق مستقبل بینی کے ساتھ ہے جسے سمجھنا ہر کسی کیلئے آسان نہیں، لیکن حکومت اور آئی پی پیز کے مابین مذاکرات کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت نے معاہدے پر کچھ کمپنیوں کیساتھ مذاکرات کیے جبکہ کئی پاور کمپنیوں کو فہرست سے ہی نکال دیا جن کے بارے میں خود حکومت نے کہا تھا کہ وہ بہت زیادہ منافع بنانے میں ملوث ہیں۔
اس میں مزید دو مسائل سامنے آتے ہیں، پہلا مسئلہ یہ کہ 1994ء اور 2002ء کی پالیسی کے تحت قائم ہونے والے پاور پلانٹس کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیلئے حکومت نے اپنا فیصلہ یکساں طور پر لاگو نہیں کیا بلکہ مذکورہ پالیسیوں کے تحت قائم ہونے والی اکثر پاور کمپنیوں کو اس سارے عمل سے مستثنیٰ رکھا گیا۔
مثال کے طور پر دونوں اُچ پاور پلانٹس 2002ء کی پالیسی کے تحت لگائے گئے جس پر حکومت نے ابتدائی طور پر امریکی ڈٓالر میں 15 فیصد ریٹرن آن ایکویٹی کی ضمانت دی، حالیہ مذاکرات کے بعد مقامی سرمایہ کاروں کیلئے ریٹ پاکستانی کرنسی میں 17 فیصد ہو چکا ہے جبکہ بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے امریکی ڈالر میں 12 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: گردشی قرضہ کیا ہے اور یہ کیوں ختم نہیں ہو رہا؟
اُچ پاور فرانسیسی ملٹی نیشنل الیکٹرک کمپنی Engie کی ملکیت ہے، جسے GDF Suez بھی کہا جاتا ہے، اگر حکومت اپنے فیصلے میں سنجیدہ ہوتی تو اُچ پاور کو بھی ریٹرن آن ایکویٹی 12 فیصد پر لانے پر مجبور کرتی لیکن حکومتی کمیٹی کے ایک اہم رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پرافٹ اردو کو بتایا کہ اُچ پاور سمیت کچھ دیگر پاور کمپنیوں نے حکومت کے ساتھ کسی ایم او یو پر دستخط نہیں کیے۔ ’کچھ کمپنیوں کے ساتھ مذاکراتی عمل طول پکڑ رہا تھا، ہمیں کام ختم کرنا تھا، مزید ایک ماہ تاخیر کرنے کی بجائے ہم نے حکومت کو کہا کہ ان تین چار کمپنیوں کے ساتھ براہ راست بات چیت کر لے، لیکن یہ سچ ہے کہ ابھی ان کمپنیوں نے کسی معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔‘
پالیسی کا مخصوص سطح پر نفاذ اپنی نوعیت کا الگ مسئلہ ہے اور یہ حکومت کو کئی طریقوں سے متاثر کر رہا ہے، مثلاََ حکومت ایل این جی پر چلنے والے حویلی بہادر شاہ اور بلوکی پاور پلانٹس کی نجکاری کرنا چاہ رہی ہے لیکن ریٹ آف ریٹرن کے بارے میں غیر یقینی کے باعث سرمایہ کار مذکورہ دونوں بجلی گھر خریدنے سے کترا رہے ہیں۔
مخصوص مذاکرات کا سب سے برا پہلو یہ ہے کہ تمام پاور پلانٹس جو 2015ء کی آئی پی پیز پالیسی کے تحت لگائے گئے، انہیں مذاکرات سے استثنیٰ دیدیا گیا یہاں تک کہ کچھ پلانٹس کے معاہدوں میں واقعی اشتعال انگیز شرائط موجود تھیں، یہ کوئلے پر چلنے والے پاور پلانٹس تھے جو سی پیک منصوبوں کے تحت لگائے گئے اور کافی مہنگے ثابت ہوئے، دنیا میں کول پاور پلانٹس ختم ہو رہے ہیں لیکن پاکستانی کمپنیوں نے چینیوں سے خرید کر لگا لیے۔
قیمت کا تجزیہ کیا جائے تو چین سے حاصل کردہ پلانٹس کی تنصیب کے بعد بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 1.55 ملین ڈالر فی میگا واٹ تھی، یہ قیمت یورپی یا امریکی پاور پلانٹس سے کہیں زیادہ تھی جو چینی پلانٹس کی نسبت زیادہ عرصہ کام کرتے ہیں اور جن کی بعد از تنصیب پیداواری صلاحیت 0.9 ملین میگاواٹ سے لیکر 1.1 ملین میگا واٹ تک ہوتی ہے۔
ظاہر ہے اس قدر مہنگے کول پاور پلانٹس کیلئے پیسہ تو عوام کی جیبوں سے جانا تھا، اس پر مستزاد یہ کہ ریٹرن آن ایکویٹی امریکی ڈالر میں 30 فیصد دینے کا وعدے کر لیا گیا۔ اس کے ساتھ ایک جھوٹ یہ بولا گیا کہ ان پاور پلانٹس کو چلانے کیلئے کوئلہ تھر سے لا کر استعمال کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ مہنگا کوئلہ درآمد کیا گیا، صرف اینگرو کا پاور پلانٹ مقامی کوئلہ استعمال کر رہا ہے۔
اگر مذاکرات کیلئے کوئی پالیسی تھی تو یہ آئی پی پیز پالیسی 2015ء تھی لیکن اس کے تحت قائم ہونے والے پاور پلانٹس کے ساتھ حکومت نے سرے سے بات ہی نہیں کی، ان پاور پلانٹس کی نسبت آدھا ریٹ آف ریٹرن لینے والی پاور کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کا کیا جواز تھا؟
اکثر لوگوں کا خیال فوری طور پر سی پیک اور چین کی جانب جاتا ہے لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ دو ایسے پاور پلانٹس (جامشورو اور لکی) کو بھی مذاکراتی عمل سے استثنیٰ دیا گیا جو سی پیک منصوبوں میں شامل نہیں، اسی طرح تھر انرجی اور تھل نووا مقامی کمپنیوں کی ملکیت ہیں اور ان میں چینی کمپنیوں کے بہت کم شئیرز ہیں لیکن دونوں پلانٹس کو تکنیکی طور پر سی پیک منصوبوں کے تحت رکھا گیا۔
کیا مذکورہ پاور کمپنیاں بہت زیادہ منافع کما رہی تھیں؟
حکومتی کمیٹی نے تجویز دی کہ آئی پی پیز نے ایک حد سے زیادہ منافع کمایا اس لیے حکومت ان سے 100 ارب روپے واپس لے، لیکن کچھ واقفان حال کے مطابق مذاکراتی عمل کے بعد یہ رقم کم ہو چکی ہے۔
لیکن اس سب میں دوہرا معیار واضح نظر آتا ہے، تیل پر چلنے والے دو پاور پلانٹس کی مثال لے لیں، اطلس پاور اور نشاط پاور دونوں پاور پالیسی 2002ء کے تحت لگائے گئے، دونوں کا ٹیرف، پراجیکٹ کاسٹ فی میگا واٹ، ہیٹ ریٹ، آپریشن اینڈ مینٹی نینس کاسٹ اور ریٹ آف ریٹرن سب کچھ ایک جیسا ہے، لیکن نشاط کا منافع اطلس پاور کی نسبت دُگنا ہے جبکہ ایسی ہی ایک کمپنی حبکو نارووال کے منافع جات کا حساب کتاب نہیں کیا جا سکا۔
اس حوالے سے حکومتی کمیٹی کے رکن نے وضاحت دی کہ ’حبکو کے دونوں پلانٹس اسی ایک کمپنی کے تحت کام کر رہے ہیں، دونوں کے منافع جات کا حساب کرنے میں کافی وقت لگ رہا تھا اس لیے رپورٹ میں شامل نہیں کیا جا سکا، بعد ازاں ایک دوسری رپورٹ اس حوالے سے حکومت کو جمع کرائی گئی۔‘ (پراٖفٹ اردو کوشش کے باوجود اس دوسری رپورٹ کی تصدیق نہیں کر سکا)
اور پھر وزارت توانائی (پاور ڈویژن) کے ہاتھ لگنے سے قبل مذکورہ رپورٹ کے کچھ حصے میڈیا میں لیک ہو گئے۔
مذاکرات کے بعد کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ نہایت برے طریقے سے سرانجام دیا گیا، ذرائع کے مطابق ہو سکتا ہے آخر میں سرکاری تقسیم کار کمپنیوں کے ہاتھ بھی کچھ نہ لگے، حکومت اور آئی پی پیز کے مابین ایم او یوز محض بیانات کی حد تک ہیں، تحریری معاہدہ پر دستخط ہونا ابھی باقی ہیں، تحریری معاہدے تک اس ساری تگ و دو کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ فریقین میں عدم اعتماد ہی بڑھے گا۔
مختصر یہ کہ آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت فائدہ مند ثابت ہو سکتی تھی لیکن پاکستان میں بجلی سی متعلق مسائل کی وجہ پاور کمپنیوں کے منافع جات نہیں بلکہ بجلی کی چوری ہے، کمپنیوں کو مذاکرات پر مجبور کرنا اور اپنی شرائط منوانا ایک بری مثال قائم کرنے کے مترادف ہے جس سے مستقبل میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی، اور پھر اس سارے عمل میں پسندیدگی اور بدعنوانی کا عنصر نمایاں ہے۔
حکومت اور آئی پی پیز کے مابین مذاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور کون اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، اس سے قطع نظر اس معاملے کو میڈیا میں ضرورت سے زیادہ ہی کوریج مل گئی۔
اضافی رپورٹنگ: احمد احمدانی