لاک ڈاؤن کے بعد شادی ہال کھلتےہی چکن فرشوں کی چاندی، عوام کی دہائی

پولٹری سپلائروں نے شادی سیزن کا بہانہ بنا کر نرخوں کو پر لگادیے، قیمتوں کے تعین کا میکانزم نہ ہونے کےباعث عوام استحصال کا شکار ہونے لگے

702

پشاور : کورونا لاک ڈاؤن کے بعد شادی ہالوں کو کھلنے کی اجازت دیے جانے کے بعد پختونخوا میں چکن فروشوں نے نرخ بڑھادیے۔

اس حوالے سے پولٹری کے کاروبار سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ چکن کی قیمت میں اضافہ ڈیمانڈ بڑھنے کی وجہ سے ہوا ہے جبکہ صوبے کی پیداوار مانگ کے مقابلے میں کم ہے۔

انکا مزید بتانا تھا کہ صوبے میں اسی فیصد چکن پنجاب کے مختلف شہروں سے لایا جاتا ہے اور اس ضمن میں ٹرانسپورٹ اخراجات کا بڑھنا بھی مرغی کے گوشت کی قیمت میں اضافے کا ایک سبب ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

مرغی کے گوشت کا فکس ریٹ، پولٹری ایسوی ایشن نے حکومت کو نتائج سے خبردار کردیا

واضح رہے کہ صوبائی لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ ایک عرصے سے صوبے میں پولٹری کی پیداوار بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے مگر تاحال اس کے اقدامات کے ثمرات سامنے نہیں آسکے۔

اس حوالے سے متحدہ پولٹری ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری حضرت گل کا پرافٹ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ اگر صوبائی حکومت پولٹری کی پیداوار میں اضافے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے تو صوبے میں مرغی کے گوشت کی قیمت 120  سے  150 روپے فی کلو سے زائد نہ ہوگی۔

انکا مزید کہنا تھا کہ لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ وزیراعظم کی پولٹری سکیم کے تحت اربوں روپے خرچ کرنے کا دعوی کرتا ہے لیکن اگر اس نے صوبے میں پولٹری کی پیداوار میں اضافے کے لیے واقعی ہی کوئی سنجیدہ اقدامات کیے ہوتے تو آج صوبے کی پولٹری کی پیداوار میں اضافہ ہوچکا ہوتا جو کہ نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیے:

یو اے ای دنیا میں سب سے زیادہ پاکستانی گوشت درآمد کرنے والا ملک قرار: پی بی ایس

اُدھر پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک پولٹری سپلائر چودھری احمد کا پرافٹ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں چکن کی قیمت پہلے ہی زیادہ تھی مگر شادیوں کے سیزن کے باعث مانگ بڑھنے کی وجہ سے اس کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔

انکا کہنا تھا کہ چکن کی قیمت میں اضافے کی ایک وجہ فیڈ کا مہنگا ہونا بھی ہے۔

ایک ہفتہ قبل خیبر پختونخوا میں مرغی کا گوشت 130  روپے فی کلو میں دستیاب تھا مگر شادی ہالوں کے کھلنے کی وجہ سے مانگ بڑھی اور اب یہ 190 روپے فی کلو میں بک رہا ہے۔

ذرائع کا پرافٹ اردو کو بتانا تھا کہ مرغی کے گوشت کی قیمت کے تعین کے لیے کسی میکانزم کی عدم موجودگی کے باعث ڈیلر خود ہی ریٹ طے کرتے ہیں اور عوام کا استحصال کرتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here