پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی سرگرمیوں کا مرکز کراچی بھی دنیا کے اُن شہروں کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے جو ملکوں کی معیشت چلانے میں کردار ادا کر رہے ہیں مگر اس کے لیے جامع حکمت عملی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے جس کی آس شہر قائد کے باسیوں نے ایک مدت سے لگا رکھی ہے۔
تصور کریں کہ ایک نوجوان ٹیکنالوجی انٹر پرینیور گزشتہ کچھ برسوں سے اپنے کاروبار یا کمپنی کو پروان چڑھانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔ اس کے لیے وہ لاہور میں واقع ایک فنڈ سے سرمایہ کاری حاصل کر رہی ہے مگر اب اس کی کمپنی ترقی کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور کاروبار کو آگے بڑھانے کے لیے بھاری سرمایہ چاہیے جس مقصد کے لیے وہ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں اینیشل پبلک آفرنگ ( آئی پی او) کا سہارا بھی لے سکتی ہے۔
وہ اپنے دفتر سے نکل کر ایک میٹرو سٹاپ پر پہنچتی ہے، ٹرین پکڑ کر ائیرپورٹ پہنچتی ہے اور بذریعہ ہوائی جہاز کراچی پہنچتی ہے۔ پھر وہ ہوائی اڈے سے ٹرین پکڑ کر کراچی کے میکلوڈ روڈ پہنچتی ہے تاکہ ان بینکاروں سے ملاقات کر سکے جو اس کی کمپنی کے آئی پی او کو لیڈ کر رہے ہیں، اس کے بعد وہ اسی رات واپسی کے سفر پر نکلتی ہے اس پورے عرصے میں وہ کہیں بھی آمد و رفت کے لیے کار کا استعمال نہیں کرتی۔
پاکستان کے مستقبل کے نظارے سے کہیں دور یہ کہانی مکمل طور پر کسی دوسرے ملک کی لگتی ہے، اس کہانی کی بنیاد وہ سفر ہے جو ایک امریکی انٹرپرینیور سان فرانسسکو سے نیویارک کے لیے کرتا ہے لیکن اگر ہمیں بہ حثیت ملک کامیاب ہونا ہے تو منزل تک پہنچنے کے لیے اسی ماڈل پر کام کرنا ہو گا۔
کراچی میں ہونے والی حالیہ طوفانی بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب اور تباہی کی وجہ سے ایک بار پھر سے اربن پلاننگ کا مسئلہ ابھر کر سامنے آیا ہے مگر قومی سطح پر یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ صرف کراچی کا مسئلہ ہے اور اس کا حل کراچی کے بہتر انتظام میں ہے جو کہ ٹھیک بات بھی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے کراچی میں سیاسی استحکام ضروری ہے، یہ بھی درست ہے۔
لیکن بات یہ ہے کہ کراچی کے مسائل صرف کراچی کے نہیں، بلکہ پورے پاکستان کے ہیں، ملک کے سب سے بڑے شہر کو ڈھنگ سے نہ چلا پانا ملکی معیشت کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے جس سے پورا پاکستان متاثر ہوتا ہے۔
ہم اس پر بات اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ پاکستان میں شہروں کی ترقی کے حوالے سے ایک عجیب مسابقتی فضا پائی جاتی ہے، اگر فیصل آباد میں کوئی کارخانہ لگتا ہے تو کراچی کے رہائشی اسے کراچی کا نقصان سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی غیر ملکی کمپنی کراچی میں اپنا ہیڈ کوارٹرز قائم کرتی ہے تو اسے لاہور کا نقصان تصور کیا جاتا ہے۔ اس سوچ کے ردعمل میں یہی تصور کر لیا جاتا ہے کہ ایک شہر کی ترقی دوسرے شہر کے نقصان کی صورت ہی ممکن ہے۔
اس سوچ کے تحت قومی سطح پر صحت مندانہ مسابقت کے بجائے حسد کے جذبات جنم لیتے ہیں، یہ سوچ اس چیز کی بھی نفی کرتی ہے کہ معیشت کثیرالجہتی انداز میں کام کرتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی علاقہ یا شہر معاشی طور پر اجارہ داری قائم نہیں کرسکتا اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے: کراچی کے مسائل حل کرنے کیلئے وفاق، سندھ اور فوج ایک پیج پر، 1100 ارب کے پیکج کا اعلان
ترقی یافتہ معیشتوں میں صنعتوں کو مختلف مقامات پر کلسٹر یعنی گروہوں کی صورت تعمیر کیا جاتا ہے جو اپنے سے متعلقہ دیگر صنعتوں کی مدد سے مل کر بہترین کام کرتی ہیں۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے، فرض کریں لاہور ٹیکنالوجی کا مرکز بن جاتا ہے اور کراچی روایتی طور پر سرمائے کی مارکیٹ اور مالیاتی نظام میں اپنی برتری قائم رکھتا ہے تو ٹیکنالوجی سٹارٹ اپس کہیں اور واقع ہونے کے باوجود اس چیز کے محتاج نہیں ہوں گے کہ سرمائے کے ذرائع بھی وہیں موجود ہوں جہاں اُن سٹارٹ اپس کا وجود ہو۔
تاہم اس بات کی ضرورت رہے گی کہ پاکستانی معیشت کے دونوں گروہ یعنی ( لاہور میں واقع ٹیکنالوجی سٹارٹ اپس اور کراچی میں واقع مالیاتی یا سرمایہ مارکیٹ) صحیح انداز میں کام کریں۔ لاہورمیں واقع ٹیک کلسٹر کو کراچی میں واقع فنانس کلسٹر کی ضرورت ہو گی تاکہ سٹارٹ اپس کو انٹر پرائزز کی سطح تک لے جایا جا سکے جبکہ کراچی میں واقع کلسٹر کو لاہور میں قائم ٹیک کلسٹر کی عمدہ پرفارمنس درکار ہو گی۔
اس مضمون میں ہم یہ جائزہ لیں گے کہ کراچی پاکستانی معیشت کو کیا دیتا ہے اور اسے کن مسائل کا سامنا ہے، یہ شہر عالمی معیار کو کیسے چھو سکتا ہے اور کس طرح مختلف شہر باہمی تعاون اور مسابقت کی بنیاد پر پاکستانی معیشت کو ترقی دلا سکتے ہیں۔
پاکستانی معیشت میں شہر قائد کا کردار
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور زیادہ آبادی والا شہر ہے، بڑے مالیاتی اداروں، ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ، سب سے مصروف ائیرپورٹ، سب سے بڑے شاپنگ مالز اور بلند ترین عمارتیں یہاں واقع ہیں لیکن اس شہر میں یہ سب کچھ اس لیے ہے کیونکہ یہاں انڈس ڈیلٹا کے قریب ایک بہترین قدرتی بندرگاہ موجود ہے۔
وہ شہر جن میں بندرگاہ ہوتی ہے اپنے جغرافیے کی وجہ سے رقبے میں بڑے ہوتے ہیں، وہ جغرافیہ جو کئی سالوں میں تبدیل ہوتا ہے جس طرح حکومت پاکستان کراچی کے مقام کو تبدیل نہیں کرسکتی بالکل اسی طرح اس کی قدرتی بندرگاہ تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ اسی بندرگاہ کی بناء پر برطانوی حکومت نے کراچی کو وسعت دینے کیلئے کثیر سرمایہ خرچ کیا، اسی وجہ سے ہی پاکستان ریلوے کا نظام بندرگاہ کے قریب پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کراچی مالیاتی اداروں، بنکوں اور انشورنس کمپنیوں کے لیے کشش رکھتا ہے کیونکہ تاجروں کو سرمائے اور انشورنس کی ضرورت ہوتی ہے۔ بنکوں اور انشورنس کمپنیوں کے ساتھ ساتھ شہر وکیلوں اور اکاؤنٹنٹس کی آماج گاہ بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک کی بڑی لاء فرمز اور اکاؤنٹنگ فرمز کے ہیڈ کوارٹرز کراچی میں ہیں۔
یہ تمام کمپنیاں آپس میں مسابقت میں کام کرتی ہیں اور لہذا انہیں اشتہار بازی اور مارکیٹنگ کی ضرورت پڑتی ہیں یوں متعلقہ پروفیشنلز کے لیے بھی اپنی خدمات کی پیشکش کرنے کا موقع میسر آ جاتا ہے۔ اشتہار بازی کا تصور میڈیا کے بغیر محال ہے اور اشتہاروں کی کثرت کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے جرائد ترقی کرکے بڑے بن جاتے ہیں۔
بندرگاہ کی وجہ سے ہی کراچی میں ٹیکسٹائل کمپنیوں کے ہیڈکوارٹرز قائم ہوئے جن میں ہزاروں ملازمین کام کرتے ہیں، کچھ کپڑا ملک میں فروخت ہوتا ہے اور کچھ بیرون ملک بھجوایا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کراچی ٹرانسفارمیشن پیکج: ’62 فیصد فنڈز وفاق، 38 فیصد صوبہ خرچ کرے گا‘
یہ ساری کہانی ایک قدرتی بندرگاہ کے ذکر سے شروع ہوئی تھی جو نہ صرف کراچی پر صادق آتی ہے بلکہ بآسانی ممبئی، ہانگ کانگ، شنگھائی، سنگاپور، استنبول، نیویارک اور سان فرانسسکو پر بھی لاگو ہوتی ہے، ان تمام شہروں میں قدرتی بندرگاہیں موجود ہیں جنہوں نے ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
آج پاکستان کا مڈل کلاس طبقہ سب سے زیادہ تعداد میں کراچی میں آباد ہے، یہاں میڈیا، مالیاتی ادارے، پروفیشنل سروسز جیسا کہ قانون، اکاؤنٹنگ جییسے ادارے، لارج سکیل انڈسٹری اور ریٹیل اور ہول سیل کے کاروبار قائم ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق شہر قائد پاکستان کی ایک تہائی معیشت چلاتا ہے، یہاں ہم اس شہر سے پاکستان کے قومی خزانے میں جمع ہونے والے ٹیکس کے اعدادو شمار پیش نہیں کریں گے کیونکہ یہ متنازع ہیں اور ایف بی آر نے اب تک اس کا درست تعین نہیں کیا۔
مختصر یہ کہ کراچی پاکستانی معیشت کے لیے بہت اہم ہے مگر کیا اس شہر کا کوئی متبادل ہے یا متبادل بنایا جا سکتا ہے؟ ماضی میں ایسی کوششیں ضرور ہوئیں تاہم ان کے ملے جلے نتائج سامنے آئے۔
کراچی کی ناکامی، وجوہات اور نتائج
اس سوال کہ پاکستان کی معیشت میں کراچی کے کتنے فیصد حصے کا متبادل بنایا جاسکتا ہے کے جواب میں یہ سوال پوچھنا بہتر ہوگا کہ کراچی کا متبادل بنانے کی ضرورت کیوں ہے ؟
اس شہر میں رہنے والوں کے لیے اس کا جواب بہت واضح ہے، بلاشبہ یہ گندہ ترین شہر ہے، گو کہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی صفائی کے انتظامات ناقص ہیں لیکن کچرے کا ڈھیر صرف کراچی کو کہا جاتا ہے۔ یہ ایک امیر شہر ہے اور یہاں جائیداد کی قیمت پاکستان میں سب سے زیادہ ہے مگر اس شہر میں کے ہزاروں دسیوں گھروں کے باسی اور دوسرے شہروں سے یہاں آکر بسنے والے ایک سوال پوچھتے ہیں کہ وہ کس چیز کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔
اس امیر ترین شہر کے مضافات میں بھی لاہور اور اسلام آباد کے مضافات سے زیادہ گندگی ہے، آبادی کی ایک بڑی تعداد پینے کے صاف پانی سے محروم ہے، لوگ ٹینکروں کے ذریعے پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں۔
بجلی کی فراہمی ملک کے دوسرے حصوں کی نسبت کافی بہتر ہے مگر بارش ہونے کی صورت میں شہر اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے، بارش والے دن آپ کراچی میں گرڈ سے بجلی کے حصول کو بھول جائیں۔
کراچی میں نکاسی آب کا نظام سرے سے ناپید ہے اور یہ مسئلہ خاصا پرانا ہے، حالیہ طوفانی بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال پر عوام کا غم و غصہ 1950ء کی دہائی میں ڈان اخبار میں چھپنے والی اس تصویر کی عکاسی کرتا ہے جس میں شہر اسی طرح کی مشکل میں گھرا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کراچی ٹرانسفارمیشن پراجیکٹ کیلئے عالمی بینک سندھ حکومت کو معاونت فراہم کرے گا
شہر قائد کا ایک اور بڑا مسئلہ امن و امان کی صورت حال بھی ہے، یہ وہ شہر ہے جہاں پاکستان کے کسی بھی دوسرے شہر سے زیادہ سنگین جرائم ہوتے ہیں اور ایک زمانے میں تو کراچی جرائم کی عالمی فہرست میں بلند ترین پوزیشن پر پہنچ گیا تھا۔ فوج کی مدد سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیے گئے آپریشن کے کچھ نتائج برآمد ضرور ہوئے ہیں مگر پرانے کراچی کے رہائشی ابھی بھی امن و امان کے مسائل سے دوچار ہیں۔ جب کبھی بھی مقتدر حلقوں کی جانب سے تھوڑی سی نرمی دکھائی جاتی ہے تو جرائم پیشہ افراد کے گینگ پھر ایکٹیو ہو جاتے ہیں۔
یہ سب وہ باتیں ہیں جو کراچی میں رہنے والے بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ نکاسی آب کی بات ہورہی تھی تو یہ بات سب کو معلوم ہےکہ شہر کا یہ مسئلہ دہائیوں پرانا ہے اور اس کے حل ہونےکی کوئی اُمید بھی نظر نہیں آتی۔
یہاں تک کہ وہ لوگ جو ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ ہو گا کچھ نہیں اور شہر میں اگلی بارش کی صورت میں سیوریج اور گندگی دوبارہ سے اُمڈ آئے گی۔
کراچی کے مسائل کی ایک بڑی وجہ اس کی متنوع سیاست بھی ہے۔ کراچی میں مہاجر اکثریت میں ہیں جبکہ باقی سندھ میں سندھیوں کی اکثریت ہے۔ یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے حوالے شدید عدم اعتماد کا شکار ہیں۔ سندھی پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں اور مہاجر کسی اور کو۔ انہوں نے 70ء کی دہائی میں جماعت اسلامی کو منتخب کرایا، 80ء سے لے کر 2010ء تک ایم کیو ایم کو اور 2018ء میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔
کراچی کی بد قسمتی ہے کہ بلدیاتی اختیارات صوبائی اسمبلی کے پاس ہیں، صوبے کا قانون ساز ایوان ہی اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ مقامی حکومتوں کو کتنی طاقت دینی ہے۔ سندھ حکومت جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ہے فیصلہ کیے بیٹھی ہے کہ کراچی کو خود مختاری نہیں دینی۔ بات کراچی کو صرف مراعات اور اختیارات دینے کی نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے پاکستان پیپلز پارٹی طاقت کی تقسیم پر راضی نہیں۔
ہم خالص لسانی اور قومیت کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں کیونکہ مسئلہ ہے ہی لسانی اور قومی۔ اس کے علاوہ کسی اور حوالے سے بات کرنا بے مقصد ہو گا۔
یہ بھی پڑھیے: کراچی میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہے: عالمی بینک
مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ کراچی والے الگ صوبے اور خودمختاری کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کے عوض شہر کے لیے سندھ کے خزانے میں سے زیادہ حصے کی مانگ ترک کر دیں مگر اس چیز کے لیے فریقین کے درمیان اعتماد کا ہونا ضروری ہے جو سات دہائیوں میں حاصل نہیں کیا جا سکا۔
یہ بے اُمیدی ملک کے دوسرے علاقوں میں رہنے والوں کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کراچی میں کیوں رہا جائے؟ یہاں کاروبار کرنے کے بجائے ملک کے دوسرے حصوں جیسا کہ شمالی اور وسطی پنجاب کا رُخ کیوں نہ کیا جائے جہاں کراچی جیسے مسائل نہیں ہیں؟
یہ نہیں ہے کہ ایسا ہوا نہیں۔ 1992ء کی بد امنی کے دور میں بہت سے کاروبار لاہور اور فیصل آباد منتقل ہو گئے تھے، یہی صورت 2000ء اور 2010ء میں بھی دیکھنے میں آئی لیکن تمام تر مسائل کے باوجود زیادہ تر کاروبار کراچی میں ہی رہے۔ کاروباروں کی کراچی سے منتقلی مسائل کا حل نہیں اور اس کی قیمت بھی اس سے زیادہ ہے جو کراچی کے مسائل کے حل کے لیے درکار ہے۔
جو چیز تبدیل ہوئی ہے وہ لوگوں کی کراچی منتقلی کی رضا مندی ہے۔ 1998ء اور2017ء کی مردم شماریوں کے درمیانی عرصے میں کراچی کی آبادی میں اوسطً سالانہ ڈھائی گنا اضافہ ہوا، اسی عرصے میں لاہور کی آبادی میں 4.1 فیصد اضافہ ہوا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی کی طرف ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں کمی اور لاہور منتقل ہونے والوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا۔
کراچی پاکستان کی ترقی میں کس طرح کردار ادا کرسکتا ہے؟
کراچی کی بد انتظامی کو ختم کرنے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے اس پر بات کرنے سے پہلے یہ بات کریں گے کہ داؤ پر کیا چیز لگی ہوئی ہے اور کراچی سے تعلق نہ رکھنے والے شخص کو اس شہر کے واقعات، معاملات اور مسائل کی پرواہ کیوں ہونی چاہیے ؟
اس کا جواب مختصر مگر سیدھا ہے کہ جب تک کراچی ممبئی اور ٹورنٹو کی طرح عالمی شہروں کی صف میں آ کھڑا نہیں ہوتا تب تک پاکستان کی معاشی ترقی پر غیریقینی کے سائے چھائے رہیں گے۔ پاکستان کو کم آمدن والے ملک سے زیادہ آمدن والا ملک بنانے کے لیے ضروری ہے کہ کراچی اور لاہور کو عالمی سطح کے شہر بنایا جائے۔
دونوں شہروں کی قسمت آپس میں جڑی ہوئی ہے، اگر لاہور سے وسطی اور شمالی پنجاب کے زرعی اور صنعتی مرکز کی حیثیت اور کراچی سے بندرگاہ، مالیاتی خدمات، پروفیشنل خدمات کو ختم کر دیا جائے تو ان شہروں کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔
یہ دونوں شہر ایک ساتھ ترقی کریں گے اور ایک ساتھ ڈوبیں گے۔ دونوں میں صحت مندانہ تعاون اور مسابقت کی ضرورت ہے، دونوں شہروں کے پاس ایسی چیز ہے جو دوسرے کسی شہر کے پاس نہیں، یوں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اگر دونوں مل کر چلیں گے تو پاکستان کی معیشت ترقی کرے گی۔
کراچی کے لیے نیویارک، لندن، ٹوکیو اور ہانگ کانگ کی طرح کا مالیاتی سنٹر بننا نا ممکن ہے مگر یہ ٹورنٹو، میلان اور دبئی جیسا ضرور بن سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان کی تمام صنعتوں کی سرمائے تک رسائی ہو گی جو ان کی اور ملک کی ترقی کا باعث بنے گی۔
اسی طرح اگر لاہور علم اور ٹیکنالوجی کا مرکز بن جاتا ہے، بھلے سیلیکون ویلی کے برابر کا نہ سہی، لیکن تل ابیب اور گڑگاؤں جیسا تو بن ہی سکتا ہے، تو پاکستان بھر میں روزگار کے مواقع میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔
اگر یہ دونوں شہر (کراچی اور لاہور) خود کو عالمی سطح پر لے جاتے ہیں تو ان کے مضافاتی علاقوں کو بھی فائدہ ہو گا جو خام مال اور انسانی وسائل کے سپلائر کا کام کریں گے۔ کراچی کے لیے بلوچستان میں حب اور اورماڑہ جبکہ سندھ میں ٹھٹہ، بدین، نوابشاہ اور حیدرآباد خام مال اور ملازمتوں کے لیے انسانی وسائل فراہم کر سکتے ہیں۔ لاہور کے لیے یہ کام جی روڈ بیلٹ کے علاوہ لاہور اور فیصل آباد کے درمیان کا علاقہ یہی کام کر سکتا ہے۔
مختصر یہ کہ یہ دونوں شہر ایک دوسرے کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے اور یہ ملکی معیشت کو بام عروج پر پہنچانے کے لیے انجن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ منصوبے کئی دہائیوں پر مشتمل ہیں مگر پاکسستان کو سٹریٹیجک معاشی اہداف سے کم کسی بھی چیز کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔
کراچی کی انتظامی مسائل کا عارضی حل
سیاسی مسائل کا کوئی ٹیکنوکریٹک حل نہیں ہوتا لیکن سیاسی حل نہ نکلنے تک مسئلے کے حل کے لیے ٹیکنوکریٹک انداز میں کام کیا جاسکتا ہے۔
ایک عارضی حل یہ ہے کہ شہر قائد کے لیے رابطہ کمیٹی قائم کی جائے، جیسے کراچی والوں نے پولیس کا نظام بہتر کرنے کیلئے کی تھی، اس کمیٹی کو ایک تھنک ٹینک کی پشت پناہی حاصل ہو اور اس کے تمام ملازمین مستقل کام کریں۔
یہاں آپ کے ذہن میں سوال اُٹھ سکتا ہے کہ اس رابطہ کمیٹی کو تھنک ٹینک کی ضرورت کیوں ہو گی؟ جواب یہ ہے کہ شہر کے مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کے لیے ماہرین کی رائے کی ضرورت ہو گی، ایسے ماہرین جو پانی، سیوریج، توانائی، ویسٹ مینجمنٹ، بلدیہ، خزانہ کے معاملات کی مکمل سمجھ بوجھ رکھتے ہوں اور اس حوالے سے کوئی مربوط پلان ترتیب دے سکیں تاکہ مستقبل میں ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان آئل ریفائنری بھی کراچی میں طوفانی بارشوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہ رہی
تھنک ٹینک کی جانب سے پلان کی تشکیل کے بعد رابطہ کمیٹی اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے سندھ حکومت کے نچلے اور درمیانے درجے کے سول سرونٹس، جن کا تعلق شہری حکومت، ڈی ایچ اے اور کے پی ٹی سے ہو، کے ساتھ مل کر کام کرے۔
پلان کے حوالے سے کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد سندھ حکومت کو اس منصوبے پر عمل درآمد کروانے والے سول سرونٹ اور سیاست دانوں کو یقین دہانی کروانی چاہیے کہ منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جس فیصلے اور جس چیز کی ضرورت ہوگی وہ مہیا کی جائے گی۔
مثال کے طور پر نکاسی آب کے مسئلے کو لیجیے، اس حوالے سے ایک مسئلہ اختیارات کا ہے، کچھ علاقے کے ایم سی کے تحت آتے ہیں تو کچھ صوبائی کنٹرول کے تحت چلنے والی ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز کے زیرانتظام ہیں، کراچی پورٹ ٹرسٹ جیسے علاقے وفاقی حکومت اور کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے جیسے علاقے فوج کے تحت آتے ہیں۔
اس پلان کی بنیاد حکومت کے آرکائیو میں موجود معلومات پر مبنی ہو اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام پارٹیوں کو آن بورڈ لینے کی ضرورت ہو گی، یہ پلان شہر کے تمام علاقوں کے لیے ہو گا چاہے وہ کسی کے بھی کنٹرول میں ہوں۔
پلان کی ڈرافٹنگ کے بعد رابطہ کمیٹی کو تمام پلانز کو آپس میں ہم آہنگ بنانا ہو گا یعنی ڈی ایچ اے کی جانب سے خیابانِ اتحاد میں بچھائی جانے والی نکاسی آب کی پائپ لائن کورنگی مں کے ایم سی اور ڈی ایم سی کی طرف سے بچھائی جانے والی پائپ لائن سے جڑنی چاہیے۔
رابطہ کمیٹی کو نہ صرف پلان کی نگرانی کرنا ہوگی بلکہ اسے اعلیٰ صوبائی، وفاقی اور فوجی حکام کے سامنے پیش کرنے سے پہلے مختلف محکموں سے پلان پر عمل درآمد کے لیے درکار اجازت اور منظوری بھی لینا ہو گی۔
کیا یہ سب بہت پیچیدہ ، طویل المدتی، پریشان کن نہیں؟ بالکل ایسا ہی ہے اور ایک شخص کے بس کی بات نہیں بلکہ اس کے لیے کئی لوگ درکار ہوں گے۔ ان تمام افراد کو ہفتے میں 70 سے 80 گھنٹے کام کرنا ہو گا تاکہ ایک قابل عمل اور سب کے لیے قابل قبول پلان بنایا جا سکے۔ ان افراد کو اچھی تنخواہیں بھی دینا پڑیں گے۔
اس پلان کے لیے سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ اس کے لیے شہر قائد کے تاجروں، ارب پتی صنعتکاروں، ایوان صنعت و تجارت جیسے مالیاتی ادوروں سے مدد لی جائے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے پاس خود کو ٹھیک کرنے کے لیے سب کچھ ہے اور اگر یہ ٹھیک ہو گیا تو اس کے نتیجے میں پاکستانی معیشت پر دور رس اثرات ہوں گے۔