’2019ء میں آٹو کمپنیوں نے صارفین سے چھ ہزار ارب سے زائد وصول کئے‘

قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار نے بڑی آٹو مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو گاڑیوں کے درآمدی پزرہ جات، قیمتوں، معیار، سہولیات اور کمپنیوں کے منافع  کی تفصیلات طلب کر لیں

976

اسلام آباد: ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار نے کہا ہے کہ ملک میں کام کرنے والی آٹو موبائل کمپنیاں گاڑیوں کی قیمتیں آئے روز بڑھا دیتی ہیں مگر سہولیات نہیں دیتیں، 2019ء میں آٹو کمپنیوں نے صارفین سے چھ ہزار ارب سے زائد وصول کئے، کمیٹی نے بڑی آٹو مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو گاڑیوں کے درآمدی پزرہ جات، قیمتوں، معیار، سہولیات اور کمپنیوں کے منافع  کی تفصیلات طلب کر لیں۔

ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر احمد خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاﺅس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ملک میں اسمبلی کی جانے والی کاروں کے معیار اور ان کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی تفصیلات سے متعلق سینیٹر بہرہ مند تنگی، سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ اور سینیٹر کلثوم پروین کے سوالات کے حوالے سے بحث کی گئی۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر احمد خان نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ملک میں عرصہ دراز سے بے شمار آٹو کمپنیوں نے سرمایہ کاری کی مگر جدید پلانٹ نہیں لگائے گئے جس سے ملک وقو م کو فائدہ ہو سکے۔

سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ کمیٹی کو جو ورکنگ پیپر فراہم کئے گئے ہیں اس سے مطمئین نہیں ہوں، کوئی اتھارٹی نہیں جو کاروں کی قیمت کنٹرول کر سکے اور ایک ایکٹ کے تحت کام کو چلایا جا رہا ہے، کمپنیاں گاڑیوں کی قیمتیں مرضی سے بڑھا رہی ہیں، موثر میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے کم آمدن آدمی گاڑی خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

انہوں نے کہا کہ اگر کمپنیاں گاڑیاں بنانے کے لیے خام مال درآمد کرتی ہیں تو کیا انہوں نے آج تک مقامی گاڑیاں بنانے کےلئے کوئی ترقی نہیں کی، اہم چیزیں ابھی تک امپورٹ کی جاتی ہیں۔ ملک میں 40 سالوں سے یہ کمپنیاں ٹیکنالوجی کو فروغ نہیں دے سکیں۔

سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ کمپی ٹیشن کمیشن آف پاکستان کی 2019ء کی رپورٹ کے مطابق آٹو موبائل کمپنیوں نے چھ ہزار ارب روپے سے زائد صارفین سے وصول کئے ہیں۔

چیئر مین کمیٹی سینیٹر احمد خان نے کہا کہ ملک میں کتنے پرانے پلانٹ لگے ہوئے ہیں مگر گاڑیوں کے انجن، ٹرانسمیشن سسٹم اور دیگر اہم چیزیں امپورٹ کی جاتی ہیں اور مقامی سطح پر عام پرزہ جات بنائے جاتے ہیں جو انتہائی افسوس کی بات ہے، گاڑیوں کی قیمتیں بڑھانے کا سارا ملبہ ڈالر کی قیمت میں اضافے اور حکومتی ٹیکسز پر ڈالا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا الیکٹرک گاڑیوں پر جا رہی ہے، ہم اب تک ہائبرڈ گاڑیوں کا پلانٹ نہیں لگا سکے۔ جاپان سے آنے والی گاڑیوں پر ڈیوٹی اتنی ہے کہ وہ خریدی نہیں جا سکتیں۔

سنیٹر احمد خان نے کہا کہ آٹو انڈسٹری میں دو سال میں کیا بہتری لائی گئی، کمیٹی کو آگاہ کیا جائے کہ جو کراچی پورٹ پر کسٹم ڈیوٹی لی جاتی ہے اس سے ملک کو کتنا فائدہ ہوتا ہے، باہر سے گاڑیاں آنا بند ہو گئی ہیں، پاکستان میں جو آٹو موبائلز پلانٹس لگنے تھے ان کا کیا بنا؟

چیئرمین و اراکین کمیٹی نے ملک میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں ، معیار اور ملک میں گاڑیوں کی تیاری پر پیش رفت نہ ہونے پر سخت برہمی اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں وزیر صنعت و پیداوار اور ملک کی بڑی مینو فیکچرنگ کمپنیوں کو طلب کر کے تفصیلات بشمول گاڑیوں کے امپورٹ کردہ پارٹس، قیمتیں، معیار اور گاڑیوں میں دی جانے والی سہولتیں، کمپنیوں کے منافع ، باہر سے آنے والی گاڑیوں کی ڈیوٹی وغیرہ کی تفصیلات طلب کر لیں۔

سینیٹر بہرہ مند خان تنگی اور سنیٹر آصف کرمانی نے کہا کہ پاکستان میں 10 لاکھ کی گاڑی 40 لاکھ کی کیوں ملتی ہے؟ صارفین کو لوٹا اور ضرورت سے زیادہ پیسے لئے جاتے ہیں۔ ٹیوٹا کمپنی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں گاڑیوں کے انجن اور ٹرانسمیشن کو امپورٹ کر کے اسمبل کیا جاتا ہے، گاڑیوں کی قیمتوں پر 40 فیصد ٹیکس حکومت وصول کرتی ہے جس پر سینیٹر بہرا مند خان تنگی نے کہا کہ پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں بنگلا دیش اور انڈیا کے مقابلے میں دگنا ہے۔

 سینیٹر آصف کرمانی نے کہا کہ ٹیوٹا گاڑیوں کی لوکل مینوفیکچرنگ پر پابندی عائد کی جائے جن کا معیار بھی بہتر نہیں اور قیمتیں بھی زیادہ ہیں۔ گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں منافع کمائیں مگر عوام کو نہ لوٹیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بننے والی گاڑیاں دو چار سال میں فارغ ہو جاتی ہیں، ملک میں گاڑیوں پر کوئی پرائس اور کوالٹی کنٹرول نہیں، کمپنیاں عوام سے گاڑیوں کے لیے پیسے ڈالروں کے حساب سے لیتی ہیں تو کوالٹی بھی دیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک میں دو اور تین وہیلر گاڑیوں کی پالیسی بن گئی ہے، چار ویلر کی پالیسی بن رہی ہے جس پر کمیٹی نے پالیسی مکمل ہونے تک معاملہ موخر کر دیا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ دنیا بھر میں لوگ برقی گاڑیوں کی طرف جا رہے ہیں ہمیں بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے جب تک ملک میں انسٹالیشن پلانٹ نہیں لگیں گے عوام کو فائدہ نہیں ہو گا، ملک میں برقی گاڑیوں کےلئے مقامی ٹیکنالوجی متعارف کروانی چاہئے اور کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں اس پر تفصیلی بریف کیا جائے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here