شہر قائد میں گزشتہ ہفتہ بارشوں کا تھا اور کوئی بھی کراچی والا آپ کو یہ نہیں کہے گا کہ یہ انجوائے کرنے یا خوشی کے دن ہیں۔
ملک میں کام کرنے والی چھ اور کراچی میں قائم چار آئل ریفائنریز میں سے ایک پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کے لیے بھی شدید بارشوں بھرے یہ دن اچھے ثابت نہیں ہوئے۔
25 اگست کو ہونے والی شدید بارش کا پانی پائلز کی مدد سے کھڑا پل بہا لے گیا، اس قسم کے پل ماضی میں بنائے جاتے تھے اور اب ان سے بہتر قسم کے پل تعمیر کیے جاتے ہیں۔
بارش نے پل کی جن پائلز کو متاثر کیا ان میں کورنگی کریک میں قائم ریفائنری کو کراچی بندرگاہ پر قائم کیماڑی ٹرمینل سے جوڑنے والی پائپ لائنز تھی جو برآمد شدہ تیل کو ریفائنری تک پہنچانے کا کام کرتی تھیں۔
کیماڑی شہر کے مغرب اور کورنگی مشرق میں واقع ہے، پاکستان ریفائنری کو کراچی بندرگاہ سے تیل پہنچانے والی تین پائپ لائنز کی لمبائی 16 کلومیٹر ہے۔ ایک پائپ لائن خام تیل، دوسری پٹرول اور ڈیزل اور تیسری فرنس آئل کی ترسیل کا کام کرتی ہے۔
بارش کے پانی کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیلابی ریلے کے باعث نقصان کا شکار ہونے والی پاکستان آئل ریفائنری نے پاکستان سٹاک ایکسچینج کو بتایا ہے کہ سیلابی ریلے کی وجہ سے نہ صرف پائپ لائنز متاثر ہوئیں ہیں بلکہ سائٹ تک رسائی بھی مشکل ہوگئی ہے۔
کمپنی کا کہنا تھا کہ وہ نقصان کا اندازہ لگا رہی ہے اور حفاظتی اقدام کے تحت ممکنہ طور پر ریفائنری کو بند کرنا پڑ سکتا ہے اور پائپ لائنز کی مرمت نقصان کا اندازہ لگائے جانے کے بعد ہی ممکن ہے۔
یہ بھی پڑھیے: تیل اور گیس کے شعبے میں 5 ارب ڈالر کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری لانے کا پلان تیار
یہ صورتحال پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کے لیے بہت کٹھن ہے، اس کا قیام 1960ء میں عمل میں آیا جبکہ اس کے پلانٹ نے 1962ء میں کام کرنا شروع کیا۔
شروع میں ریفائنری کی صلاحیت سالانہ دس لاکھ ٹن خام تیل صاف کرنے کی تھی جس کو بعد میں سالانہ اکیس لاکھ ٹن تک پہنچا دیا گیا۔
اس کی ملکیت پاکستان سٹیٹ آئل کے پاس ہے جو کہ اس کے 52.68 فیصد حصص کی مالک ہے جبکہ شیل پٹرولیم کے پاس بھی اس کے کچھ حصص ہیں۔
گزشتہ کچھ سالوں سے کمپنی مشکلات کا شکار ہے 2011 میں اس نے اپنے نو سالہ کارکردگی میں سے پانچ سالوں میں نقصان ظاہر کیا تھا۔
اس سلسلے میں مالی سال 2019 زیادہ پریشان کن تھا۔ اس سال کمپنی نے 5.82 ارب روپے کا نقصان ظاہر کیا جبکہ اسکا فی حصص نقصان 13.68 روپے ریکارڈ کیا گیا۔
اس پر کمپنی کا کہنا تھا کہ 2019 معاشی سست روی کا سال تھا اور اس چیز کا شکارریفائننگ انڈسٹری بھی ہوئی۔ اس کے علاوہ کرنسی کی قدر میں کمی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ کا لیز پر دی گئی سرکاری زمین پٹرول پمپوں سے واپس لینے کا حکم
2020 میں بھی کمپنی کے لیے حالات بہتر نہیں ہوئے۔ اس سال اسے 7.59 ارب روپے کا نقصان ہوا جبکہ فی حصص اسے 17.74 روپے کا نقصان ہوا۔
مزید برآں اس کا مجموعی نقصان 18.36 ارب روپے تک پہنچ گیا، یہ حالات کمپنی کی ترقی کے حوالے سے بہت سے شبہات پیدا کرتے ہیں۔
2013 میں حکومت پاکستان نے آئل ریفائنریوں کو 2017 تک ڈیزل hydroesuphurisation Unit قائم کرنے کی ہدایت کی تھی جس کا مقصد یورو ٹو کوالٹی کے ہائی سپیڈ ڈیزل کی پیداوار تھا مگر پاکستان ریفائنری نے یہ یونٹ ابھی تک قائم نہیں کیا ۔
جس کی وجہ سے ہو یہ رہا ہے کہ وزارت توانائی کے قوانین کے مطابق مسلسل تین سالوں سے اسکا ہائی سپیڈ ڈیزل کم قیمت پر خریدا جارہا ہے جس نے صرف 2020 میں کمپنی کو 1.03 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: حکومت کا او جی ڈی سی ایل، ماری پٹرولیم اور پاکستان پٹرولیم کے حصص کی فروخت کا فیصلہ
مختصر یہ کہ پاکستان ریفائنری کے لیے ان حالات کے ہوتے ہوئے کراچی بندر گاہ سے تیل کی ترسیل کی پائپ لائن کا پھٹنا اس کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کرنے والی بات ہے۔
سامنے آنے والی رپورٹس یہ بتارہی ہیں کہ عام طور پر ریفائنری کے پاس 7 سے 12 دن کا اسٹاک ہوتا ہے مگر پائپ لائن کے پھٹنے کے بعد اسے آپریشنل رکھنا مشکل ہوسکتا ہے اور مکمل طور پر بند بھی کیا جاسکتا ہے۔
اس صورتحال پر اے کی ڈی سیکیورٹیز کے شاہ رخ سلیم کا کہنا تھا کہ ”پاکستان ریفائنری کے لیے یہ سولہ کلومیٹر پائپ لائن ہے جو کیماڑی سے کورنگی تک خام تیل کی ترسیل کا کام کرتی ہے۔ یہ مین پائپ لائن ہے اور سیلابی ریلے کی وجہ سے اس کے متاثر ہونے کانقصان ریفائنری کو کتنا ہوگا یہ تو اس بات سے پتہ چلے گا کہ اس کی مرمت پر کتنا وقت لگے گا”۔
تاہم انکا کہنا تھا کہ پاکستان ریفائنری کے پاس کورنگی میں 74 ہزار 100 ٹن خام تیل ذخیرہ کرنے کی سہولت موجود ہے جس کی بنا پر یہ قلیل مدت کے لیے پیداوار جاری رکھ سکتی ہے۔
کے اے ایس بی سیکیورٹیز کے مینجنگ ڈائریکٹر اےاے سومرو کا کہنا تھا کہ پاکستان ریفائنری کے لیے صورتحال ایسی ہے کہ جس میں اس کے لیے سپلائی جاری رکھنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔
انکا کہنا تھا کہ کمپنی نے بھاری خسارہ بہت دیرسے ظاہر کیا ہے اور ایسے میں اس کے آپریشنز کی معطلی حالات کو اس کے لیے مزید سنگین بنا سکتی ہے۔