ایک چیز ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ حکومت اور بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں یعنی آئی پی پیز کے درمیان ہونے والی ڈیل کافی متاثر کن ہے، اگر یہ میمورنڈم آف انڈر سٹینڈنگ یعنی ایم او یو قانونی شکل اختیار کر جاتا ہے اور فریقین اس پر دستخط کر دیتے ہیں تو حکومت بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کے ساتھ معاملات پر نظرثانی کر سکتی ہے جس سے اِسے خاصا فائدہ ہونے کی توقع ہے۔
لیکن ہم اپنے قارئین کی یہ خام خیالی دور کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت اور آئی پی پیز کے درمیان ڈیل سے لوڈ شیڈنگ کے دورانیے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، یہ پہلے کی طرح جاری رہے گی کیونکہ مسئلہ پاور جنریشن سیکٹر میں نہیں بلکہ کہیں اور ہے۔
پاکستان کے انرجی انفراسٹرکچر کو دیکھا جائے تو سارے مسئلے کی جڑ صرف ایک چیز میں نظر آتی ہے جسے درست کرنے کی جرات حکومت بھی نہیں کرتی، وہ ہے بجلی چوری، اور اس سے بھی زیادہ اہم بجلی کی تقسیم کے نظام یعنی ڈسٹری بیوشن میں پائے جانے والے مسائل۔
یہ بھی پڑھیے: ’آئی پی پیز کو اُتنی ہی ادائیگی کی جائیگی جتنی بجلی قومی گرڈ میں جائے گی‘
80ء کی دہائی کے آخری سالوں میں اور 90ء کے شروع میں پاکستان کی معیشت ایک خاص مقام پر کھڑی تھی، حکومت بھی غیرملکی سرمایہ کاروں کو انرجی سیکٹر میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری پر راغب کرنے کیلئے پالیسیاں بنا رہی تھی، اسی دور میں حب پاور کمپنی بنی جو پاکستان میں نجی طور پر بجلی پیدا کرنے والی پہلی کمپنی تھی، حب پاور میں بجلی پیدا کرنے والی یورپی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کی۔
حب پاور کمپنی کے بعد پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے لیے مزید نجی پلانٹس لگائے گئے لیکن انہیں چلانے کیلئے فرنس آئل کا انتخاب کیا گیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ فرنس آئل پر چلنے والے پاور پلانٹس کو جلدی چلایا اور بند کیا جا سکتا ہے اس کے برعکس کوئلے یا گیس پر چلنے والے پاور پلانٹس چلنے اور بند ہونے میں زیادہ وقت لیتے ہیں اور مسلسل چلتے رہنے پر ہی بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ غیر متوقع نہیں تھا، بدلتے حقائق کے ساتھ حکومت نے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں کی، پاکستان تیل درآمد کرتا ہے اس لیے کافی مہنگا پڑتا ہے، پھر اسکی قیمت بھی غیر مستحکم رہتی ہے، امریکی ڈالر کی قدر میں اتار چڑھائو بھی تیل کی قیمت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کے باوجود 2002ء کی آئی پی پیز پالیسی کے تحت حکومت نے ملک میں تین ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کیلئے پاور پلانٹس لگانے کی اجازت دے دی جن میں سے اکثر تیل پر چلنے والے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: بجلی بحران ختم کرکے پاکستان سے اندھیرے نواز شریف نے مٹائے: حکومتی مشیر کا اعتراف
یوں جس تباہی کی پیشگوئی کی گئی تھی وہ آن پہنچی، بجلی کی پیداواری لاگت یعنی کاسٹ آف پاور جنریشن تیزی سے اوپر چلی گئی لیکن حکومت نے یہ پیداواری لاگت براہ راست صارفین سے وصول کرنے کی بجائے انہیں سبسڈی دے دی، یہی سے سرکلر ڈیبٹ یعنی گردشی قرضے کا وبال کھڑا ہوا۔
گردشی قرضہ ایک پیچیدہ چیز ہے اور یہ مزید پیچیدہ تب ہو جاتا ہے جب فیول مہنگا ہونے سے بجلی کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے تو گردشی قرضے میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے، لیکن اس کی اصل وجہ تو بجلی چوری اور حکومت کی اس چوری کو روکنے میں ناکامی ہے۔ بجلی چوری پاکستان کا عشروں پرانا مسئلہ ہے۔
جب بجلی کی پیداواری لاگت ڈرامائی طور پر اوپر جاتی ہے اور اس کے اثرات سے صارفین کو محفوظ رکھنے کیلئے حکومت کی طرف سے دی جانے والی سبسڈی اُس رفتار سے نہیں بڑھتی تو اصل مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے۔
بجلی چوری سے ہونے والا نقصان اور پیداواری لاگت کے مکمل اخراجات صارف سے وصول نہ کرنے کی صورت میں تقسیم کار یا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو ادائیگیوں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، اس کے ساتھ حکومت کی جانب سے سبسڈی کی رقم ادا کرنے میں تاخیر اس مسئلے کو مزید گھمبیر بنا دیتی ہے۔
اگر ایک ڈسٹری بیوشن کمپنی بجلی چوری کی وجہ سے اپنے صارفین سے پاور جنریشن کاسٹ یعنی پیداواری لاگت وصول نہیں کرے گی تو وہ پاور ٹرانسمشن کمپنیوں کو ادائیگی نہیں کر سکتی جو آگے پاور جنریشن کمپنیوں کو ادائیگی کرنے کے قابل نہیں ہوں گی، پاور جنریشن کمپنیاں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو، آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ریفائنریز کو اور ریفائنریز آگے آئل اینڈ گیس پروڈکشن کمپنیوں کو ادائیگی نہیں کر سکیں گی۔ اسی کو ہم گردشی قرضہ کہتے ہیں، یہ سرکلر اس لیے ہے کیونکہ زیادہ تر انرجی سپلائی چین حکومت کی ملکیت میں ہے اور حکومت کی جانب سے وقت پر سبسڈیز کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کمپنیاں ڈیویڈنڈ کی ادائیگی کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: بجلی صارفین کو فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی منتقلی مؤخر کر دی گئی
2008ء سے 2014ء کے دوران ملک بھر خصوصاََ پنجاب میں بدترین لوڈشیڈنگ جاری رہی، اس دوران مسلم لیگ ن کی حکومت نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا بہترین حل یہ سوچا کہ گردشی قرضہ ختم کیا جائے اور گردشی قرضہ ختم کرنے کیلئے بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی لائی جائے۔
یہ سوچ معقول نظر آتی ہے لیکن ایک سادہ سی وجہ کی بناء پر یہ بالکل غلط ہے، گردشی قرضہ اس لیے پیدا ہوتا ہے کیونکہ حکومت ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو صارفین سے بجلی کی مکمل قیمت وصول کرنے کی اجازت نہیں دیتی، صارف سے اگر بل میں فی یونٹ بجلی کی وہی قیمت وصول کی جائے جو کہ فی یونٹ بجلی پیدا کرنے کی اصل قیمت ہے تو گردشی قرضے کے جھنجھٹ سے جان ہی چھوٹ جائے اور لوڈشیڈنگ بھی ختم ہو جائے۔
لیکن حکومت ایسا کیوں نہیں کرتی؟ اس کی دو وجوہات ہیں:
پہلی: حکومت نہیں چاہتی کہ بل ادا کرنے والے صارفین چوری ہونے والی بجلی کے پیسے بھی ادا کریں۔
دوسری: حکومت کو خدشہ رہتا ہے کہ اگر بجلی مہنگی کی تو چوری بڑھ جائے گی۔
2013ء میں مسلم لیگ ن نے اقتدار سنبھالا تو نواز شریف حکومت نے تیل پر چلنے والے مہنگے پاور پلانٹس کی بجائے یکدم کوئلے پر چلنے والے پاور پلانٹس کو مراعات دینا شروع کر دیں کیونکہ تیل کی نسبت کوئلے سے بجلی سستی پیدا ہوتی ہے، تاہم کول پاور پلانٹس لگانے کے باوجود تیل پر چلنے والے پلانٹس کو قانونی طور پر ادائیگیاں کرنا ہی پڑنی تھیں۔
اب عمران خان کی حکومت نے آئی پی پیز اور گردشی قرضے سے جان چھڑانے کیلئے نجی کمپنیوں کے ساتھ ڈیل کی ہے جس میں طے پایا ہے کہ حکومت 15 فیصد ریٹرن آن ایکویٹی ڈالر کی بجائے روپے میں 17 فیصد کے حساب سے ادا کرے گی۔ اس کے علاوہ کل واجبات بھی ڈالر کی بجائے روپے میں ادا کیے جائیں جس کیلئے ڈالر کا ریٹ موجودہ 169 روپے کی بجائے 148 روپے رکھا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: زائد لاگت دکھا کر نیپرا سے اربوں وصول کرنے کا انکشاف، انکوائری کمیٹی کی آئی پی پیز سے 100 ارب روپے وصول کرنے کی تجویز
ائی پی پیز کے ساتھ حکومت نے ہر لحاظ سے ایک اچھی ڈیل کی ہے، پھر بھی مسئلہ وہی ہے، بجلی کی چوری۔ لیکن اس مسئلے کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اس کا بالکل آسان اور سادہ سا حل ہے کہ بجلی کے شعبے کی مکمل طور پر نجکاری کر دی جائے۔
یہ بات غور طلب ہے، ایک سرکاری کمپنی کی انتظامیہ اور ملازمین بجلی چوری سے کمپنی کو پہنچنے والے مالی نقصان یا گردشی قرضے کا دردِ سر کیوں لیں گے؟ ان کی نوکریاں محفوظ ہیں، کمپنی منافع کمائے تو انہیں کون سا فائدہ ہو گا، اگر کمپنی نقصان اٹھائے تو کون سا وہ نوکری سے نکالے جائیں گے، اس لیے وہ کمپنی کے معاملات کی بہتری کیلئے کوشش کیوں کریں؟
تاہم اگر وہ مراعات پرائیویٹ کمپنی کو دی جائیں تو سارا منظر نامہ ہی بدل جائے گا، پرائیویٹ کمپنی کارکردگی کا مطلوبہ معیار حاصل کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
اگر معیشت کو درپیش سب سے بڑے مسئلے کے حل کیلئے عملی طریقہ کار موجود ہے تو اس مسئلے کو ٹکڑوں میں حل کرنے کیلئے پیچیدگی کیوں پیدا کی جائے؟ کیوں نہ ایک ہی بار حکومت بجلی کا شعبہ پرائیویٹائز کر دے اور گردشی قرضوں اور واجبات کی مد میں ساری رقم ادا کر دے تاکہ بجلی چوری کا مسئلہ بھی مستقل طور پر ختم ہو جائے۔
کس نے سوچا ہو گا کہ تحریک انصاف جیسی دائیں سوچ ک حامل جماعت ریاستی اثاثوں کی نجکاری کرے گی، لیکں کیا کریں پاکستان کا سارا سیاسی منظرنامہ ہی کسی حیرت کدے سے کم نہیں۔