1968ء میں جب عبدالرزاق یعقوب دبئی گئے تو وہ کسی کام کیلئے نہیں بلکہ کسی شخص سے اپنی واجب الادا رقم لینے گئے تھے، دبئی اس زمانے میں آج کی طرح ترقی یافتہ نہیں بلکہ بالکل غیر پرکشش کنکریٹ کا جنگل لگتا تھا۔
لیکن اس کنکریٹ کے جنگل کے بھدے خدوخال پر ناک بھوں چڑھانے کی بجائے عبدالرزاق یعقوب کو غیر متوقع طور پر یہ شہر پسند آ گیا، انہوں نے فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگائی اور اپنے بھائیوں اور بھتیجوں سمیت دبئی منتقل ہو گئے۔
کچھ سالوں بعد عبدالرزاق یعقوب کے بھائی حاجی اقبال کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام سلمان اقبال رکھا گیا، سلمان اقبال کی پیدائش تک عبدالرزاق یعقوب ایک بڑی ٹریڈنگ کمپنی قائم کر چکے تھے جو پاکستانی مصنوعات دبئی میں درآمد کرکے فروخت کرتی تھی، انہوں نے سونے کا کاروبار بھی شروع کیا اور مشرق وسطیٰ سے معیاری سونا خرید کر پاکستانی مارکیٹ میں فروخت کرنے لگے۔ جلد ہی یہ خاندانی کاروبار ’اے آر وائے‘ کے نام سے پاکستان کے بڑے کاروباروں میں سے ایک بن گیا۔
یہ دوسری بات ہے کہ کاروبار کو اس منزل تک پہنچانے کیلئے انہوں نے قانونی ذرائع اختیار کیے یا کچھ غیر قانونی بھی کرتے رہے۔
آج اے آر وائے گروپ سونے کی ایک تجارتی کمپنی سے کہیں آگے نکل چکا ہے، یہ انٹرٹینمنٹ، نیوز، رئیل اسٹیٹ، سپورٹس، امیگریشن ایڈوائزری سمیت کئی طرح کے کاروباروں کا مالک ہے۔
کئی عشروں کی اونچی اڑان کے باوجود اے آر وائے گروپ کبھی بھی اپنے خلاف پائے جانے والے اُن شکوک و شبہات کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا کہ ان کے بزنس میں کچھ تو غلط ہے اور ان کی اونچی اڑان بھی کسی قاعدے قانون سے بالاتر نہیں، ہو سکتا ہے وہ کاروباری لحاظ سے اچھے نہ ہوں لیکن اپنے حریفوں پر سبقت حاصل کرنے کیلئے صاحب اقتدار لوگوں کی کاسہ لیسی اور خوشامد کرنے میں ماہر ہوں۔
گولڈ سکینڈل، جس میں عبدالرزاق یعقوب کا نام بھی آیا تھا، سے لیکر حال ہی میں اے آر وائے نیوز اور اس کے موجودہ سی ای او سلمان اقبال کی جانب سے کی گئی مشکوک ڈیلنگ اس گروپ کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔
خلیج میں سونے کا کاروبار
جب عبدالرزاق یعقوب نے دبئی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تو ان کے پاس مکمل پلان موجود تھا کہ کس اور کونسا کاروبار شروع کرنا ہے، اس کے لیے ان کا انحصار امارات میں بڑی تعداد میں موجود پاکستانیوں پر تھا جو ان کے کاروبار کیلئے بڑی مارکیٹ تھے۔
60ء اور 70ء کی دہائی میں امارات میں موجود پاکستانیوں کے پاس پیسہ کمانے کے کافی مواقع تھے لیکن تھے تو وہ اپنے گھر بار سے دور، دبئی اُن دنوں زیرتعمیر تھا اور عبدالرزاق یعقوب نے محسوس کیا کہ وہاں موجود پاکستانی ورکرز کو ایسی چیزوں کی ضرورت ہے جس سے انہیں اپنے گھر اور ملک کا احساس ہو سکے، اس لیے انہوں نے پاکستانی مصنوعات دبئی درآمد کرکے فروخت کرنا شروع کر دیں، یہ مصنوعات اور برانڈز پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے تارکین وطن میں بھی بے حد مقبول ہو گئے۔
سلمان اقبال نے پرافٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا،’’اس وقت ہم ’احمد اچار‘ استعمال کرتے تھے، یہ ایک ایسی چیز تھی جو پاکستان کے ساتھ ساتھ امارات میں بھی بے حد مقبول ہوئی۔‘‘
آہستہ آہستہ انہوں نے پاکستان سے ٹیکسٹائل مصنوعات، سگریٹ، اچار، چاول اور بہت سی دیگر چیزیں منگوا کر پاکستانی کمیونٹی میں فروخت کرنا شروع کر دیں، بعد ازاں دونوں بھائیوں عبدالرزاق یعقوب اور حاجی اقبال نے محسوس کیا کہ پاکستانی مصنوعات تو وہ دبئی میں فروخت کر ہی رہے ہیں کیوں نہ دبئی کی کوئی پروڈکٹ بھی پاکستان میں بیچی جائے، اور وہ پروڈکٹ تھی سونا۔
یہ بھی پڑھیے: سی این این پرڈیوسر سے میڈیا ٹائیکون تک، پڑھیے سٹی میڈیا گروپ کے مالک محسن نقوی کی کہانی
پاکستان میں ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے سونا کافی مہنگا لیکن بےحد مقبول ہے، اس لیے ملکی ضروریات پوری کرنے کیلئے سونا درآمد کرنا پڑتا ہے، اس کے علاوہ سونا خریدنے والوں کو اس کے اصلی اور معیاری ہونے کیلئے کئی طرح کی یقین دہانیاں کرانی پڑتی ہیں۔
گولڈ بسکٹس اور سکے جو لوگ سرمایہ کاری کیلئے خریدتے ہیں، عمومی طور پر 24 قیراط سونے کے بنتے ہیں جو خالص ترین ہوتا ہے، اس کے برعکس جیولری میں استعمال ہونے والا سونا 22 یا 18 قیراط کا ہوتا ہے جس میں ملاوٹ کا امکان ہوتا ہے تاہم دونوں صورتوں کیلئے سونا امریکا یا مشرق وسطیٰ سے ملتا ہے، عام طور پر حج، عمرہ پر جانے والے پاکستانی سعودی عرب سے سونا لے آتے ہیں جس کے معیاری ہونے کا پورے خاندان میں چرچہ ہوتا ہے، اسی طرح ایک زمانے میں امریکا سے واپسی پر لوگ اپنے رشتے داروں کیلئے جیولری لے کر آتے تھے۔
دبئی تجارت اور کاروبار کا عالمی مرکز بنا تو حاجی برداران نے اپنے دوسرے کاروبار میں سونے کی تجارت کو بھی شامل کر لیا اور یہی کاروبار ان کے لیے سونے کی کان ثابت ہوا، اے آر وائی گروپ 1974ء میں دبئی میں ہی قائم ہوا ، سلمان اقبال کے مطابق ’میرے والد عام تاجر کے طور پر کام کرتے رہے جبکہ میرے چچا سونے کا کاروبار سنبھالتے تھے۔‘
دیگر کاروباروں کے برعکس سونے کا کاروبار خوب چمکا، عبدالرزاق یعقوب نے تھرڈ پارٹیز کیلئے بھی سونے تجارت شروع کر دی تاہم 1986ء میں اے آر وائے گولڈ کے نام سے اپنا برانڈ متعارف کروا دیا، مزید ایک عشرے بعد جب دبئی سیاحوں کیلئے پرکشش بنا تو 1996ء میں ہونے والے پہلے دبئی شاپنگ فیسٹیول کا آفیشل گولڈ کوئن اے آر وائے گولڈ نے بنایا۔
اسی سونے کے کاروبار کے بل بوتے پر اے آر وائے گروپ میڈیا، سپورٹس اور رئیل اسٹیٹ میں آیا، اسی کاروبار کی وجہ سے بعد میں 10 ملین ڈالر کا سکینڈل بنا جس میں بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور اے آر وائے کے بانی عبدالرزاق یعقوب کے نام بھی آئے۔
اے آر وائے کی اختراع
سونا خریدنے والے کیلئے اس کا میعار ہی سب کچھ ہوتا ہے اور اگر انہیں فروخت کنندہ پر اعتماد ہو تو پھر یہی چیز معیار بن جاتی ہے، اے آر وائے گروپ نے بھی اپنے کاروبار کے دوران اعتماد سازی کی۔
اے آر وائے برانڈ سے سونے کے کاروبار کا آئیڈیا اچانک ہی وقوع پذیر نہیں ہو گیا تھا بلکہ پہلے پہل گروپ تھرڈ پارٹیز کیلئے سونے کی تجارت کرتا تھا۔ پھر 70ء کی دہائی کے وسط میں جب گروپ نے خود سونا پاکستان کو برآمد کرنا شروع کیا تو خریدنے والوں کیلئے تو یہی بات کافی تھی کہ سونا مشرق وسطیٰ سے آ رہا ہے اور معیاری ہے، مڈل ایسٹ کا سونا قدرے رنگ اور چمک میں کچھ مدہم ہوتا ہے جبکہ امریکی سونا چمکدار پیلے رنگ کا ہوتا ہے جو جیولری بنانے کیلئے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
سلمان اقبال کہتے ہیں، ’’80ء کی دہائی میں ہم مڈل ایسٹ سے سونے کے سب سے بڑے درآمد کنندہ تھے اور بھارت کو بھی برآمد کر رہے تھے، تب ہم Suisse اور Johnson Matthey جیسے بڑے برانڈز کی نمائندگی کرتے تھے لیکن اس کے بعد میرے والد کو خیال آیا کہ تھرڈ پارٹی کیلئے اتنا تردد کرنے کی بجائے کیوں نہ اپنا برانڈ متعارف کرایا جائے۔‘‘
یہ بھی پڑھیے: خاندانی اور کاروباری جھگڑوں کے باوجود’’ہم نیٹ ورک‘‘ کیسے میڈیا انڈسٹری کا بڑا نام بن گیا؟
عبدالرزاق یعقوب کو بھی اپنے بھائی حاجی اقبال کا یہ آئیڈیا پسند آیا اور انہوں نے اس پر عمل کرنے کی ٹھان لی، یوں پہلے چھوٹے کسٹمرز کو سونا فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا، سلمان اقبال وضاحت کرتے ہیں کہ ’چونکہ ہر کوئی 10 تولے یا کلوگرام کے حساب سے سونا خریدنے کی سکت نہیں رکھتا اس لیے اے آر وائے نے پہلی بار ایک گرام سے اڑھائی گرام تک کی گولڈ بارز متعارف کرائیں جن پر ’اے آر وائے گولڈ 999، دبئی‘ کندہ ہوتا تھا جو چھوٹے کسٹمرز میں کافی مقبول ہوئیں۔‘‘
پاکستان میں اکثر لوگ سونے کی شکل میں سرمایہ محفوظ کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ لمبے عرصے تک بھی سونا اپنی قدر نہیں کھو سکتا، اے آر وائے کے سمال گولڈ بارز کے آئیڈیا نے کئی چھوٹے کاروباری حضرات کو متوجہ کیا، اسے سلمان اقبال اے آر وائے گولڈ کا پہلا مرحلہ قرار دیتے ہیں۔ دوسرا مرحلہ وہ تھا جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے کہ 1996ء میں پہلے دبئی شاپنگ فیسٹیول کیلئے سونے کا سکہ اے آر وائے گولڈ نے ہی تیار کیا تھا۔
یہ سمجھنے کیلئے پاکستانی مارکیٹ کو سمجھنا ضروری ہے، جعلی یا غیر معیاری سونا تاریخی طور پر ایک مسئلہ رہا ہے اور لوگوں میں سونا خریدتے وقت اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ ان کی جمع پونجی غیر معیاری، سلور کوٹڈ سونے میں نہ لٹ جائے، اسی خوف کا اے آر وائے نے فائدہ اٹھایا۔
یہ حیرت کی بات نہیں کہ گروپ نے سنہ 2000ء میں میڈیا انڈسٹری میں قدم رکھتے ہوئے اپنے پہلے ٹی وی چینل کا نام بھی ’اے آر وائے ڈیجیٹل‘ رکھا، لیکن سونے کے کاروبار کی وجہ سے وہ تنازعات کا شکار بھی رہے۔
2005ء کی بات ہے جب لندن بلین مارکیٹ ایسوسی ایشن نے اے آر وائے کا لائسنس منسوخ کر دیا، اے آر وائے ان دنوں متحدہ عرب امارات سے کام کر رہا تھا جس کے افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ گہرے سفارتی تعلقات تھے، گروپ پر منی لانڈرنگ، منشیات کی سمگلنگ اور دہشتگردوں کی معاونت کے الزامات لگے اور دوران تفتیش گروپ کے لندن میں بینک اکائونٹ بھی بند کر دیے گئے۔۔
یہ سکینڈل بھی کسی فلم سے کم نہیں تھا، سونے کی سمگلنگ، منشیات کا دھندہ، دہشتگرد، حکومتوں کی مطلق العنانی سب کچھ اس میں شامل تھا، لیکن پھر بھی یہ سکینڈل 90ء کی دہائی میں سامنے آنے والے ’سونے کی رشوت‘ والے اس سکینڈل سے بڑا نہ تھا جس میں خود گروپ کے کرتا دھرتا عبدالرزاق یعقوب کا نام آیا اور انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
زرداری کو رشوت
ایک بار پھر 90ء کی دہائی کی بات کرتے ہیں، جب ملک میں لڑکھڑاتی جمہوریت قائم تھی، تب بحیرہ عرب کے ساتھ پاکستان کی ساحلی پٹی کراچی سے ایران تک بغیر کسی سکیورٹی کے غیر محفوظ تھی اور سونے کی سمگلنگ کا سب سے بڑا راستہ بھی۔ خلیج فارس سے آنے جانے والوں جہازوں اور کشتیوں کے ذریعے کروڑوں ڈالر کا سونا اس بحری راستے سے پاکستان لایا جاتا تھا۔
ظاہر ہے کہ اے آر وائے گروپ کیلئے کھلا چیلنج تھا کہ خلیج یا افریقہ سے سونا پاکستان میں لایا جا رہا تھا، تب عبدالرزاق یعقوب نے اپنے حریفوں کو بزنس سے باہر رکھنے کلئے حکومتی اختیارات استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
1993ء میں جب بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیر اعظم بنیں تو عبدالرزاق یعقوب نے اپنے حریفوں کے خلاف کریک ڈائون کیلئے حکومت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی، انہوں نے ایسا ظاہر کیا جیسے وہ سونے کی تجارت کو ریگولرائز کرانے کیلئے حکومت کی مدد کر رہے ہوں تاکہ مکران کی ساحلی پٹی سے سونے کی سمگلنگ کا خاتمہ ہو سکے۔
عبدالرزاق یعقوب نے گولڈ سمگلرز کیخلاف حکومت کو مالی وسائل سمیت ہر ممکن مدد کی پیشکش کی اور بدلے میں سونے کی تجارت کے حوالے سے خود کیلئے بھی کچھ ’خاص حقوق‘ کا مطالبہ کیا۔
نومبر 1994ء میں وزارت کامرس نے گروپ کو سونے کی درآمد کا لائسنس جاری کر دیا، یوں یہ گروپ دو سال کیلئے پاکستان میں سونے کا واحد درآمد کنندہ بن گیا، اے آر وائے نے پانچ سو ملین ڈالر کا سونا درآمد کیا۔
یہ بھی پڑھیے: بنکوں کو اب دیوالیہ قرض دہندگان کی رہن شدہ پراپرٹی ضبط کرنے کے لیے عدالتی احکامات کی ضرورت نہیں
یہ کہنا بلا ضرورت ہوگا کہ 90ء میں ایسا پرکشش لائسنس حاصل کرنا کئی طرح کے شکوک و شبہات کو جنم دے گیا، سوال پیدا ہوتا ہے کہ اے آر وائے گروپ نے حکومت کو ایسی کیا پیشکش کی تھی جو پورے ملک میں صرف ایک گروپ کو سونے کا درآمدی لائسنس جاری کر کے نواز دیا گیا؟ اس سے بھی اہم بات یہ کہ حکومت ایک کمپنی کو اجارہ داری قائم کرنے کیلئے نواز رہی تھی، حکومت نے آخر نجی سیکٹر کی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے قواعدوضوابط کیوں بنائے؟ ان سوالوں کے جواب ہمارے پاس نہیں، اور عدالتوں کو بھی لائسنس کے بارے میں دھوکا دیا جاتا رہا، نتیجہ یہ نکلا کہ اے آر وائے گروپ کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔
تاہم ایک بینک ٹرانزیکشن اس معاملے کے حوالے سے کافی کچھ ظاہر کر گئی جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، جس زمانے میں اے آر وائے گروپ کو لائسنس ملا، تب بے نظیر حکومت میں ان کے شوہر آصف علی زرداری وفاقی وزیر برائے سرمایہ کاری تھے، امریکا کے سٹی بینک کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات کے مطابق اے آر وائے گروپ نے اکتوبر 1994ء میں آصف علی زرداری کے بینک اکائونٹ میں 10 ملین ڈالر جمع کرائے جس کے چند ماہ بعد انہیں لائسنس مل گیا، رقم اے آر وائے گولڈ کی جانب سے زرداری کی ملکیت ایک آف شور کمپنی کیپری کورن ٹریڈنگ (Capricorn Trading) کو منتقل کی گئی۔
کسی پاکستانی عدالت کے نزدیک شائد یہ کوئی مجرمانہ فعل نہ ہوتا اور اس پر سزا بھی نہ ملتی لیکن یہ واضح طور پر رشوت تھی۔
بعد ازاں پاکستان کی احتساب عدالت میں ایک کرپشن ریفرنس دائر ہوا جس میں اے آر وائے کو فائدہ پہنچانے کے عوض زرداری پر رشوت اور کک بیکس لینے کے الزامات لگے۔ ریفرنس میں زرداری کے ساتھ بے نظیر بھٹو، اس وقت کے سیکریٹری کامرس اسلم حیات قریشی اور حاجی عبدالرزاق یعقوب پر بھی فرد جرم عائد کی گئی۔
اس کیس کا کچھ بننے سے قبل ہی بے نظیر کی حکومت ختم ہو گئی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ بیرون ملک چلی گئیں، مقدمہ دونوں کی غیر حاضری میں چلایا گیا۔
سکینڈل کا کیا بنا؟
آج کل آے آر وائے فیملی مذکورہ بالا تمام الزامات سے انکار کرتی ہے، سلمان اقبال کہتے ہیں، ’’اس سکینڈل کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ہم نے بظاہر اجارہ داری قائم کی، لیکن ایسا بالکل نہیں تھا، ہم نے سونے کی درآمد کا لائسنس اس زمانے میں حاصل کیا جب کسی نے اسے ضروری ہی نہیں سمجھا تھا۔‘‘
تاہم سلمان اقبال کے جواب سے زرداری کی آف شور کمپنی کو 10 ملین ڈالر منتقل کرنے کی وضاحت نہیں ہوتی، اور مبینہ رشوت دئیے جانے کے وقت سے متعلق بھی ان کا جواب ناقابل یقین ہے۔
انہوں نے بااصرار کہا، ’’ہم نے تمام قواعد کی پابندی کی، مجھے یاد ہے میرے والد نے ایک بار بتایا تھا انہوں نے ضیاء الحق کے دور میں بھی سونے کی درآمد کا لائسنس حاصل کرنے کیلئے اپلائی کیا تھا اور یہ اسی وقت سے زیر التواء تھا اور بے نظیر کے پہلے دور اور نواز شریف کی حکومت میں بھی التواء کا شکار ہی رہا، اور یہ ایک اتفاق تھا کہ بے نظیر کے دوسرے دور میں اے آر وائے کو مذکورہ لائسنس جاری ہو گیا۔‘‘
’’گولڈ امپورٹ لائسنس کیلئے حکومت نے درخواستیں مانگیں تو تین چار افراد نے درخواست دے دی، اے آر وائے کو لائسنس ملنے کی وجہ بالکل سادہ تھی، کسی دوسرے سونے کے تاجر کا نام بتا دیں؟ پاکستان میں کسی گولڈ پروڈیوسر یا کمپنی کا نام بتا دیں؟ آپ نہیں بتا سکتے۔‘‘
سلمان اقبال مزید گویا ہوئے، ’’جس سال اے آر وائے کو لائسنس ملا، اسی سال سونے کی تجارت پر کسٹم ڈیوٹی کی مد میں قومی خزانے میں 50 ملین ڈالر گئے، تو ایسے میں کسی کو 10 ملین ڈالر رشوت دینے والی بات کوئی معنی نہیں رکھتی، میں کسی کو رشوت دینے کے بعد اس قدر بھاری ٹیکس کیوں ادا کروں گا؟‘‘
یہ بھی پڑھیے: ’ہائوس آف حبیب‘ کو اوج کمال تک پہنچانے والے علی سلیمان حبیب کون تھے؟
لیکن سلمان اقبال کی یہ دلیل سراسر مضحکہ خیز ہے، 50 ملین ڈالر ٹیکس ادا کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کیلئے کسی حکومتی شخصیت کو رشوت دے کر مخصوص لائسنس حاصل کرنا اور اپنے حریفوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو استعمال کرنا اہم نہیں ہے، ویسے ابھی تک سلمان اقبال نے اس بات کی وضاحت نہیں کی 10 ملین ڈالر کی ٹرانزیکشن کا مقصد کیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’عدالتوں نے یہ معاملہ ختم کر دیا ہے۔‘ لیکن یہ دعویٰ بالکل گمراہ کن ہے۔ استغاثہ کی شواہد اکٹھے کرنے میں ناکامی کی وجہ سے خارج کیے گئے الزامات کا مطلب معافی یا بے گناہی نہیں، اور یقیناََ اس بات کے حتمی شواہد موجود ہیں کہ اے آر وائے نے لائسنس کے حصول سے محض چند دن قبل آصف زرداری کو 10 ملین ڈالر ادا کیے تھے اور ابھی تک اس کی وضاحت بھی نہیں کی۔
بقول سلمان اقبال مذکورہ لائسنس کیلئے حاجی عبدالرزاق کے علاوہ بھی دو تین لوگوں نے اپلائی کیا تھا، اگر آپ حیران ہیں تو دو کمپنیوں الرحیم اینڈ سنز اور الروماسن ٹریڈرز (Al-Romason Traders) نے بھی سونے کے درآمدی لائسنس کے حصول کیلئے اپلائی کیا تھا، یہ انکشافات زرداری کے سابق پرنسپل سیکریٹری سلمان فاروقی نے کیے۔
یہ کیس اب ختم کیا جا چکا ہے لیکن 2016ء میں جب یہ خارج کیا گیا تو ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
ڈیجیٹل دور میں ۔۔۔۔
سلمان اقبال کا کہنا ہے ’’لوگ ہمیں ایک میڈیا سے وابستہ فیملی سمجھتے ہیں، وہ بالکل غلط سمجھتے ہیں، کسی دوسری چیز سے پہلے ہم ایک ’گولڈ فیملی‘ ہیں۔‘‘
شائد لوگوں کو اس وجہ سے کنفیوژن ہوتا ہو کیونکہ اس وقت اے آر وائے پاکستان کے بڑے چینلز میں سے ایک ہے اور نیوز اور انٹرٹینمنٹ کی ریٹنگ کے لحاظ سے ٹاپ تھری میں سے ایک ہے۔
اگرچہ نیوز اور انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں اے آر وائے بڑا نام بن چکا ہے تاہم حالیہ سالوں میں جس چیز نے سلمان اقبال کو بڑا بنایا ہے وہ ہے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی ٹیم کراچی کنگز کے ساتھ ان کی وابستگی۔ یہ کہنا غیر اہم ہو گا کہ اے آر وائے کے میڈیا انڈسٹری کے اہم ترین ستون ہوتے ہوئے بھی سلمان اقبال اپنے خاندان کی بطور گولڈ فیملی شناخت برقرار رکھنے پر مصر ہیں، بہرحال یہ خاندانی معاملہ ہے۔
2014ء میں عبدالرزاق یعقوب کا انتقال ہوا تو ان کی نماز جنازہ ان کے روحالی پیشوا ڈاکٹر طاہر القادری نے پڑھائی، موجودہ وزیر اعظم عمران خان سمیت ملک کی اہم سیاسی قیادت نے اظہار تعزیت کیا۔
دوسرے بھائی حاجی اقبال گو کہ پہلے جیسے سرگرم نہیں، پھر بھی اے آر وائے کے دفتر جاتے ہیں، چاہے فیصلہ سازی میں ان کا کردار کم ہو چکا ہے پھر بھی وہ ایک توانا آواز ہیں جسے کمپنی کی فیصلہ سازی دوران پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا تاہم اے آر وائے کے اصل کرتا دھرتا سلمان اقبال ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: کیا نوشابہ شہزاد فرسٹ ویمن بینک کو درست سمت میں گامزن رکھنے میں کامیاب ہو سکیں گی؟
اے آر وائے کمیونیکیشنز میں 19.05 فیصد حصص سلمان اقبال کے پاس ہیں جبکہ اے آر وائے ڈیجیٹل ایف زیڈ ایل ایل سی مکمل طور پر ان کی ملکیت ہے، یوں ان کا اے آر وائے کمیونیکیشنز میں مجموعی شئیرز 64.59 فیصد بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ حاجی اقبال 15 فیصد جبکہ محمد یعقوب 8.95 فیصد شئیرز کے مالک ہیں۔
کمپنی کے اندرونی ذرائع کے مطابق عبدالرزاق یعقوب اور حاجی اقبال نے یہ طے کیا تھا کہ کاروباری معاملات سلمان اقبال دیکھیں گے، آخر دونوں بڑوں نے یہ فیصلہ کیسے کر لیا؟ ظاہر ہے اے آر وائے گروپ میں سلمان اقبال کا دیکھا گیا ہو گا، 2000ء میں جب سلمان اقبال محض 26 سال کے نوجوان تھے تو انہوں نے اپنے والد کو اے آر وائے ڈیجیٹل چینل لانچ کرنے پر راضی کر لیا تھا۔
آغاز برطانیہ میں ایک 8 گھنٹے کے ٹی وی چینل سے ہوا لیکن بتدریج توسیع کے بعد اے آر وائے پاکستان کے بڑے میڈیا ہائوسز میں سے ایک بن گیا، یہ پہلا نیٹ ورک تھا جس نے نیوز کے علاوہ دیگر چینلز بھی بنائے جہاں سے دوسرے میڈیائی اداروں کو بھی تحریک ملی۔
یہ سب کر دکھانا کچھ اتنا آسان بھی نہ تھا
میڈیا کا کاروبار آسان بالکل نہیں، یہ حالیہ برسوں میں تیز سے تیز تر ہو چلا ہے جس وجہ سے اس کاروبار میں کافی مشکلات بھی دھر آئی ہیں، صحافی کارکنوں کو بڑی تعداد میں نوکریوں سے فارغ کرنا، محتاظ کوریج اور سب سے بڑھ کر صحافی برادری اور مالکان میں ایک طرح کے خوف کا احساس غالب ہے، کاروباری اعتبار سے یہ خوف مہلک اس لیے ہے کیونکہ نیوز میڈیا کو چلانے کیلئے اشتہارات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
موجودہ حکومت نے سرکاری اشتہارات کا خرچ کم کیا ہے جس نے میڈیا کے بہت سے اداروں کو متاثر کیا ہے اور انہیں اسٹیبلشمنٹ کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے تاہم اے آر وائے کو ایسی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ اس کی ریٹنگ بھی کافی زیادہ رہی اور جیو کے قریب تر پہنچ گیا، ان کے اینکرز چھوڑ کر نہیں گئے اور مجموعی طور پر چینل کے حالات دیگر میڈیا اداروں کی نسبت کافی بہتر رہے۔
آج اے آر وائے کا شمار پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کے ایک مخصوص چھوٹے سے کلب میں ہوتا ہے لیکن یہ ہر طرح کی جبلت کے خلاف ہے جو دیگر نیوز میڈیا کی پسند ہے، شاید اسکی ایک وجہ یہ ہو کہ بیشتر میڈیا گروپس کے برعکس اے آر وائے کے مالکان نیوز میڈیا کے ساتھ زیادہ لمبے عرصے تک وابستہ نہ رہنا چاہتے ہوں۔
تاہم میڈیا کی آزادی کے حوالے سے اے آر وائے کے مالک سلمان اقبال کے خیالات چونکا دینے والے ہیں، لیکن بطور بزنس مین یہ معانی خیز ہیں، چاہے یہ اصولی موقف نہ بھی ہو۔ ان کا کہنا ہے ’’میڈیا کو ایسی آزادی ہر گز نہیں ہونی چاہیے جو ملک کو نقصان پہنچائے، مثال کے طور پر آپ کے اپنے اخبار (پاکستان ٹوڈے) کے نام میں پاکستان کا نام آتا ہے تو میرا نہیں خیال کہ آپ پاکستان کے خلاف کوئی بات شائع کریں گے، اے آر وائے بھی ایسا نہیں کرے گا، کیونکہ پاکستان سب سے پہلے ہے، میڈیا کو یقینی بنانا چاہے کہ یہ پاکستان کی ثقافت کو مسخ نہ کرے، معیشت کیلئے نقصان دہ خبریں نہ چلائے، اور کچھ بھی ایسا نہ چلائے جس سے قوم کے جذبات مجروح ہوں۔‘‘
یہ بھی پڑھیے: لائف انشورنس کمپنیاں کیسے جعلسازی کرتی ہیں؟
میڈیا کے بارے میں یہ طرزعمل جو صحافتی اخلاقیات پر وطن پرستی اور زباں بندی کو ترجیح دیتا ہو آج کل پورے ملک میں پھیل چکا ہے، یہی چیز اے آر وائے کو زیادہ ریٹنگ لانے میں مدد دیتی ہے۔
اے آر وائے پر سب سے بڑا الزام پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کا حامی ہونے کا لگتا ہے، ایک زمانے میں اس کے ٹاپ اینکر مبشر لقمان پی ٹی آئی کے دھرنے میں کنٹینر پر کھڑے ہو کر وزیر اعظم کا استعفیٰ مانگا کرتے تھے، پھر آپ نے ایک دوسرے اینکر صابر شاکر کی وہ ویڈیو بھی دیکھی ہو گی جس میں موصوف سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سپریم کورٹ کے نااہلی کو انتہائی جوش وخروش سے ناظرین تک پہنچا رہے ہیں، اس لحاظ سے اے آر وائے ادارتی اخلاقیات سے کوسوں دور نظر آتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب صحافت پر جبر کے سائے ہیں اور دیگر میڈیائی ادارے اس جبر کے خلاف کھڑے ہیں اور اپنا کاروبار کھو چکے ہیں لیکن اے آر وائے نے اس موقع سے بھی فائدہ اٹھایا ہے، اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اے آر وائے بالکل ہی شاہ کی وفاداری نبھا رہا ہے بلکہ ساری بات خبر کو ایک مخصوص زاویہ دینے کی ہے۔
اس سب کے باوجود پاکستان میں صحافت سے متعلق اکثر ٹرینڈز اے آر وائے کے بارے میں ہوتے ہیں، اس چینل کے ٹاک شوز سے لے کر چھاپہ مار اینکر کے پروگرام تک، جس میں وہ دودھ کی دکانوں میں گھس کر چیزوں کو ٹھونک بجا کر دیکھتے اور مالکان سے تندوتیز سوالات کرتے نظر آتے ہیں۔
سلمان اقبال کے بقول ’’لوگ اب پکڑے جانے کے خوف سے جرم کرنے سے ڈرتے ہیں، اس میں پروگرام ’سرعام‘ کا بھی کردار ہے اور ویسے بھی سمارٹ فونز کا زمانہ ہے، اگر کچھ بھی غلط ہو گا تو وہ ریکارڈ ہو جائے گا۔‘‘
’’پاکستان کی نیوز انڈسٹری ابھی زیادہ پرانی نہیں اور ارتقاء کے عمل سے گزر رہی ہے، بھارت میں نیوز میڈیا 40 سال پرانا ہے جبکہ پاکستان میں محض 20 سال قبل شروع ہوا، ہم ان سے آدھی عمر میں ہیں۔‘‘
ایسے بیانات سے حیرت ہوتی ہے کہ کیا سلمان اقبال بھی چاہتے ہیں کہ اے آر وائے کے اینکرز بھی بھارتی اینکر ارناب گوسوامی کی تقلید کریں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ سنسنی خیزی صحافت کی روح کے خلاف ہے لیکن اسی طریقہ کار نے اے آر وائے کو مالیاتی طور پر کامیاب میڈیا ہائوس بننے میں مدد بھی دی ہے۔ اس طرز صحافت کے باعث اے آر وائے کو کچھ پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑا اور حریفوں کے ساتھ اس کا مقابلہ توقع سے زیادہ سخت رہا۔
جیو کے ساتھ تنازع
دسمبر 2016ء اے آر وائے پہلا چینل بن گیا جسے ایک برطانوی عدالت نے حکم دیا کہ کہ اپنے خلاف سنایا جانے والے فیصلہ نشر کرے، جج سر ڈیوڈ ایڈی (Sir David Eady) نے حکم دیا کہ اے آر وائے کو اردو میں نشر کرنا پڑے گا کہ ’’2 دسمبر 2016ء کو ہائیکورٹ آف جسٹس نے اے آر وائے نیوز کو جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمان کے خلاف لگائے گئے الزامات کی پاداش میں ایک لاکھ 85 ہزار پائونڈ جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا، اور اس کے 24 پروگراموں میں میر شکیل کے خلاف لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد تھے۔‘‘
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اے آر وائے کو یہ حکم کیوں دیا گیا؟ دراصل یہ اے آر وائے کا ہی قصور تھا جس نے پاکستانی میڈیا میں پائے جانے والے ایک خاموش معاہدے کے خلاف ورزی کی تھی، معاہدہ یہ تھا کہ چینلز اور اخبارات ایک دوسرے کی ساکھ پر سوالات نہیں اٹھائیں گے۔
]مدیر کا نوٹ: دراصل ایسا سب سے پہلے ڈان نے شروع کیا تھا کہ دیگر میڈیا اداروں کے نام شائع نہیں کرنے کیونکہ اس سے بلاوجہ تشہیر ملتی ہے، تاہم اب اس معاہدے کی پاسداری ڈان سمیت تمام چینل اور اخبارات چھوڑ چکے ہیں۔]
یہ سب کچھ مبشر لقمان کا کیا دھرا تھا جنہوں نے اے آر وائے کے سب سے بڑے حریف جیو نیوز پر کئی الزامات لگائے، پاکستان میں توہین کے مقدمات عام طور پر لمبے عرصے تک چلتے ہیں اور اگر فیصلہ آئے بھی تو فائدہ جواب دہندہ کو پہنچتا ہے، تاہم جیو نیوز نے اے آر وائے کے خلاف لندن کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا، جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ اے آر وائے برطانیہ میں ایک چھوٹا چینل حاصل کرکے شروع کیا گیا تھا، یوں یہ مقدمہ پاکستان سے باہر چلا۔
یہ بھی پڑھیے: دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں کاریں مہنگی کیوں ہیں؟
یہ پاکستانی میڈیا انڈسٹری کیلئے افسوسناک بات تھی کہ اس کے دو بڑے چینل ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اچھال رہے تھے اور ایک تیسرے ملک کی عدالتوں میں باہم دست و گریبان تھے، یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ اے آر وائے اور جیو میں چپقلش چلتی رہتی ہے تاہم اے آر وائے نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹر اِن چیف میر شکیل الرحمان پر پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے بھارتی خفیہ ایجنسی سے پیسہ لینے کا الزام لگایا۔
الزامات کا بنیادی محور جنگ گروپ اور ٹائمز آف انڈیا کے اشتراک سے چلنے والی ’امن کی آشا‘ نامی مہم کو قرار دیا گیا، جیو کا مدعا تھا کہ مذکورہ مہم کیلئے تمام فنڈنگ اس کی خود کی ہے، تاہم اے آر وائے مسلسل یہ الزام لگاتا رہا کہ ’امن کی آشا‘ میں بھارتی خفیہ ایجنسی ملوث تھی۔
بالآخر برطانیہ میں مقدمہ ہارنے کے بعد اے آر وائے کو چینل بند کرنا پڑا تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے، سلمان اقبال کے مطابق ’’ہمارا جیو کے ساتھ قانونی جھگڑا تھا، اکثر لوگ سوچتے ہیں ہم نے برطانیہ میں اے آر وائے چینل لائسنس منسوخ ہونے کی وجہ سے بند کیا، ایسا کبھی نہیں ہوا، کمپنی ہم نے خود ہی بند کر دی تھی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’جیو کے ساتھ جھگڑے کی بنیادی وجہ مبشر لقمان کے پروگرام تھے، ہم وہ سب کچھ برطانوی عدالت میں ثابت نہیں کر سکے کیونکہ ہر لفظ اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرکے ثابت کرنا پڑتا تھا، ترجمے میں کہیں کوئی غلطی ہو گئی ہو گی کیونکہ اردو سے انگریزی میں ترجمہ خاصا پر مشقت کام ہے۔‘‘
اے آر وائے نے جیو کے ساتھ ہی تنازع مول نہیں لیا بلکہ ایک بار پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن (پی بی اے) کو بھی ناراض کر لیا تھا۔
ٹیکس چوری؟
میڈیا انڈسٹری میں قدم رکھنے سے لے کر ہی اے آر وائے تنازعات کا شکار رہا ہے، انہی تنازعات میں سے ایک پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن کے ساتھ بھی ہوا۔ سلمان اقبال کے بقول ’’پی بی اے کے ساتھ پسند و ناپسند پر مبنی تعلق تھا، کبھی ایسوسی ایشن ہمیں پسند کرتی تھی تو کبھی نہیں، آج کل بھی پی بی اے ہمیں پسند نہیں کرتی۔‘‘
2013ء میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حکام نے پتہ چلایا کہ اے آر وائے نے غیرقانونی طور پر استثنیٰ کے سرٹیفکیٹ کی بناء پر ایک ارب کی ٹیکس چوری کی ہے، پی بی اے نے حکومت کو اس بارے میں ایک خط لکھ دیا، تاہم اے آر وائے نے کہا کہ چونکہ اس کا بزنس ماڈل دیگر کمپنیوں سے الگ ہے اس لیے اخراجات کا درست موازنہ نہیں کیا گیا، ’’حساب کتاب غلط تھا اور سارا کیس اسی سے متعلق تھا۔‘‘
یہ بھی پڑھیے: ’’صحت کہانی‘‘ کی کہانی۔۔۔ گھر بیٹھی خواتین ڈاکٹرز کو پریکٹس کی جانب لانے کا سٹارٹ اَپ، لیکن طبی اصولوں اور اخلاقیات کو نظرانداز کردیا گیا ہے
اے آر وائے کمیونیکیشنز، اے آر وائے فلمز اینڈ ٹی وی پروڈکشنز (پرائیویٹ) نے ایک سہ فریقی معاہدے کے تحت ادائیگیوں اور وصولیوں کیلئے دبئی کی ایک آف شور کمپنی اے آر وائے ایف زیڈ ایل ایل سی استعمال کی۔
اس حوالے سے سلمان اقبال کا کہنا تھا، ’’ہم نے کوئی آف شور کمپنی نہیں بنائی، بلکہ خود ایک آف شور کمپنی تھے کیونکہ سارا کاروبار دبئی میں تھا، ہم نے سونے کا کاروبار پاکستان منتقل کیا اور اسی بزنس سے ٹی وی کے کاروبار میں پیسہ لگایا۔‘‘
’’جب پی بی اے کی جانب سے بیان سامنے آیا تو میں بھی کچھ کہہ سکتا تھا لیکن یہ سوچ کر چپ رہا کیوں کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ یہ کافی پرانا کیس ہے اور جب کبھی عدالتی فیصلہ آئے گا تو تب اس بارے میں بات کروں گا۔‘‘
ناختم ہونے والی توسیع
شفاف یا غیر شفاف طور پر ہی سہی، اے آر وائے گروپ ایک بزنس ایمپائر کھڑی کر چکا ہے اور اب یہ گروپ بزنس میں توسیع کرتے ہوئے ٹیلی ویژن اور فلم پروڈکشن میں بھی قدم رکھ رہا ہے۔
اکثر لوگوں کے خیال میں ٹی وی فلموں کا مقابلہ کرتا ہے، لیکن سلمان اقبال کے مطابق فلمیں ٹی وی کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ انہوں نے اے آر وائے کے بینر تلے بننے والی فلموں کا فخریہ طور پرذکر کرتے ہوئے کہا کہ وار، جوانی پھر نہیں آنی، پنجاب نہیں جائوں گی اور جوانی پھر نہیں آنی ٹو جیسی فلموں نے پاکستان میں کمائی کے ریکارڈ توڑے۔
فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کے حوالے سے بتاتے ہوئے سلمان اقبال نے کہا کہ ’’اسکی وجہ یہ تھی کہ بھارتی فلمیں تیزی سے پاکستانی ناظرین کی توجہ حاصل کر رہیں تھیں، سوچا کیوں نہ پاکستانی فلمیں بنائی جائیں، سٹار پلس اور سونی جیسے چینل پاکستان میں کافی زیادہ دیکھے جاتے تھے، اب انہیں کوئی نہیں دیکھتا، لوگ پاکستانی کانٹنٹ دیکھنا پسند کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی انہوں نے اے آر وائے کے متنازع ڈرامے ’میرے پاس تم ہو‘ کی مثال دی کہ وہ کس قدر مقبول ہوا۔‘‘
یہ بھی پڑھیے: تبدیل ہوتی ہوئی ڈیجیٹل دنیا۔۔۔ کیا آپ خطرے کی زد پر تو نہیں؟
تنازع کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ ڈرامے کے مصنف خلیل الرحمن قمر کی وجہ سے پیدا ہوا، ’’میڈیا میں کہتے ہیں کہ کوئی بھی پبلیسٹی بری نہیں ہوتی، ڈرامے پر تنازع سے بھی ہمارے لیے آمدن کا ذریعہ پیدا ہو گیا کیونکہ لوگوں کی توجہ اس طرف زیادہ مبذول ہو گئی، اسی لیے ہم نے اسے سینماز میں دکھانے کا فیصلہ کیا۔‘‘
ٹی وی، فلمز سینماز کے علاوہ سلمان اقبال پی ایس ایل کی ٹیم کراچی کنگز کے بھی مالک ہیں، گو کہ ان کی ٹیم ابھی تک ٹرافی نہیں جیت سکی تاہم اس سے انہیں ایک الگ پہچان ملی ہے۔ ’’مجھے چیلنجز اچھے لگتے ہیں، ہم سونے کی تجارت کرنے والی پہلی کمپنی ہیں، پہلا چینل شروع کیا، پاکستان کے سب سے بڑے فلم پروڈیوسر ہیں، اس لیے سوچا کیوں نہ سپورٹس میں بھی قسمت آزمائی کی جائے۔‘‘
’’ہم پانچ سالوں میں اپنی ٹیم پر ساڑھے پانچ ارب خرچ کر چکے ہیں تاکہ پاکستان کے سٹیڈیم دوبارہ آباد ہو سکیں۔‘‘
دوسری جانب اے آر وائے گروپ نے مشکوک عناصر کے ساتھ ڈیلنگ کی روایت برقرار رکھی جب انہوں نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری سکینڈل والے شعیب شیخ سے بول ٹی وی خریدا تاہم یہ ڈیل پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکی۔
’’میں نے 43 دن بول چلایا، تاہم جیل سے رہائی کے بعد شعیب شیخ کا ارادہ بدل گیا اور بزنس ڈیل بے نتیجہ رہی۔‘‘
کیا ڈیل ختم ہونے کا کوئی افسوس ہے؟ اس سوال کے جواب میں سلمان اقبال نے کہا کہ یہ صرف اور صرف کاروبار کی حد تک تھا اور کوئی ایسی غیرمعمولی بات نہیں تھی جس پر افسوس کیا جاتا، ’’میں شعیب شیخ کو عدالت لے جا سکتا تھا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’یہ کوئی بے جان فیصلہ نہیں تھا، میں نے سینکڑوں صحافیوں کا روزگار بچایا کیونکہ میں صحافیوں کی قدر کرتا ہوں، ورنہ ہزاروں صحافی سڑکوں پر ہوتے۔‘‘
کیا اے آر وائے گروپ ورلڈ کال ٹیلی کام لمیٹڈ کو خرید رہا ہے؟ پرافٹ کے اس سوال پر سلمان اقبال کا کہنا تھا، ’’ہم ورلڈ کال ٹیلی کام لمیٹڈ کے اکثریتی شئیرز خریدنے پر غور کر رہے ہیں، یہ اچھی کمپنی ہے لیکن فی الوقت روبہ زوال ہے تاہم میں یہ چیلنج قبول کرنے کو تیار ہوں۔‘‘
ورلڈ کال سے ڈیل کب تک ہو پائے گی؟ اس سوال پر سلمان اقبال نے پرامید لہجے میں کہا ’’بہت جلد آپ اس بارے میں سٹاک ایکسچینج سے خبر سن لیں گے۔‘‘
7 اگست 2020 کو اے آر وائے کمیونیکیشنز لمیٹڈ اور اے آر وائے ڈیجیٹل ایف زیڈ ایل ایل سی نے اے نے ڈی سکیورٹیز کے توسط سے ورلڈ کال میں 51 فیصد شئیرز حاصل کرنے کا اعادہ کیا، یہ سلمان اقبال کی ملکیت ورلڈ کال کے 76.6 ملین شئیرز کے علاوہ ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ مبشر لقمان ورلڈ کال کے ڈائریکٹرز میں سے ایک ہیں۔
ستمبر میں اے آر وائے ڈیجیٹل کے 20 سال مکمل ہو رہے ہیں اور سلمان اقبال کیلئے یہ بہت اہم موقع ہے تاہم ہو سکتا 20 سالہ کامیابی کی تقریبات وبا کے سائے تلے منانا پڑیں، کیونکہ اے آر وائے ڈیجیٹل کا سفر تنازعات کے باوجود شاندار رہا ہے۔