سٹیل ملز کی نجکاری کے لیے ٹرانزیکشن ایڈوائزرز کی تعیناتی پر سوالات کھڑے ہو گئے

پاکستان سٹیل ملز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلانے کے لیے شفافیت کی بنیاد پر ایک ہی ٹرانزیکشن ایڈوائزر کافی تھا مگر حکومت نے سات کمپنیوں پر مشتمل کنسورشیم تشکیل دے دیا جس میں وہ کمپنیاں بھی شامل ہیں جو کہ سٹیل مل کو حاصل کرنے کی اُمیدوار ہیں

1076

اسلام آباد: پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کے لیے تعینات کیے گئے ٹرانزیکشن مشیروں کی تعیناتی پر ملکی فولاد سازی کی صنعت سے وابستہ افراد نے سوالات اُٹھادیے۔

یہ مشیران حکومت کو پاکستان سٹیل ملز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلانے کے حوالے سے تجاویز پیش کرچکے ہیں۔

فولاد سازی کی صنعت سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت نے پرافٹ اردو سے گفتگو میں نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ان ٹرانزیکشن مشیروں کی تعیناتی شفاف طریقے سے نہیں ہوئی۔

انکا کہنا تھا کہ حکومت نے کسی ایک شخص کو اس عہدے پر تعینات کرنے کے بجائے ان مشیروں کا ایک کنسورشیم بنادیا ہے جن کا تعلق متعدد اداروں سے ہے۔

ان اداروں میں سے کچھ  تو سٹیل ملز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ جیسے پیچیدہ تکنیکی معاملات کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے۔

 ٹرانزیکشن مشیروں کا یہ کنسورشیم سات ارکان پرمشتمل ہے جس میں پاک چائنہ انویسٹمنٹ کمپنی لمیٹڈ کنسورشیم کی سربراہ جبکہ فرگوسن اینڈ کمپنی، کورنیلیس، لین اینڈ مفتی، ابیکس کنسلٹنگ، سائنو سٹیل اوراقبال نانجی اینڈ کمپنی بطور رکن شامل ہیں۔

فولاد سازی کی صنعت سے وابستہ شخصیت کا کہنا تھا کہ  ٹرانزیکشن ایڈوائزر کی تعیناتی بین الاقوامی قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شفاف طریقے سے ایک ہی ٹرانزیکشن مشیر کی تعیناتی جو کہ پاکستان سٹیل ملز کی تکنیکی اور کمرشل معلومات رکھتا ہو کافی تھی۔

انکا کہنا تھا کہ PCICL ایک ڈیویلپمنٹ فنانشل انسٹی ٹیوشن ہے جو کہ پاکستان اور چینی حکومتوں کی جانب سے پاکستان کی تجارت، سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کے لیے قائم کیا گیا ہے۔

یہ ایک ایسی کمپنی ہے جس کی ایکویٹی کی ذمہ داری حکومت پاکستان اور چائنہ ڈیویلپمنٹ بنک پر برابری کی سطح پر عائد ہے۔

انکا کہنا تھا کہ PCICL کا یہ دائرہ کار ہے ہی نہیں کہ وہ پاکستان سٹیل ملز کے ٹرانزیکشن ایڈوائزر کا کردار ادا کرے کیونکہ PCICL پہلے ہی حکومت پاکستان اور چینی حکومت کا جوائنٹ وینچر ہے او اسکی جانب سے آنے والی تجویز یقینی طور پر پاکستان یا چینی حکومت کے حق میں ہوگی۔

ذرائع کے مطابق ٹرانزیکشن مشیروں کے کنسورشیم میں سائنو سٹیل کی  شمولیت بھی ایک متنازعہ اقدام ہے کیونکہ سائنو سٹیل بھی پاکستان سٹیل مل کو پبلک پرائویٹ پارٹنر شپ بنیادوں پر حاصل کرنے کی اُمیدوار ہے۔

نجکاری کمیشن کی جانب سے پاکستان سٹیل ملز کی بحالی کے لیے ہیومن ریسورس، مالیات، اور ٹیکس کا پہلا مسودہ PCICL اور بنک آف چائنہ کے ساتھ شئیر کیا جاچکا ہے۔

اپریل 2020 تک  پاکستان سٹیل خسارہ تین سو ارب جبکہ اس کے قرضوں کا حجم 280 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔

واضح رہے کہ وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کو بتا چکے ہیں کہ حکومت پاکستان سٹیل ملز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلانے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے لیے بڈنگ رواں برس ہی کی جائے گی۔

انکا مزید کہنا تھا  کہ پاکستان سٹیل ملز میں دلچسپی رکھنے والی 12 میں سے چھ کمپنیاں مل کا دورہ کرچکی ہیں۔ ان کی جانب سے سٹینڈنگ کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ ملک کی سٹیل کی کھپت سات لاکھ ٹن ہے اور متعدد سٹیل ملوں کی موجودگی کے باوجود ملکی ضرورت کا زیادہ تر فولاد درآمد ہی کیا جاتا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here