اسلام آباد ہائی کورٹ کا وفاقی دارالحکومت میں پاک بحریہ کا ‘غیر قانونی ‘ کلب سیل کرنے کا حکم

سی ڈی اے نے کلب کے لیے زمین الاٹ نہیں کی تو اس کی تعمیر روکنے کے لیے کیا کیا؟ بحریہ کو نوٹس بھجوانے کا کیا مطلب ہے؟ اسے گرادیں، آئندہ سماعت سے پہلے کلب کو سیل کیا جائے، کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں: جسٹس اطہر من اللہ

704

اسلام آباد : پاکستان نیوی کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں حالی ہی میں تعمیر کیے گئے نیوی سیلنگ کلب کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی  ( سی ڈی اے ) کو حکم دیا ہے کہ مذکورہ کلب کو سیل کردیا جائے۔

دو ہفتے قبل سی ڈی اے نے اس کلب کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے پاک بحریہ کو اس کی تعمیر فوری طور پر روکنے کے لیے کہا تھا۔

معاملے کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ سی ڈی اے نے کلب کے لیے زمین کی الاٹمنٹ کا کوئی لیٹر جاری نہیں کیا۔

جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا سی ڈی اے نے اس کلب کی تعمیر رکوانے کی کوشش کی ؟

 سی ڈی اے نے عدالت کو جواب دیا کہ ” ہم نے بحریہ کو اس حوالے سے نوٹسز جاری کیے تھے”۔

جسٹس اطہر من اللہ کا اس پر کہنا تھا کہ ” کیا مطلب ہے کہ آپ نے نوٹسز بھجوائے تھے، فوری طور پر عمارت کو گرا دیں”۔

یہ بھی پڑھیے:

وفاقی حکومت کا اسلام آباد کی حدود میں قائم گھروں پر لگژری ٹیکس لگانے پر غور

گزشتہ ہفتے پاک بحریہ کا معاملے پر کہنا تھا کہ جس زمین پر یہ کلب بنایا گیا ہے وہ اسے 1994 میں واٹر سپورٹس سنٹر کے لیے الاٹ کی گئی تھی۔

بحریہ کا اپنے بیان میں مزید کہنا تھا کہ اس کلب میں اس کے غوطہ خوروں کو تربیت دی جاتی ہے جو بعد میں ملک بھر میں ریسکیو آپریشنز میں حصہ لیتے ہیں اور ملک کے شمال میں اہلکاروں کو اس قسم کی ترییت دینے کی یہ واحد سہولت ہے۔

اس پر سی ڈی اے اہلکار کا کہنا تھا کہ 1994 میں اس کلب کی تعمیر کی اجازت اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو نے دی تھی۔

جس پر عدالت نے اس کلب کو اگلی سماعت سے پہلے سیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگرایسا نہ کیا گیا تو عدالت کابینہ سیکرٹری احمد نواز سکھیرا کو طلب کرے گی۔

عدالت نے معاملہ کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم بھی دیا۔

یہ بھی پڑھیے :

اسلام آباد کو توسیع کی ضرورت ہے مگر ایک 60 سال پرانا بھوت اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا قانون کسی فوجی منصوبے کو کمرشل منصوبے میں تبدیل کرنے کی اجازت دیتا ہے؟

اس پر جب پاک بحریہ کے نمائندے نے عدالت سے جواب دینے کے لیے وقت مانگا تو جج صاحب نے کہا کہ آپکو وقت کیوں چاہیے؟ ہم آپکی اور آپکے شہدا اور انکی قربانیوں کی عزت کرتے ہیں مگر کسی غیر قانونی تعمیر کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

انہوں نے بحریہ کے نمائندے سے پوچھا کہ آپ ایک ایسی چیز کا دفاع کیوں کررہے ہیں جس کا قانونی طور پر دفاع کرنا ممکن نہیں؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ ملک کا دارالحکومت ہے نہ کہ کوئی قبائلی علاقہ، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں یہ عدالت بھی نہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here