پاکستان میں پائلٹوں کو جعلی لائسنس کا اجرا عام بات ہے : ہوابازوں کا انکشاف

کمرشل پائلٹ لائسنس محنت کے بجائے امتحان میں جعل سازی کے ذریعے حاصل کرنا آسان، سول ایوی ایشن حکام کو بھاری رشوت کے عوض امتحان میں کامیاب ہوا جاسکتا ہے، فراڈ بے نقاب کرنے والے تین پائلٹس معافی مانگنے تک امتحان میں بار بار فیل کیے جاتے رہے : پاکستانی پائلٹوں کی الجزیرہ سے گفتگو

658

اسلام آباد : پاکستانی ہوابازوں نےانکشاف کیا ہے کہ ملک میں سول ہوابازی کے نگران ادارے کی جانب سے جعلی لائسنس کا اجرا ایک کھلا راز ہے۔

انکا مزید کہنا تھا کہ ملکی  فضائی کمپنیاں ناقص انتظامات، ادھوری رپورٹنگ جیسی چیزوں کے ذریعے حفاظتی اقدامات پر سمجھوتہ کرتی ہیں۔

یہ انکشافات نام نہ بتانے کی شرط پر چھ پاکستانی پائلٹوں کی جانب سے الجزیرا ٹی وی  سے گفتگو میں کیے گئےہیں۔ ان میں سے تین ہوابازوں کے نام جعلی لائسنس والے پائلٹوں کی فہرست میں شامل ہیں تاہم انہوں نے کسی غیر قانونی کام میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔

جعلی لائسنس والے پائلٹوں کی فہرست میں ان ہوابازوں کا نام بھی شامل کیا گیا ہے جنھوں نے امتحان والے دن بھی کوئی جہاز اُڑایا تھا۔

اس بارے میں الجزیرہ سے گفتگو کرنے پائلٹوں کا کہنا تھا کہ صبح کو امتحان دینا اور شام کو جہاز اُڑانا  ایک عام بات ہے اور پاکستانی ہوابازی کے قوانین اس حوالے سے واضح نہیں ہیں اور ان میں صرف جہاز اُڑانے سے پہلے ہواباز کے مناسب آرام کرنے کی بات کی گئی ہے۔

اس چیز کی زد میں آنے والے ایک پائلٹ کا کہنا تھا کہ ” میں اس چیز کا شکار ہوا ہوں، اگرچہ میں نے کبھی ایسا سوچا نہیں تھا مگر پھر بھی ایسا ہوگیا ہے”۔

انکا مزید بتانا تھا کہ 2009  میں کمرشل پائلٹ لائسنس کے امتحان کے وقت ان کے کچھ دوستوں نے ان سے رابطہ کیا اور سول ایوی ایشن حکام کو کچھ رقم دیکر امتحان میں جعل سازی کروانے کی پیشکش کی۔

مگر جب انہوں نے اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ  اس فراڈ کے بارے میں سول ایوی ایشن کے سینئیر اہلکار کو آگاہ  کیا تو ان تینوں کو ‘معافی’ مانگنے تک امتحان میں مسلسل تین سال تک فیل کیا جاتا رہا۔

جب ہم نے معافی مانگی تو اگلی دفعہ امتحان دینے پر ہمیں پاس کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے:

پی آئی اے پر پابندی، پاکستانی پھل اور سبزیاں اب ترکش ائیر لائن کے ذریعے برآمد کی جائیں گی

ایک دوسرے پائلٹ نے جو کہ ایک فلائٹ سکول میں انسٹرکٹر تھے اور بعد میں پی آئی اے میں کمرشل پائلٹ کے طور پر کام کرہے تھے کا کہنا تھا کہ  جب لائسنس کے اجرا میں جعل سازی بہت بڑے پیمانے پر نہیں بھی ہورہی تھی تب بھی اس کے بارے میں لوگوں کو علم تھا۔

انکا کہنا تھا کہ لائسنس کے لیے ہونے والے امتحان میں جعل سازی کرنا پاس ہونے سے زیادہ آسان ہے۔ آپ کو چالیس ہزار سوال فراہم کردیے جاتے ہیں، اب آپکی مرضی کے خود پڑھ کر پاس ہوجائیں یا کسی کو پیسے دیکر اس سے اپنی جگہ امتحان دلوا لیں۔

2011 میں سول ایوی ایشن نے یورپین جوائنٹ ایوی ایشن ریکوائرمنٹ سٹینڈرڈ کے تحت پائلٹوں کے امتحانات کی تعداد تین سے بڑھا کر آٹھ  کرنے کے علاوہ امتحان کا طریقہ کار کمپیوٹرائزڈ کردیا تھا۔

الجزیرہ سے گفتگو کرنے والے پاکستانی پائلٹوں کا کہنا تھا کہ اس کا نتیجہ یہ نکالا کہ سول ایوی ایشن حکام کو رشوت دے کر امتحان دینے کے بجائے سرے سے امتحان نہ دینے کا موقع پیدا ہوگیا۔

وہ اس طرح کے سول ایوی ایشن حکام اپنی مرضی سے کمپیوٹر میں آپکا پرچہ حل کرکے آپکو گریڈ جاری کردیتے تھے جس کے لیے چھ سو ڈالر دینا پڑتے تھے۔

ہوابازوں کا بتانا تھا کہ امتحان میں کامیابی کے لیے چالیس ہزار سے ایک لاکھ روپے دیے جاتے ہیں۔

پاکستانی حکام کا الجزیرہ کو بتانا تھا کہ ہوابازوں کے لائسنس کی تحقیقات کا آغازاس وقت کیا گیا جب 2008 میں پنجگور کے علاقے میں پی آئی اے کا اے ٹی آر – 72 طیارہ رن وے سے آگے نکل گیا۔

جس کی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ طیارہ اُڑانے والے پائلٹ کا لائسنس جعلی ہے کیونکہ ہوا باز کا امتحان عام تعطیل والے دن لیا گیا مگر اس دن سول ایوی ایشن بند تھی۔

یہ بھی پڑھیے :

 ٹرمپ نیویارک میں واقع پی آئی اے کا روز ویلیٹ ہوٹل خریدنا چاہتے ہیں

الجزیرہ سے گفتگو کرنے والے ایک پائلٹ کا بتانا تھا کہ جب وہ فلائٹ انسٹرکٹر تھے توجعل سازی کرنے والوں  سے کہا جاتا تھا کہ بس لائسنس پر دستخط کردیں جو کہ میرے لیے ناقابل یقین تھا۔

انکا کہنا تھا کہ جعل سازی کرنے والے ہوابازوں کو پاس نہ کرنے پر انہیں سول ایوی ایشن کی جانب سے سخت کاروائی کا سامنا کرنا پڑا ۔

انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے ایک بار ایک ایسے ہی پائلٹ کو پاس کرنے سے انکار کیا تو  سول ایوی ایشن نے ان کے لائسنس کا آڈٹ کرایا اور انہیں جعل سازی کا مرتکب قرار دے دیا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here