حکومت کا سٹیل مل کی نجکاری کے بجائے نجی شعبے کی مدد سے چلانے کا فیصلہ

ملک میں فولاد سازی کے سب سے بڑے کارخانے کو نجی شعبے کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے طور پر چلانے کے لیے بڈنگ رواں سال ہوگی، منصوبے میں دلچسپی رکھنے والی 12کمپنیوں میں سے چھ سٹیل مل کا دورہ کرچکی ہیں : وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر

810

اسلام آباد : وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کی افواہوں کو رد کردیا۔ انکا کہنا تھا کہ ملک میں فولاد سازی کے اس سب سے بڑے کارخانے کو نجی شعبے کے اشتراک سے چلایا جائے گا۔

یہ بات انہوں نے سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کو بریفنگ دیتے ہوئے بتائی۔

انکا کہنا تھا کہ پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری نہیں کی گئی اور اسے نجی شعبے کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے طور پر چلانے کے لیے بڈنگ کا انعقاد رواں برس ہی کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ سٹیل ملز کو چلانے میں دلچسپی رکھنے والی 12 کمپنیوں میں سے چھ اسکا دورہ کرچکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

ای سی سی کا اجلاس: پاکستان سٹیل ملز کے تمام ملازمین کو ایک ماہ کے اندر فارغ کرنے کی منظوری

تعمیراتی شعبے کیلئے حکومتی پیکج میں سٹیل انڈسٹری نظر انداز

انکا کہنا تھا کہ پاکستان اسٹیل ملز کی کچھ زمین لیز پر دی گئی ہے اور اس ادارے کو خود انحصاری کی طرف لے کرجانے  کے لیے بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے۔

انکا مزید کہنا تھا کہ 2008 میں سٹیل مل کے پاس دس ارب روپے کےفنڈز تھے مگر بعد میں اسکی سیلز میں کمی آنا شروع ہوگئی اور ایک ایسے وقت میں جب مل کی سیلز میں کمی واقع ہو رہی تھی 4 ہزار  500 ملازمین کو مستقل کرنے سے اس کے مالی بوجھ میں اضافہ ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ 2010 میں مل کی پیداور چالیس فیصد رہ گئی تھی جو کے بعد میں مزید ہوکر چھ فیصد کی سطح پر آگئی تھی۔ مل کو پاکستان مسلم لیگ ن نے 2015 میں بند کردیا تھا۔

انکا کہنا تھا کہ مل بند ہونے کے باوجود حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین کو پانچ سال تک تنخواہوں اور پنشنوں کی ادائیگی ہوتی رہی جبکہ مل کے مسائل کی بنیادی وجہ استعداد بڑھائے بغیر ملازمین کی کثیر تعداد کا ہونا تھا۔

انکا مزید کہنا تھا کہ سٹیل مل کے پاس 19 ہزار ایکڑ زمین ہے مگر اسکا پلانٹ 1 ہزار  700 ایکڑ پر قائم ہے جبکہ اسکا خسارہ 225 ارب روپے ہے۔

انکا کہنا کہ اس وقت ملک میں سٹیل کی کھپت ستر لاکھ ٹن ہے اور ملک میں متعدد اسٹیل ملوں کے کام کرنے کے باوجود پاکستان کو اپنی ضرورت کا سٹیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔

اس موقع پر سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کے بجائے اسے دوبارہ سے قابل اپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے اور فوری طور پر اس کے لیے سی ای او کی تعیناتی کی جائے۔

انہوں نے حکومت سے مل کے یوٹیلٹی بلوں کی ری سٹرکچرنگ کا مطالبہ بھی کیا۔

مزید برآں پاکستان سٹیل مل کے سابق چئیرمین سینیٹر عبدالقیوم  نے تجویز دی کہ مل کے قرضے اتارنے کے لیے اسکی کچھ زمین بیچ دی جائے۔

کمیٹی ارکان نے حکومت کی جانب سے سٹیل مل کا معاملہ سنبھالنے کے انداز پر ناراضگی کا اظہارکیا اور مطالبہ کیا کہ مل کے ریٹائرڈ ملازمین کے مسائل فوری حل کیے جائیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here